پردہ یا حجاب اذیت نہیں بلکہ ایک زینت ہے ۔پردے سے ایک عورت کی عزت وناموس محفوظ رہتی ہے۔ تاریخی بیانات اور مذہبی تعلیمات سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ ظہور ِاسلام سے پہلے بھی عورتوں میں حجاب کا رواج پایا جاتا تھا اور عورتیں پردے کی پابند تھیں مگر آج کل مغربی ذہانت نے بے پردگی کو عام کیا ہے ۔ہماری بہنیں بے پردگی سے اپنے مذہب سے بغاوت اور معاشرتی اقدار سے لا تعلقی کا اظہار کرتی ہیں۔ ہماری بہنیں مغربی تمدن کو اپنا کر بے پردگی سے اپنے کو آزاد سمجھتی ہیں مگر یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ایک بے پردہ عورت کی مثال اس گڑیا کی سی ہے جو دکاندار اپنے دکان کو سجانے کیلئے اپنے دکان کے باہر رکھتا ہے اور اس گڈیا پر تمام قسم کی گندگی اور آلودگی لگ جاتی ہے۔بے حجابی سے بے حیائی عام ہورہی ہے، پردے میں رہ کر بھی ایک عورت آسمان کی بلندیوں کو چھو سکتی ہے ۔پردے سے ایک عورت کی قدر وقیمت بڑھ جاتی ہے اور وہ ہمیشہ خوش رہتی ہے۔
آج کل اگر دیکھا جائے تو کرائم ریٹ میں اضافہ کی سب سے اہم وجہ عورت کی بے پردگی ہے ۔عورت پردے میں رہے تو سرسبز میدان جس میں ہر کوئی رہنا پسند کرتا ہے جس میں پھول کِھل سکتے ہیں اور روز بروز اس میں نکھار آجاتا ہے اوراگر بے پردہ رہے تو بنجر زمین جس کی طرف لوگ دیکھتے تک نہیں ہیں اور وہ جگہ صرف اور صرف جھاڑیوں اور کانٹوں کے لئے بنی ہوتی ہے۔ پردہ کی اخلاقی بنیاد یہ ہے کہ یہ عورت میں مرد کے مقابلہ میں ایک خودداری کا احساس پیدا کرتا ہے کہ مرد کو خیانت کے ساتھ عورت کی طرف قدم نہیں بڑھانا چاہئے۔معالجین کے مطابق حالیہ وبائی مرض کووڈ۔19میں بھی پردے میں رہ کر خود کو اس عالمی وبا سے بچایا جا سکتا ہے ۔مختلف طرح کے جراثیم ہوا میں تنفس اور تکلم کے ذریعہ سے جسم تک پہنچنے کے امکانات ہوتے ہیں اور ان جراثیم کے مضر اثرات سے عورتیں پردہ کی پابندی کی وجہ سے زیادہ محفوظ رہ سکتی ہیں۔
قابل ذکر بات ہے کہ یہاں جن گھرانوں میں پردے کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اُسن میں سے بعض کے حالات جو وقوع پذیر ہوئے ،انہوں نے دوسروں کو لرزہ براندام کردیا اور بہت سے جو پروازِترقی کیلئے پرتول رہے تھے ،پر سمیٹ کر بیٹھ گئے ۔ہمارے اسلاف نے بہت پہلے پردہ نہ ہونے کے حالات کا تجربہ کرکے پردہ کے قانون کو اختیار کیا ۔مسلمان عورت پردہ کرکے خود کو جہنم کی آگ سے بچاتی ہے۔ ایک دیندار معاشرے کی عورت پردے کو اپنی ترقی میں کبھی بھی رکاوٹ نہیں ٹھہراتی۔ وہ پردے میں رہ کر بھی اپنے کام کو جاری وساری رکھتی ہے۔آجکل کچھ عورتیں بے پردگی کی وکالت کرکے کہتی ہیں کہ بے پردگی ایک فیشن ہے جبکہ اس بات سے ناواقف ہوتی ہیں کہ بے پردہ عورت پر جنت کی خوشبو تک حرام ہے ۔حجاب بہت ضروری ہے کیونکہ جب خواتین حجاب کے بغیر گھر سے نکلتی ہیں تو لوگ انہیں بری نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس سے ’زنا‘ جیسی برائی جنم لیتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ مرد نے عورت کو ہمیشہ کھلونا بنائے رکھا ہے اور اپنی مطلب بر آوری کیلئے کبھی اس کی قدر وقیمت کا لحاظ نہیں کیا ۔یہ صرف اسلام ہے جو کمزوروں کا حقیقی محافظ ہے اور جس نے عورت کو مرد سے بچانے کے لیے پردہ کے قلعے میں محفوظ کیا۔ لفظ ’عورت‘ کے معنی بھی چھپانے والی چیز ہے ۔خواتین کے لیے اللہ کا حکم ہے کہ وہ اپنے سروں کو ڈھانپ کر رکھیں ،جس سے واضح ہے کہ انہیں اپنے چہروں اور سروں کو ڈھانپ کر رکھنا چاہیے۔
اگرچہ حجاب اور پردہ کرنا قرآن اور دین کی طرف سے ایک حکم ہے جو بالغ افراد کے اوپر واجب ہے، لیکن اس حکم کی ماہیت معاشرتی ہے ۔اسی لئے اس کی رعایت کرنا اور رعایت نہ کرنا معاشرتی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ۔والدین کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو سختی سے پردے کا پابند بنائیں۔ ہماری مائیں اور بہنیں ٹیلی ویژن ڈراموں اور فلموں کی عورتوں کا نقل اتار کر انہیں اپنا شیوہ بناتی ہیں اور کپڑے کا کاروبار کرنے والوں کا حال دیکھئے وہ بھی عورتوں کو یہ لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں وہ اپنے کپڑوں کو نئے نئے سیریلوں یا فلموں مثلاً خدا گواہ، ارتغل،قْم قْم بھاگیہ، مشن کشمیر جیسے نام دیکر اس فحاشی کو بڑھاوا دیتے ہیں اور عورتیں بھی اندھی تقلید کرکے ان کے ان ناموں کے کپڑے بڑی دھوم دھام سے خرید رہی ہیں اور اسلام کو بالائے طاق رکھ کر غیروں کے فیشن کو اپنانے میں ہی خیر سمجھتی ہیں۔ اس لئے ابھی بھی وقت ہے کہ ہم بیدار ہوجائیں اور دشمن کی مذموم چالوں سے خبردار رہیں۔ دشمن چاہتا ہے کہ ہماری بہنیں پردے کو بھول جائیں اور مغربی تہذیب و تمدن کا بول بالا ہو۔اس لئے آیئے ہم مل کر ایک اچھا اور با پردہ معاشرہ بنائیں تاکہ ہماری بہنیں پردے کا اہتمام کریں اور ہماری آنے والی نسلوں کو اس فحاشی سے نجات مل سکے۔
رابطہ : خانپورہ کھاگ،7006259067