بچوں کی بھلائی والدین کی ذمہ داری

نیویارک میں ایک فلاحی تنظیم نے ہائی اور پرائمری اسکولوں کے تقریباً تین ہزار بچوں پر دو سال تک تحقیق کی۔ تحقیق میں بین الاقوامی ماہرین کے ایک گروپ نے یہ نتیجہ نکالا کہ جو بچےموبائیل فونز کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں، اُن میں ڈپریشن اور پریشانی بڑھ جاتی ہے اور وہ دوسروں سے ملنے جلنے سے گھبراتے ہیں، کسی سے میل جول پسند نہیں کرتے اور تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔جبکہ کچھ طبی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے بچوں کو اعصابی بیماری میں مبتلا ہونے کازیادہ امکان ہوتا ہے۔اسی طرح جو بچےویڈیوگیمزکے ساتھ زیادہ وقت گذارتے ہیں،وہ بچے وڈیو گیمز کے کیریکٹرز کے ساتھ خود بھی یہ محسوس کرتے ہیںکہ وہ بھی اس کا حصہ ہیں،جس سے اُن میں جذباتی کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں جو بہر صورت اُن کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔بے شک والدین کو سب سے عزیز اپنی اولاد ہوتی ہے اور اولاد کو سب سے زیادہ محبت والدین سے ہی ہوتی ہے،والدین کی ڈانٹ ڈپٹ سے بھی پیار جھلکتا ہے۔اس لئےیہ ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ اپنی اولاد کواچھے بُرےکی پہچان کروائیں، بُری باتوں اور بُرے کاموںسے روکیںاور اُن کی بھلائی کے لئےاُن کے ساتھ دوستانہ ماحول بنائیںتاکہ بچےاُن کی نصیحتوں پر عمل کریں اوربچےکوئی بھی بات والدین کو بتانے میں جھجھک محسوس نہ کریں۔ والدین اور اُن کی اولاد کے مابین دوستانہ ماحول سے جہاں بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہوجاتی ہے، وہیں اس ماحول میںوہ فارغ اوقات گھر میں گزارنا پسند کرتے ہیں اور باہر کی بُری سوسائٹی سے دور رہتے ہیں۔لیکن ہمارے معاشرے میںیہ دیکھنے میں آرہا ہےکہ زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو کوئی بھی بات پیار و محبت سے سمجھانے کے بجائے محض ڈانٹ ڈپٹ یا مار پیٹ سے کام لیتے ہیں،جس کے نتیجے میںبچے نہ صرف ضدی اور خود سربن جاتے ہیں بلکہ باہر کے دوست بنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور بُری سوسائٹی اپنا لیتے ہیں۔پھریہ بچے اُس سوسائٹی میں ایسے قدم جما لیتے ہیں جہاں سے واپسی کا راستہ اُن کے لئے انتہائی مشکل بن جاتا ہے ۔ اگرچہ دوست بنا نا کوئی بُری بات نہیںمگردوست کا کریکٹر صاف و پاک اور بے داغ ہو،اس کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی ۔چونکہ بچوں میںاچھے یا بُرےدوست کا انتخاب کرنے کی تمیز نہیں ہوتی ،اس لئےاُنہیںجیسے بھی دوست ملیںگے،وہ اُنہی کا روپ دھار لیتے ہیں۔چنانچہ دورِ جدید میں بچوںمیں بڑھتے ہوئے موبائل فونز کے رُحجان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ موبائل فون ہر اس شخص کی ضرورت ہے جوکاروبار یا ملازمت سے تعلق رکھتا ہو ،اس لئے بڑوں کی دیکھا دیکھی میں بچوں نے بھی اسے اپنی ضرورت بنا لیا ہے ۔جس کا نقصان یہ ہے کہ بچے پڑھائی پر کم اور موبائل فون پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، سارا دن مسیج اور گیمز کھیلنے میںمشغول رہتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ بچےبغیر سوچے سمجھے موبائل فون کے ذریعے اُن بچوں سے دوستی بنا لیتے ہیں جن کووہ نہ جانتے ہیں اور نہ ہی اُن سے واقف ہوتے ہیں، اُن کی یہ دوستی بھی زیادہ تر نقصان دہ ثابت ہوتی ہے، جس کا خمیازہ والدین کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔اگرچہ موبائل فون بُری چیز نہیںاور اس کا مثبت و مناسب استعمال اچھاہے مگر اس کےمنفی استعمال سےنہ صرف آنکھوں کی بینائی متاثر ہوتی ہے بلکہ اس کے زیادہ استعمال سے بچوں پڑھائی بھی متاثر ہوجاتی ہے۔ہم اپنےبچوں کوسکول اس لئے بھیجتے ہیںتاکہ انہیں تعلیم سے اچھے بُرے میں پہچان کرنے کی صلاحیت حاصل ہوسکے اور تعلیم سے اُنہیں کار آمد شہری بنانے میں مددمل سکے ،بشرطیکہ جو علم وہ حاصل کرنے جاتے ہیں اس پر عمل کیا جائے۔ظاہر ہے بچے زیادہ تر وقت اپنے گھروں میں ہی گذارتے ہیں،اس لئےانہیںبُری باتوں، بُری سوسائٹی،بُرے دوستوں اور بُرے کاموں سے دور رکھنےمیں سب سے زیادہ رول والدین کا ہوتاہے،نہ کہ اساتذہ کا۔جبکہ حق بات یہ بھی ہے کہ آج کے بچے بڑے ہونہار اور ذہین ہیں، ارد گرد کے ماحول سے باخبر ہیں، مختلف چینلز کے ذریعے ایک ایک پل کی خبر رکھتے ہیں۔اِرد گرد کے ماحول کی خبر رکھتے ہوئے بُری سوسائٹی کے بچے بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔اس لئےبچے کے اچھے مستقبل کے لیے اس پر کنٹرول کرنا والدین کے لیے بے حد ضروری ہے۔