مولانا محمد طارق نعمان
اسلام ایک جامع دین ہے، جو نہ صرف انسان کی انفرادی اصلاح کرتا ہے بلکہ اجتماعی زندگی کے بھی بہترین اصول وضع کرتا ہے۔ اس میں عبادات کو نہ صرف انفرادی ذمہ داری کے طور پر پیش کیا گیا بلکہ انہیں اجتماعی طور پر ادا کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔ نماز جو دین کا ستون ہے، اگر باجماعت ادا کی جائے تو اس کے روحانی، اجتماعی اور اخلاقی اثرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ باجماعت نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی اکرمؐ نے اسے نہ صرف فرض نمازوں کی بہترین ادائیگی قرار دیا بلکہ اس کے ذریعے گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کی بھی خوشخبری دی۔ احادیثِ مبارکہ میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ باجماعت نماز میں شریک ہونے والے شخص کے پچھلے گناہوں کی بخشش کی جاتی ہے اور اس کا مقام اللہ کے نزدیک بلند کر دیا جاتا ہے۔ یہ عبادت نہ صرف گناہوں کا کفارہ بنتی ہے بلکہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد، محبت اور بھائی چارے کو بھی مضبوط کرتی ہے۔قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اور سیکڑوں احادیث میں نبی کریم ؐ نے نماز کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور پابندی کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ نماز میں کوتاہی اور سستی کرنے والوں کو منافقین کی صف میں شمار کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کیلئے با ادب کھڑ ے رہا کرو‘‘ (سورۃ البقرہ: 238)۔حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں: ہم نے ایسے وقت بھی دیکھے ہیں جب صرف وہی شخص نماز سے پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق معلوم ہوتا یا بیمار ہو۔ اور(بسا اوقات) بیمار بھی دو آدمیوں کے سہارے سے چل کر آ جاتا ،یہاں تک کہ نماز میں شامل ہو جاتا۔ انہوں نے مزید کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کے طریقوں کی تعلیم دی اور ہدایت کے طریقوں میں سے ایسی مسجد میں نماز پڑھنا بھی ہے جس میں اذان دی جاتی ہو(صحیح مسلم: 1487) لہٰذا کسی مسلمان کیلئے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ نماز کی ادائیگی میں کوتاہی یا سُستی کرے۔اللہ تعالیٰ نے میدانِ جنگ میں بھی نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حالت امن میں بالاولی نماز باجماعت فرض ہےاورنابینا شخص کیلئے بھی جماعت سے غیر حاضری کی اجازت نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان پر بہت بڑا احسان کیا کہ انسان سے سرزد ہونے والے گناہوں کی معافی کیلئے ایسے نیک اعمال کی ترغیب دلائی ہے کہ جس کے کرنے سے انسان کے زندگی بھر کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا ایک مسلمان کیلئے اپنی زندگی میں اللہ تعالی کی مغفرت اور رحمت کے حصول کے ذرائع اور اسباب اختیار کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔ با جماعت نماز کی اہمیت اور گناہوں کی مغفرت کے حوالے سے چند احادیث پیش کی جا رہی ہیں تاکہ مسلمانوں کو باجماعت نماز ادا کرنے میں رغبت و دلچسپی ہو اور باجماعت نماز میں کوتاہی کرنے والوں کو تنبیہ ہو۔باجماعت نماز کی نیت بھی باعثِ ثواب ہے۔ کوئی شخص جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی نیت کے ساتھ مسجد آیا، لیکن پھر بھی جماعت نہ مل سکی تو اس کی نیت اور کوشش کی وجہ سے اسے جماعت کے ساتھ نماز کا ثواب ملے گا۔ سیدنا ابو ہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: جس نے اچھی طرح وضو کیا، پھر مسجد کی طرف چلا تو دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں تو اسے بھی اللہ تعالیٰ جماعت میں شریک ہونے والوں کی طرح ثواب دے گا۔(النسائی: 854)با جماعت نماز کیلئے چل کر جانے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ حضرت عثمان ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے نماز کیلئے وضو کیا اور وضو کی تکمیل کی، پھر فرض نماز کیلئے چل کر گیا اور با جماعت نماز ادا کی یا مسجد میں نماز پڑھی، اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کر دے گا (صحیح مسلم: 232)نماز کے لئے مسجد کی طرف چل کر جانا جس طرح باعثِ مغفرت و کارِ ثواب ہے، اسی طرح مسجد سے واپسی بھی باعثِ مغفرت اور کارِ ثواب ہے۔مسجد میں باجماعت نماز کیلئے انتظار کرنے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے کیونکہ زیادہ دیر بیٹھنے اور انتظار کے دوران فرشتے انتظار کرنے والے کیلئے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں۔حضرت ابو ہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا گھر کے اندر یا بازار میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا ثواب زیادہ ملتا ہے۔ پس جب تم میں سے کوئی شخص وضو کرے اور اس کے آداب کا لحاظ رکھے پھر مسجد میں صرف نماز کی غرض سے آئے تو اس کے ہر قدم پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ اس کا بلند کرتا ہے اور ایک گناہ اس سے معاف کرتا ہے۔ اس طرح وہ مسجد میں آنے کے بعد جب تک نماز کے انتظار میں رہے گا ،اسے نماز ہی کی حالت میں شمار کیا جائے گا اور جب تک اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے تو فرشتے اس کیلئے رحمتِ خداوندی کی دعائیں کرتے ہیں کہ اے اللہ!اس کو بخش دے، اے اللہ!اس پر رحم کر۔ فرشتے دعا کرتے رہتے ہیںجب تک وہ بے وضو نہ ہو جائے۔(بخاری: 651، مسلم: 662)۔لہٰذا ہمیں با جماعت نماز سے غائب رہنے سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔ اللہ سے ڈرتے ہوئے پانچ وقت کی نماز جماعت کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ مساجد میں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے بچوں اور جن لوگوں کی ذمہ داری ہم پر ہے، ان کی بھی اس بارے میں تربیت کرنی چاہیے، کیونکہ ہم ان کے بارے میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔نیز اللہ پاک کا پیارا بننے کیلئے، درجات کی بلندی کو پانے کیلئے، جنت میں داخلے کیلئے، جہنم سے آزادی کیلئے، منافقت سے نجات پانے کیلئے، شیطان سے حفاظت کیلئے اور اسی طرح اللہ پاک کی رحمت، مغفرت اور بہت سے فوائد حاصل کرنے کیلئے نمازِ باجماعت کی پابندی کیجئے اور دوسروں کو بھی نیکی کی دعوت دے کر باجماعت نماز پڑھنے کی ترغیب دلایئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کونمازِ باجماعت کا پابند بنائے اور ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے نیک اعمال کو قبول فرمائے ۔