بٹھنڈی اور گول ہلاکتیں: پس پردہ عزائم تلاش کرنے کی ضرورت

یکے بعد دیگرے رونما ہوئے بٹھنڈی اور گول واقعات، جن میں پُر اسرار طور پر دو عام شہریوں کی ہلاکتیں پیش آئیںجبکہ تین افراد زخمی حالت میں پڑے ہوئے ہیں ،نے خطہ جموں کے سنجیدہ فکر شہریوں کو زبردست پریشانی سے دوچار کردیا ہے ۔اگرچہ دونوں ہی واقعات میں پولیس کیس درج ہوئے ہیں اور واقعات کی مجسٹریل تحقیقات کرانے کے احکامات بھی صادر ہوئے ہیں تاہم متاثرین سراپا احتجاج ہیں اور وہ ان واقعات کے پس پردہ عزائم کی نشاندہی کرکے ملوثین کو کیفرکردار تک پہنچانے کی مانگ کررہے ہیں ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ چند روز قبل جموں کے بٹھنڈی علاقے میں ضلع پونچھ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کو سابق وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کے باہر گولی مار کر ہلاک کردیاگیا اور پولیس و سیکورٹی فورسز نے جواز یہ پیش کیاکہ مذکورہ نوجوان تیزی رفتاری کے ساتھ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے  سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی رہائش گاہ کی  طرف بڑھ رہاتھا ،جس کو خطرہ سمجھ کر گولی چلائی گئی تاہم سرکاری اطلاعات کے مطابق نہ ہی تو اس نوجوان سے کوئی ہتھیار برآمد ہوا ہے اور نہ ہی اسکا کوئی مجرمانہ ماضی رہا ہے۔ مذکورہ نوجوان کے رشتہ داروں کا یہ کہنا بجا ہے کہ اگر پولیس و سیکورٹی  فورسز کی بات کو ہی سچ مان لیاجائے تو کیا ایسا نہیں کیاجاسکتاتھاکہ بجائے گولی مارنے کے اس نوجوان کو زندہ پکڑنے کی کوشش کی جاتی اور اگر اُس کا جرم ثابت ہوجاتا تو اسے سزا دی جاتی مگر ایسا نہ کرکے سیکورٹی فورسز نےہلاکتوں کی روش پر گامزن رہنے کے رجحان کا ثبوت پیش کیاہے ۔اسی طرح سے گول واقعہ میں بھی بغیر کسی جرم کے عام شہریوں پر گولی چلاکر ایک کو ہلاک اور ایک کو زخمی کیاگیا اورپھر بعد میں مویشی ڈھوک لے جارہے دو افراد کی پٹائی بھی کی گئی ۔اس معاملے پر بھی فوج کے خلاف باضابطہ پولیس کیس درج ہواہے اور مجسٹریل انکوائری کے احکامات بھی جاری کئے گئے ہیں مگر ابھی تک واقعہ کے حوالے سے کوئی ٹھوس کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور یہی وجہ ہے کہ گول اور سنگلدان کے لوگ سراپا احتجاج ہیں اور وہ ملوثین کو گرفتار کرنے کی مانگ کررہے ہیں ۔یہ واقعہ علیٰ الصبح ساڑھے چار بجے رونما ہوااور مویشی تاجروں کو گھر کے  اندر گولیاں مار دی گئیں جبکہ دو افراد کی مارپیٹ کی گئی ،جس سے وہ بھی شدید مضروب ہوئے ہیں ۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پرامن جموں خطہ میں پے درپے ایسے واقعات کیوں پیش آنے لگے ہیں  اور اس کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہوسکتے ہیں ۔دونوں ہی واقعات کےلئے فورسز اداروں کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے اور بدیہی طور پر ایسی کاروائیاں انجام دینے کا کوئی قانونی و اخلاقی جواز بھی نظرنہیں آتا اور نہ ہی بغیر تفتیش و جرم ثابت ہونے کے کسی کو گولی مار کر قتل کرنا کسی قانون میں جائز ہے۔ان واقعات سے صوبہ جموں میں خوف و ہراس کی ایک ایسی فضا قائم ہوئی ہے جس میں ہر کوئی شخص خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگا ہے ۔اس بات سے شاید ہی کوئی اختلاف کرسکتا ہے کہ پچھلے دس بارہ سال سے جموں خطہ میں صورتحال قدرے بہتر اور پُر سکون رہی ہے۔مگر اب پھر سے پرامن حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو صورتحال کو کشیدہ بناسکتی ہے ۔انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ لگاتار دو دنوں میں رونماہوئےان واقعات کے پس پردہ عزائم کو بے نقاب کیا جائے اورملوثین کو فوری طور پر گرفتار کرکے انہیں انصاف کے کٹہرے میںکھڑاکیاجائے اور متاثرہ کنبوں کو انصاف فراہم کیا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو یقینی طور پر انصاف اور قانون سے لوگوں کا اعتماد اُٹھ جانے کا خطرہ ہے۔