اس دورِ جدید کی بیشتر مسلم نوجوان نسل کے پاس اگرچہ دنیا کی آسائشیں اور سہولیات تو ہیں، مگرافسوس اس بات کی ہے کہ اسلامی تعلیمات اور حقیقی ایمان کی روح اوراسلامی احکام کا شعور اور عمل اُس میں مفقود ہے، جس کی مثال ہمیں اس کی ظاہری زندگی اور طرزِ عمل سے ملتی ہے۔یہ نوجوان اپنے جسمانی وضع قطع میں مغربی فیشن کو اپنا کر اسلامی تعلیمات سے دور ہو چکے ہیںاور ان میںغیر اسلامی عادات پروان چڑھ رہی ہیں۔آج کے مسلم نوجوان کو یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہرانسان کا وجود اوراُس کی زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ وہ امانت ہے،جسے انسان کو اللہ کے ہی احکامات کے مطابق استعمال کرنا ہے۔ شریعت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہمارا جسم صرف ہماری ملکیت نہیں بلکہ ایک عظیم ذمہ داری ہے، جسے اللہ کے احکامات کے مطابق حفاظت سے استعمال کرنا لازم ہے۔ مگر آج کے دور میں نوجوان ظاہری صحت و طاقت کو تو بہت اہمیت دیتے ہیں، لیکن روحانی پاکیزگی اور اس کی بیماریوں سے غفلت برتتے ہیں۔جس کے نتیجے میںمعاشرہ دن بہ دن اخلاقیات کے باب میں روبہ زوال ہوچکا ہے۔اب تو صورت حال یہ ہوچکی ہےکہ بُرائی اور گناہ کو معیوب نہیں بلکہ فیشن سمجھا جارہا ہے۔ آئے دن اخبارات اور سوشل میڈیا جرائم کی فہرست کو نمایاں طور پر پیش کررہا ہےجبکہ جرائم وحادثات میں ایک خبر تو منشیات سے متعلق ضرور رہتی ہے کیوں کہ منشیات تمام بُرائیوں کی جڑ ہے اورجہاں کہیں بھی کوئی بُرائی اور جرم ہوتاہے وہاں منشیات کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ظاہر ہے کہ منشیات، نشہ آورچیزیں عقلی، حِسیّ، شرعی اوراخلاقی اعتبار سے نقصاندہ ہیں، اس میں کسی بھی طرح کا دُنیوی اور اُخروی فائدہ نہیں۔ شریعت نے منشیات کے استعمال کو گناہ کبیرہ قراردیا ہے۔ ہر وہ شخص مرد، ،عورت،بوڑھا اور جوان خوب جان لیں کہ منشیات کی عادت بہت بُری ہےبلکہ بُرائیوں کی جڑ ہے جو عقل کو تباہ اورضمیر کو مردہ کر دیتی ہے۔منشیات کی بدمستی میں انسان اپنی ماں اور بیٹی تک سے نازیبا سلوک یا گناہ کرسکتا ہے۔اس لئے ہر ممکن طریقے سے بچنے کی کوشش کرنا لازم ہےجبکہ معاشرے کے ہر با شعور فردپر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ معاشرے کی نوجوان نسل کو منشیات کی اس لعنت سے بچانے کے لئےاپنا موثر کردار ادا کریں۔بے شک یہ کام ذرا مشکل نظر آئے، لیکن اس لعنت سے نوجوان کو چھٹکارا دلانا ناممکن نہیں ہے۔ سب سے پہلےمنشیات استعمال کرنے والے لوگوں کی کونسلنگ کی جانی چاہئےاوراُنہیں سمجھانا چاہئے،بحیثیت مسلمان اُنہیں اسلام نے جسم جان وپیسہ کو نقصان پہنچانے والی اورصحت کو تباہ کرنے والی چیزوں کے استعمال سے منع کیا ہے۔اسلام نے منشیات کی قباحتیں بتائی ہیں کہ یہ نجس وناپاک ہے۔ بُری صحبتوں سے دور رہنے کی تلقین کی ہے کیوں کہ صحبتیں ہی انسان کو اچھایا بُرا بناتی ہے۔ آج معاشرہ کی تباہی وبربادی اور جرائم میںزیادتی کی ایک اہم وجہ بُری صحبتیں اوربُرے دوست ہیں۔لہٰذا نوجوان کو دیکھناچاہئے کہ وہ کس کو دوست بنائے۔منشیات،جرائم،بُرائیاں، فحش عریانیت، لادینیت، فطرت سے بغاوت، ظلم وتشدد، ناانصافیاں، حق تلفیاں بڑھنے کا ایک اہم سبب تو یہی ہے کہ انسان اپنی فطرت اورحقیقت کو بھول کر گناہ کے انجام سے بے خبر ہے ۔اس لئے نوجوان نسل کو ان باتوں سے باخبر کرنے کی اشدضرورت ہے۔جدید تحقیقات کے مطابق منشیات کی رغبت کو جنون قرار دےکر اسے Dypsomaniaکا نام دیاہے۔ صدمہ ہونے پر نشہ کا سہارا لینا یا خودکشی کا سوچنا بزدلی اور فراریت کی بدترین مثال ہے۔ سستی،کاہلی، جسمانی صفائی سے پہلوتہی، کام کرنے سے کترانا، ذمہ داری سے بھاگنا نشہ بازی کے ابتدائی نتائج ہیں۔ منشیات کو حرام کرنے کی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ انسان کے لئے کیا چیز نقصان دہ ہے اور کیا فائدہ مند۔ اللہ اپنے بندوں کو بُرے کام او رنقصان دہ چیز استعمال کرنے کا حکم نہیں دیتا، فحش اورمنکر چیزوں سے روکتا ہے۔نوجوان نسل کے ذہن میں یہ باتیں بٹھانے کی ضرورت ہے کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہےچاہے اس کی مقدار تھوڑی ہو یا بڑی۔منشیات کےچکر آپس میں جھگڑا، فساد اور دشمنی کا باعث ہوتے ہیں۔ منشیات کے تمام کاروبار اور تجارت بھی حرام ہے۔جوکوئی بھی منشیات کا عادی مسلمان خلوص دل سے اس بُری عادت کو چھوڑنے کا مکمل ارادہ نیک نیتی اورعزم کے ساتھ کرے تو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے یہ عادت چھوٹ سکتی ہے۔