مختار احمد قریشی
ادب کسی بھی سماج کی داخلی اور خارجی صورتِ حال کا نہ صرف آئینہ دار ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے وقت کے جبر و ستم، خوشی و غم، اور پیچیدہ حالات کو کہانیوں اور علامتوں کے ذریعے قارئین تک پہنچانے کا ایک موثر ذریعہ بھی ہے۔ افسانہ، اور بالخصوص افسانچہ، اپنے محدود دائرہ کار کے باوجود نہایت گہرائی اور گیرائی کے ساتھ انسانی احساسات کو لفظوں میں ڈھالتا ہے۔ اس حوالے سے کشمیر کے معروف افسانہ نگار ڈاکٹر فیض قاضی آبادی کی تصنیف آدمی مسافر ہے نہ صرف ایک ادبی شاہکار کے طور پر سامنے آتی ہے بلکہ یہ ہمارے عہد کے تلخ تجربات، نفسیاتی الجھنوں، اور معاشرتی تضادات کی بھرپور عکاسی بھی کرتی ہے۔
ڈاکٹر فیض قاضی آبادی کا شمار ان تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جو محض کہانیاں نہیں سناتے بلکہ زندگی کے وہ تلخ حقائق پیش کرتے ہیں جو عام حالات میں نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ ان کی تحریریں سطحی خیالات کا مجموعہ نہیں بلکہ وہ زندگی کے نشیب و فراز، انسانی جذبات کی نزاکتوں اور کرب کی پرتوں کو مہارت کے ساتھ اجاگر کرتے ہیں۔ ان کے افسانے اور افسانچے کسی بھی ادبی معیار پر پورا اترنے کے ساتھ ساتھ فنی صناعی اور حقیقت نگاری کے عمدہ نمونے ہیں۔
’’آدمی مسافر ہے‘‘ دراصل ایک ایسی تخلیقی کاوش ہے جس میں زندگی کی ناپائیداری، امیدوں اور یاسیت کے درمیان انسان کی مسلسل جدوجہد اور کٹھن حالات میں اس کے صبر و استقامت کی کہانی سنائی گئی ہے۔ کتاب میں شامل ہر افسانچہ ایک منفرد تجربے، حساس موضوع اور گہرے فکری پیغام کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔یہ کتاب ہمیں ایک ایسی دنیا میں لے جاتی ہے جہاں ہر انسان کسی نہ کسی صورت میں ایک مسافر ہے۔ کوئی اپنی شناخت کی تلاش میں، کوئی اپنے خوابوں کے تعاقب میں اور کوئی جبر کے ہاتھوں بے بس ہو کر دربدر ہے۔ ڈاکٹر فیض کے افسانچے کشمیر کے سیاسی و سماجی حالات، انسانی المیوں اور نفسیاتی پیچیدگیوں کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔
کتاب میں شامل افسانچوں کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ حقیقت اور فن کے حسین امتزاج کو پیش کرتے ہیں۔ مختصر الفاظ میں گہری بات کہنا اور قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیناہے۔ڈاکٹر فیض قاضی آبادی کا اسلوب سادہ مگر اثر انگیز ہے۔ ان کے الفاظ میں ایک خاص طرح کی بے ساختگی اور روانی ہے جو قاری کو کہانی کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔ ان کی تحریروں میں جذباتی شدت، حقیقت پسندی اور فکری گہرائی موجود ہے۔ وہ علامتی زبان کا استعمال بھی نہایت عمدگی سے کرتے ہیں، جس سے ان کے افسانچوں میں تہہ داری پیدا ہوتی ہے۔
ادب کا بنیادی مقصد صرف تفریح فراہم کرنا نہیں بلکہ انسانی تجربات، احساسات اور مشاہدات کو اس انداز میں پیش کرنا ہے کہ وہ قارئین کے ذہن و دل پر گہرا اثر چھوڑیں۔ ڈاکٹر فیض کی افسانوں پر مبنی کتاب ’’آدمی مسافر ہے‘‘ اسی مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے لکھی گئی ایک ایسی تصنیف ہے جو زندگی کی تلخیوں، انسانی رشتوں کے اتار چڑھاؤ، اور معاشرتی ناہمواریوں کو تخلیقی پیرائے میں بیان کرتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ادبی جمالیات کی عکاسی کرتی ہے بلکہ قاری کو غور و فکر کی دعوت بھی دیتی ہے۔
