راجوری ضلع کے ایک دور افتادہ گاؤں بڈھال میں کسی پراسرار بیماری کی وجہ سے جاری اموات تشویشناک حد تک پہنچ گئی ہیں۔ دسمبر 2024سے اب تک 17افراد اس بیماری سے فوت ہو چکے ہیں جس نے نہ صرف تین خاندانوں کو ختم کردیا ہے بلکہ پوری بستی ہی غم سے نڈھال ہے۔ مقامی طبی ٹیموں کی کوششوں کے باوجود بیماری کی وجہ نامعلوم ہےجس سے حکام اور رہائشی دونوں ہی جوابات حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔محکمہ صحت کے اہلکار گھر گھر جاکرسکریننگ کر رہے ہیں، خوراک اور پانی کے نمونوں کی جانچ کر رہے ہیں اور آلودگی کے کسی بھی ممکنہ ذرائع کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ متاثرین کے نمونوں میں نیوروٹوکسن کی دریافت اور آلودہ پانی کے ذرائع کی تاحال تصدیق ہوچکی ہے اور کہاجارہا ہے کہ یہ بیماری ماحولیاتی عوامل سے منسلک ہو سکتی ہے۔ اگرچہ کیڑے مار ادویات کی موجودگی کے بعدایک چشمے اور ایک کنویں کو سیل کر دیا گیا ہے، لیکن نقصان کی مکمل حد ابھی تک واضح نہیں ہے۔ حکام کو اس بات کو یقینی بنانے کیلئے تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مزیدانسانی جانوںکے اتلاف سے بچا جاسکے۔اگرچہ صحت کے کچھ عہدیداروں کا اصرار ہے کہ صحت عامہ کی ایمرجنسی کا اعلان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن کمیونٹی میں بڑھتی ہوئی ہلاکتوں اور بڑھتا ہوا خوف و ہراس ایک الگ کہانی بیان کرتے ہیں۔ صورت حال اب ایسی نہیں رہی جسے کم یا نظر انداز کیا جا سکے۔ اہل خانہ خوف کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں اور مزید اموات کو روکنے کیلئے مقامی انتظامیہ کو فوری طور پر ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔ یہ صرف سکریننگ اور ٹیسٹوں کا وقت نہیں ہے بلکہ ایک مربوط اور ٹھوس ردعمل اب ناگزیر بن چکا ہے۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ اب وزیر داخلہ امت شاہ کی ہدایت پر وزارت داخلہ کی سربراہی میںایک بین وزارتی مرکزی ٹیم گائوںمیں موجود ہے جو جانچ کے عمل میں مصروف ہے تاہم حکومت کو فوری طور پر بیماری کی بنیادی وجہ کی نشاندہی کرنی چاہئے اور مزید آلودگی کو روکنے کیلئے تمام ضروری اقدامات کرنے چاہئیں جبکہ متاثرہ خاندانوں کو مکمل تعاون کی پیشکش بھی کرنی چاہئے۔بڈھال کے لوگوں کو نہ صرف طبی امداد کی ضرورت ہے بلکہ اس یقین دہانی کی بھی ضرورت ہے کہ حکومت ان کی زندگیوں کے تحفظ کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ اس بحران کو روکنے کیلئے شفافیت، واضح مواصلت اور فیصلہ کن کارروائی بہت ضروری ہے اس سے پہلے کہ یہ مزید تباہی کرے۔ بڈھال سانحہ کسی بھی طور کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنی نوعیت کا انتہائی سنگین واقعہ ہے جس میں کم از کم تین گھروںکا صفایا ہوچکا ہے اور کم بچوں سے لیکر معمرین تک موت کا نوالہ بن چکے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حکام اپنی طرف سے معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں اور اب وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی گائوں کا دورہ کرکے صورتحال کا جائزہ لیا جبکہ اس سے قبل کابینہ وزراء بھی وہاں جاچکے ہیں تاہم ان دوروں سے اُس وقت تک کچھ حاصل نہیں ہوگا ،جب تک کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہو۔اب پولیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم بھی ان ہلاکتوں کی تحقیقات کررہی ہے جبکہ مرکز کی بین وزارتی ٹیم بھی گائوں میں خیمہ زن ہے ۔ایسے میں امید کی جاسکتی ہے کہ اس تحقیقاتی عمل کو منطقی انجام تک پہنچایاجائے گا تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ ان ہلاکتوں کی اصل وجہ کیا ہے۔لوگوںکو حقائق جاننے کا حق ہے اور حکام کو بھی چاہئے کہ وہ فوری طور ان پر اسرار ہلاکتوں سے متعلق تمام حقائق لوگوں تک پہنچائیںتاکہ بے چینی کا عالم ختم ہوسکے اوراس کا کچھ تدارک کیاجاسکے۔