ہمارے معاشرے میں یہ بات اب زبانِ زد عام ہےکہ ہماری نوجوان نسل دن بہ دن بگڑتی جارہی ہےاور مختلف بُرائیوں و خرابیوں کی نذر ہوکر آوارگی ، بے راہ روی ، جوا بازی، منشیات کے استعمال اور جرائم کی طرف راغب ہورہی ہے۔بے شک یہ پریشان کُن معاملہ تشویش ناک رُخ اختیار کرتا چلا جارہا ہے۔ظاہر ہے کہ نوجوان نسل ہمارےمعاشرے کے لئے رگِ جان کی حیثیت رکھتی ہے اور اُنہی کے فکرو عمل سے ہمارے معاشرے کا مستقبل وابستہ ہے۔البتہ جس قدر اُن کی اہمیت اور ذمہ داریاں ہیں، اُسی قدر اُن کے مسائل کا حل نکالنا معاشرے اور حکومت دونوںکی ذمہ داری ہے۔حق یہ بھی ہے کہ جہاںہمارے معاشرےمیں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کو عدم مساوات، وسائل کی نایابی اور معاشرتی ناہمواری کی تقسیم نے ہیجانی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے،وہیں معاشرہ کی ترقی کی راہ میں حائل بے روزگاری بھی اُن کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جبکہ یہاں عرصۂ دراز سے چلی آرہی غیر یقینی فضا اور ناقص سیاسی صورت حال سے تعلیم یافتہ بے روزگار ڈگری یافتہ نوجوانوں کے شرح تناسب میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔ان سبھی حالات،تقاضوں کو سمجھنا اور تمام پہلوئوں کو مدِ نظر رکھنابھی ہمارے نوجوانوں کے لئے ضروری ہے۔ جب تک ہمارے نوجوان وقت کی اہمیت اور حالات و واقعات کی نزاکت و تقاضوں کو جاننے،سمجھنے اور جانچنے کی کوشش نہیں کرتے ،وہ کسی بھی تباہی سے بچ نہیں پائیں گے۔ افسوس ناک پہلو یہی ہے کہ وادیٔ کشمیر کے معاشرے کی نوجوان نسل وادیٔ کشمیر کے حالات و واقعات سے واقف ہونے کے باوجود انجانے اور فریبی راستوں پر بھٹک رہی ہے ، کسی فعال یا مثبت مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کے بجائے ناحق اپنے آپ کو تجربات کی بھینٹ چڑھاتی ہےاوربغیر کسی سختی کے حلیم اور بغیر کسی تجربے کے حکیم بننا چاہتی ہے۔ آج کل ہمارے نوجوانوں کی ایک خاصی تعداد سٹّہ بازی ،شرط بازی اورجوے بازی میں بھی مبتلا ہے اورجدید ٹیکنالوجی ، نِت نئے ایجادات اور ڈیجیٹل وسائل کے ذریعے ،’’ ڈریم الیون،مائی الیون سرکل،آن لائن لوڈو گیم ،کلر ٹریدنگ گیم‘ ‘وغیر وغیر جیسی نامی جوے بازی کی گیموں میںمست رہ اپنی قوت اور اپنا پیسہ بُرباد کرکے گناہوں کی نحوست کا شکار ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے کا بیشتر حصہ اخلاقی تنزل اور انحطاط کے گردِ آب میں بُری طرح پھنس چکا ہے۔اب بھی اگر اس کا موثر و مثبت علاج و تدارک نہ کیا جائے تو جوافسوسناک و شرمناک نتائج آج تک ہمارے سامنےآچکے ہیں ،اُن سے بھی زیادہ بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔چنانچہ جہاں دُنیاوی اُلجھنوں اوردرپیش مسائل نے کشمیریوں کو ایک شدید عذاب سے دوچار کرکے رکھا ہے ، وہیںخود پرستی،جابہ جا اندیشوں،غیر اخلاقی جذبوںاور بے کرداری نے لوگوں کو ہمہ وقتی ذہنی کشیدگی میں مبتلا کرکے رکھا ہے،جس کے نتیجے میں دل دہلادینے والی رودادیں سُننے اور رونکھٹےکھڑے کردینے والے المناک مناظر بھی سامنے آتے ہیں۔چنانچہ جب چوری ،رشوت خوری ،ناجائز منافع خوری،چھینا جھپٹی اورسینہ زوری کی آماجگاہی میں بیشتر لوگ جامۂ انسانیت نوچنے میں مشغول رہیںتوہر سُو خدا طلبی کے بجائے دُنیا طلبی کا ہی دور دورہ شروع ہوجاتا ہے۔ صاحبِ مال احساسِ برتری میں مبتلا ہیںاور غریب و لاچار احساسِ کمتری کے شکارہیں ،غرض پوری وادی کے لوگ خواہش پرستی کی ادنیٰ سطح پر گِر کر زمانۂ جاہلیت کی یاد تازہ کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ منشیات کے دھندے اور اُن کا استعمال پھل پھول رہا ہےاور ہمارے کمسن بچے بھی اس کا شکار بن رہے ہیں۔وقت کا تقاضا ہے کہ ہم غفلت کی نیند سے بیدار ہوجائیں اورہوش کے ناخن لے کرمیدان عمل میں کودیںتاکہ اپنے کشمیری معاشرے کو مزید تباہی سے بچایا جاسکے۔خصوصاًہمارے لئے لازم ہے کہ معاشرے کے گمراہ اوربھٹکے ہوئے لوگوں کو راہِ راست پر لانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ اگر ہم خلوصِ دل اور مصمم ارادےکے ساتھ اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لائیں گے تو موجودہ صورتِ حال برقرارقابو پایا جاسکتا ہے۔ہماری کوششوں سے سے ہی ایک اچھا معاشرہ وجود میں آسکتا ہے ۔جب اچھا معاشرہ وجود میں آجائےتو پھر خرابیوں اور بُرائیوں کا سدِ باب خود بخود ہوجائے گا۔