عین شاہراہ کے بیچ میں وہ جوان فقیرن سارے ہجوم سے بے خبر لوگوں کی نگاہوں اور نظروں سے بیگانہ اپنے تن پہ ملبوس اپنی واحد چادر کو پھیلا ئے، راشن کے ٹرک سے گرے ہوئے اناج چن رہی تھی ۔
راہگیر ساکت و جامد ٹھٹک کر اس کی حرکت کو دیکھ رہے تھے ۔مگر اسے نہ اپنی تن کی پرواہ تھی نا ہی لوگوں کے طعن کی۔اسے فکر تھی تو اپنے ان بلکتے ہوئے بچوں کی جن کو وہ فلائی اوو(Flyover )کے نیچے اپنے سائیبان میں چھوڑ آئی تھی۔
انسانیت تو کب کی دم توڑ چکی تھی ۔آسمان انسان کی اس بلکتی بے بسی پر گریہ کناں تھا مگرابنِ آدم زمین پر انسانیت کا گلاگھونٹ کر کب کا بے حس ہوگیا تھا ۔
آج پھر سے آسمان برسا اور سارا شہر سیلاب کی زد میں تھا ۔