! آفات و بلیات اور ہماری زندگی

اب ہمیں اپنی اس وادیٔ کشمیر میں وقفہ وقفہ کے بعد یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ ہمارے یہاں زراعت ، باغبانی و کاشت کاری سے وابستہ لوگوں کی محنت ِ شاقہ ،دعائووں اور اُمنگوںکےبا وصف جب ہمارے کھیت کھلیان اور باغات کھِل اُٹھتے ہیں،لہلہاتے ہیں اور پھر مقررہ وقت پرفصل اور پھل دینے کے قابل بن جاتے ہیں تو اچانک ایسی کوئی نہ کوئی آفت ِ الٰہی آن پڑتی ہے،جس سے اُنکی سال بھر سعی بلیغ پر پانی پھِر جاتا ہے اور سب کچھ ملیا میٹ ہوجاتا ہے۔جس کے نتیجے میں جہاں زراعت اور باغات کے مالکان کی معاشی صورت حال بُری طرح متاثر ہوجاتی ہے وہیں وادیٔ کشمیر کی معشیت بھی تباہ ہوکر رہ جاتی ہے۔گذشتہ روز 3 ستمبر کو کولگام اور شوپیان میں تیز ہوائوں اور شدید ژالہ باری سے ہوئے فصلوں کی تباہی اس کی تازہ مثال ہے۔اگرچہ ہر کوئی یہی کہتا رہتا ہےکہ جو کچھ بھی ہورہا ہے،اللہ کی مرضی سے ہی ہورہا ہے۔بے شک ہمارا بنیادی عقیدہ اور ایمان ہے کہ اس کائنات میں ہونے والا ہر واقعہ اللہ کے حکم سے ہی انجام پاتا ہےاور جن طبعی قوانین کے تحت یہ کارخانۂ قدرت چل رہا ہے ،ان کا وضع کرنےوالا بھی اللہ ہی ہے۔لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں نکالا جاسکتا کہ انسان اُس کا علم حاصل نہیں کرسکتا ،جس علم کے باوصف وہ اپنی زندگی اور حالات کو سنوار سکتا ہےاور معاشرے کی زوال پذیرصورت ِحال و اقدار کو بحال کرسکتا ہے۔بغور دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میںکونسی ایسی خرابی یا بُرائی باقی رہ گئی ہے،جو ہماری رَگ رَگ میںرچ بس نہیں گئی ہےاور قدرتی آفات کو دعوت نہیں دیتی رہتی ہے۔یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ وہ ہمیںیک لخت تباہ و نابود نہیں کرتابلکہ وقفہ وقفہ کے بعد مختلف صورتوں میں وارننگ دیتا رہتا ہے تاکہ ہم سنبھل جائیں،ہوش کے ناخن لیںاور اپنے اعمال اورطرزِ زندگی کو دُرست کریں۔اگر ہم گذشتہ دو دہائیوں پر ہی نظر ڈالیںگےتو کیا موسمی تغیرات کے نتیجے میں ہمیں زلزلے،سیلاب ،وبائی بیماری کرونا ،طوفانی ہوائوں،شدید برف باری وبارشوںکے باعث بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصانات سے دوچار نہیں ہونا پڑاہے۔ان آفات و بلیات کا نزول شائد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُس بڑی آفت میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیںاور مروجہ طرزِفکر عمل کو چھوڑدیں،جس کے نتیجے میں آخر کار ہمیں کوئی بڑا عذاب نہ بھگتنا پڑے۔ہمیںیہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضی کا اظہار ، سزا اورتنبیہ بھی تو نہیںہے، جس سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے۔یا درہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کو اجتماعی طور پر بالکل بخیریت نہیں رکھا ہےکہ بَس انسان جو چاہے کرلیںاور آرام و سکون سے اپنی زندگی کی گاڑی چلاتا رہےاور اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجائے کہ اس سے بالا تر کوئی نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو۔ اس خود فریبی یا خوش فہمی ہمیں یہ بات یاد ہی نہیں رہتی ہےکہ جب انصاف ناپیداور ظلم و جبر پھل پھول جائے، امانت کو غنیمت کا مال اورزکوٰۃ و عشرہ کو تاوان سمجھا جائے،اولاد والدین کا نافرمان اور خاوند بیوی کا غلام بن جائے،قوم کارہبر رذیل بن جائے،ناچ گانا عام ہوجائے،منشیات کا استعمال سرِ عام ہوجائے،جعلی چیزوں کا باپارکھلے عام ہو جائے،ایک دوسرے کی عزت کو بازاروں میں نیلام کیاجائے،دین سے دوری ،بددیانتی ،بد عنوانی ،بے شرمی ،بے حیائی بے غیرتی، بدمعاشی اور سر کشی کا بول بالا ہوجائےاور ہر ناجائز و ناپسندیدہ چیز کو جائز اور پسندیدہ قرار دیاجائے توپھر اللہ کے عذاب کا انتظار کیوں نہ کیا جائےجو کسی بھی وقت کسی بھی شکل میںہم پر نازل ہوجائے۔اس لئے لازم ہے کہ ہم قبل از وقت توبہ و استغفار کریں،اپنے جرائم اور بد اعمالیوں کو یاد کریں،اپنی زندگی کو بدلنے کی کوشش کریں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کریں، معاشرے میں بُرائیوں و خرابیوں کو روکنے اور نیکیوں کو پھیلانے کے لئے محنت کریں اور دین کی طرف عمومی رجوع کا ماحول پیدا کریںتوبلا شبہ یہ اعمال ہمارے لئے ہر مصائب،ہر بُرائی اورہر عذاب سے نجات کاذریعہ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا پیش خیمہ ثابت ہوںگے،اورپھر اللہ تعالیٰ ہمیںہر مصائب اور ہر نقصان کا ایسا نعم البدل عطا فرمائیں گےجو کسی کے بھی وہم و گمان میں نہیں ہوگا۔