خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد مسلمانوں کے لئے مقدس ترین مسجد مسجد اقصی اقدس ہے۔مسجد اقصیٰ جہاں جملہ انبیاء کرام نے نمازیں ادا کی۔ جہاں تاج دار مدینہ اور معلم کاینات حضرت محمد ؐنے تمام انبیاء کی امامت کی۔ جہاں سے پیغمبرِ آخردو زماں ؐ نے معراج کا سفر کیا۔ اس مسجد میں قریباً 5000 لوگوں کے لئے نماز پڑھنے کی جگہ موجود ہے اور مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں لوگوں کے لئے بیٹھنے کی اجازت اور خانہ کعبہ سے تقریباً 1300 کلومیٹر کی دوری پر سرزمین فلسطین میں قائم مسجد اقصیٰ مسلمانوں کی مظلومیت،جبرو تشدد،محکومیت اور بے بسی اور بے کسی کے لئے ماتم کناں ہے۔مسجد کے گنبد سے آج آوازیں آرہی ہیں۔ ملت اسلامیہ سے وابستہ کروڈوں لوگو قبلہ اول خون میں غلطاں ہے،در و دیوارسے مظلوم خون کے دریا ٹپک رہے ہیں،گنبد سے آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں، مسجد کے گرد و نواح میں موت کا رقص ہے،گرتی لاشیں ہے،تیغ و تفنگ ہے،بموں کی بارش ہے،میزایل داغے جارہے ہیں،معصوم بچوں کو چھلنی کیا جارہا ہے،عورتوں کی قبائیں چاک ہورہی ہیں،مظلوم مسلمان قابض اور جابر فوج کے ساتھ نبرد آزماء ہیں،توحید کا پرچم مسجد کے صحن میں گارڈ کر مسجد کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کر رہے ہیں۔ گْزشتہ کئی دنوں سے ہزاروں مظلوم فلسطینی کھلے آسمان تلے بنا یہودیوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ بھوک و پیاس سے نڈھال فلسطینی مسلمان مسجد اقصیٰ کی حفاظت میں ایک طرف سے اپنا خون بہا رہے ہیں وہیں دوسری طرف سے چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہاں ہے وہ57 اسلامی ممالک ،کہاں مسلم بادشاہ اورمسلم فوجین اور کیوں دْنیا کے مسلمان خاموش اور لب بستہ ہیں۔ایسے میں عقل و دانش و بینش رکھنے والے لوگوں کے ذہنوں میں بہت سارے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ امریکہ کا ایجنٹ کہلانے والا اسرائیل، فلسطینی سرزمین پر ناجائز قبضہ جمانے والا اسرئیل،دْنیا میں فساد بھرپا کرنے والا اسرائیل ایک سازش رچا کر فلسطینی کی سرزمین پر آباد ہوتے گیا۔ یہودیوں کے خمیر اور ضمیر میں ظلم ہے،جبر ہے،فتنہ ہے،فساد ہے۔ کم آبادی کے باوجود یہودیوں نے فلسطین میں رہنے والے مسلمانوں کا قافیہ حیات تنگ کیا ہوا اور اس تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق فلسطینی مسلمان اپنے دفاع میں میدان کارزار میں لڑرہے ہیں لیکن 57 اسلامی ممالک کی بے کسی، اسلامی ممالک کی تنظیم OIC کی بے بسی،اور چند مسلم ممالک کا قابض اسرائیل کے ساتھ دوستی
من از بیگانہ گاں ہر گز نہ نالم
کہ بامن آنچہ کرد آشنا کرد
ایک طرف سے ملت اسلامیہ کی بے حسی اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ آخر ٹیکنالوجی میں ہم ہی پیچھے کیوں، محنت اور مشقت میں ہم ہی لاپرواہ کیوں ،فلسطین کے معاملے میں ہماری بزدلی کیوں اور رہی بات یو این او وہ تو ایک کاغذی گھوڈا ہے جو صرف برائے نام ہے۔ مسجد اقصی کی اپنی ایک تاریخ ہے اور مضبوط بنیاد ہے اسکے برعکس یہودی قوم نے وہاں جابرانہ قبضہ بنا کے رکھا ہے۔ دْنیا کے لوگ اس پرتماشائی کیوں بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے،یورپ کا تعاون حاصل ہے،روس کا آشیرواداورحاصل اور تو اور کچھ اسلامی ممالک نے بھی اپنے مراسم اسرائل کے ساتھ مضبوط کئے ہوئے ہیں۔حرماں نصیبی یہ ہے کہ آخر کروڑوں کلمہ خوان مغلوبیت کے شکار کیوں ہیں،ٹیکنالوجی میں پیچھے کیوں ہیں، افرا تفری کے شکار کیوں ہیں،عیش کوشی اور تساہلی میں مبتلاء کیوں ہیں، مجبور و مقہور کیوں ہیں۔اسکے علی الرغم لاکھوں یہودی منظم ہوکر ترقی کی راہوں کو چھو رہے ہیں اور گریٹر اسرائل کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے میں دن دوگنی اور رات چوگنی محنت کر رہے ہیں۔ بہر کیف گزشتہ کچھ روز قبل اسرائیلی فوج نے عادت سے مجبور بیت المقدس میں موجود نمازیوں پر اچانک حملہ کیا،میزائل داغے،بم برسائے اور ایک جنگ کا سماں پیدا کیا جو ابھی تک جاری ہے لیکن دْنیا خاموشی تماشائی بنی ہوئی ہے اور کچھ مسلم ممالک کو چھوڈ کر باقی لوگ اپنے ہونٹوں کو جنبش بھی نہیں دے رہے ہیں۔