بھارت اور پاکستان کی تاریخ پر اگر ہم ایک اچکتی نگاہ ڈالیں تو اس کے پنوں میں میںآپسی اختلافات، تضاد ات اور تفرقات کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔اس دوطرفہ بگاڑ کا آغازاس وقت ہوا جب برطانوی سامراج نے ہندوستان چھوڑا ۔ اس وقت حالات نے یکایک ایک ایسا کڑارُخ اختیار کیا کہ لگتا تھاجیسے دونوں ملکوں کو تیسری طاقت یعنی انگریز نے جاتے جاتےجان بوجھ کر نفرت اور کشیدگی کے اندھے کنوئیں میں پھینک ڈالا ۔ اس وقت کے مورخین کہتے ہیں کہ چوٹی کے چند لیڈر جن میں خصوصی طور گاندھی جی اور مولانا ابوالکلام آزاد شامل ہیں، ان حالات پر بہت متفکر تھے ۔آزادی کے وقت ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو خون آشام پھوٹ پڑگئی ، اس انتشار وافتراق کی سات دہائیاں گزر گئیں مگر حالات سدھرنے کانام نہیں لیتے۔ اس طویل مدت میں دوطرفہ مسائل نے پیچیدگیاں بھی اختیار کیں ۔ آج بھی زمانے کو ان مسائل کےحل کا ا انتطار ہے ۔عام لوگ ان مسائل کا متفقہ حل ہی نہیں چاہتے بلکہ وہ امن و آشتی اور دوستی مفاہمت کے ساتھ باہم دگر زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں ۔ان لوگوں کی ندائے دل کوئی حکمران سننے کو تیار ہی نہیں کیونکہ حکمران طبقے کو اپنے اقتدار کیلئے معصوموں اور بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلنے کی مجبوری لاحق ہے ۔ انصا ف کی بات ہے کہ مسائل کے حل کے حوالے سے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا رویہ بہت ہی بہتر اور لچک دار ہے ۔ بھارت کا رویہ عجیب ہے ، کبھی جارحانہ، کبھی اِدھر کبھی اُدھر،کبھی مسلٔہ کشمیر کو حل طلب مسئلہ ماننا، کبھی اس کو تسلیم ہی نہ کرنا ،کبھی سیاچن کا مسئلہ اُبھارنا،کبھی دریائی پانی کی بندش کرنا، کبھی تمام مسائل مذاکرات کی میز پر لانے کی خواہش کرنا، کبھی مذاکرات کا بائیکاٹ کرنا۔ کچھ گنی چنی سیاسی تنظیمیں چاہتی ہیں کہ تمام دوطرفہ مسائل کا حل نکلے اور پائیدار دوستی کی نیو پڑے مگر شدت پسند تنظیمیں مذاکرات یا مسائل کے حل کو اپنی ہار سمجھتی ہیں۔ بے شک دلی اور اسلام آباد کے درمیان تمام لڑائیوں اور نفرتوں کی اصل وجہ مسئلہ کشمیر ہے ۔ اس کو سلجھانے کے لئے واجپائی نے بہ حیثیت وزیراعظم لکیرکا فقیر بننے کے بجائے حقیقت پسند بننے کی صلاح دی ، نواز شریف نے لاہور بس سروس کا تجربہ واجپائی کےساتھ مل کر کیا ، مشرف نے چار نکاتی فارمولہ دیا ، عمران خان کہہ رہے ہیں کہ ہم بھارت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ماضی کی زنجیروں کو توڑ کر کشمیر مسئلے کا حل نکالنے کیلئے بھارت اگر ایک قدم آگے بڑھائے، ہم دو قدم آگے بڑھنے کیلئے تیار ہیں۔دونوں ملکوں کی مثبت سوچ اور مثبت لائحہ عمل ہی سے اس مسئلے کو حتمی حل تک پہنچاسکتا ہے ۔ وقت آیا ہے جب دونوں طرف کی حکومتوں کے لئے برصغیر میں بد امنی اور بے چینی کا قلع قمع کرنے کے لئے کور ایشو کشمیر سمیت جملہ دوطرفہ مسائل کا مذاکراتی حل عدل وانصاف کی بنیادوں پر ڈھونڈنا چاہیے ۔ ا س کے بغیر چارہ نہیں ۔