ڈاکٹر فیض کا شمار ان تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جو ادب کو صرف کہانی سنانے کا ذریعہ نہیں سمجھتے بلکہ اسے سماج میں ایک آئینہ دار قوت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کے افسانے اور افسانچے انسانی نفسیات، سماجی ناانصافیوں، اور کشمیر کے مخصوص سیاسی و سماجی پس منظر کو بڑی مہارت سے اجاگر کرتے ہیں۔ ’آدمی مسافر ہے‘ کے بیشتر افسانے اور افسانچے ہمیں غیر معمولی حالات کے تناظر میں تخلیق کیے گئے محسوس ہوتے ہیں، جن میں انسانی المیے، جذباتی کشمکش اور امید و یاس کی جنگ نمایاں ہے۔
افسانچہ ’’اغوا‘‘ دو سطحوں پر چلتا ہے: ظاہری اور باطنی۔ فضلی کی مرغی کا چیل کے ذریعے چوزہ اغوا ہو جانا ایک عام دیہاتی منظر لگتا ہے، مگر جب اس کے ساتھ فضلی کا نفسیاتی المیہ جڑ جاتا ہے، تو یہ کہانی ایک مختلف موڑ لے لیتی ہے۔ فضلی کا بے ہوش ہونا اس کے لاپتہ بیٹے کی یاد سے جڑا ہوا ہے، جسے ایک سال پہلے ظالموں نے اغوا کر لیا تھا۔ یہ افسانچہ نہ صرف کشمیر میں جاری المیے کو بیان کرتا ہے بلکہ ایک ماں کے درد کو بھی بڑی مہارت کے ساتھ لفظوں میں ڈھالتا ہے۔
’’امید کا خون‘‘یہ کہانی انسانی بے بسی اور تقدیر کے کھیل کو نمایاں کرتی ہے۔ رمضان چچا کی دعا اس وقت ایک کربناک حقیقت میں بدل جاتی ہے جب ان کے بیٹے کی موت کے بعد انہیں تین دن کا راشن ملتا ہے۔ یہ افسانچہ قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے کہ کس طرح بعض اوقات ہماری دعائیں بھی امتحان بن جاتی ہیں۔
’’وقت نہیں ملتا‘‘یہ کہانی سماج میں پھیلی مادہ پرستی اور دینی بے حسی پر گہرا طنز ہے۔ ایک مصروف شخص، جو ہر دنیاوی مشغلے کے لیے وقت نکال سکتا ہے، لیکن دین کی بات آتے ہی کہتا ہے کہ ’میرے پاس وقت نہیں ہے‘۔ یہ افسانچہ ہماری روزمرہ کی زندگی کی ایک تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے۔
’’خلافت‘‘یہ افسانچہ ان لوگوں پر طنز کرتا ہے جو محض جذباتی باتوں میں الجھے رہتے ہیں، مگر عملی طور پر کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔ ایسے لوگ جو سیاسی حالات پر گھنٹوں بحث تو کرتے ہیں، مگر عملی اقدامات سے کوسوں دور رہتے ہیں۔
’’راشن ڈپو‘‘یہ افسانچہ دیہاتی زندگی کی ایک بڑی حقیقت کو نمایاں کرتا ہے۔ خضر چا کی مخالفت صرف ضد نہیں بلکہ ایک گہری بصیرت کا اظہار ہے کہ کس طرح راشن ڈپو جیسے سہولیات لوگوں کو محنت سے دور کر کے سستی اور کاہلی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ یہ کہانی آج کے ترقی یافتہ معاشرے کے ایک اہم مسئلے کی نشاندہی کرتی ہے۔
’’تدبیر‘‘کووڈ کے دوران پیش آنے والی سماجی اور معاشی مشکلات کی ایک فکر انگیز عکاسی اس افسانچے میں کی گئی ہے۔ جب اشرف کے گھر والے بھوک کی شدت سے مجبور ہو کر خود کو کوارنٹین سینٹر میں داخل کروانے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو یہ نہ صرف ایک افسوسناک حقیقت بیان کرتا ہے بلکہ معاشی بدحالی کی انتہا کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
اس کتاب میں شامل افسانچے موضوعاتی وسعت کے حامل ہیں، جن میں معاشرتی مسائل، نفسیاتی الجھنیں، اصلاحی پہلو، اور المیہ کہانیاں شامل ہیں۔ ڈاکٹر فیض کی سب سے بڑی خوبی ان کی بیانیہ تکنیک ہے، جو نہایت سادہ لیکن بامعنی انداز میں قاری کو کہانی کے اندر لے جاتی ہے۔
جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ بڑے کارنامے عام حالات میں نہیں بلکہ غیر معمولی حالات میں انجام پاتے ہیں، اسی اصول پر ڈاکٹر فیض کے کئی افسانچے تخلیق کیے گئے ہیں۔ “اغوا” نامی افسانچے کی کہانی ہمیں اس حقیقت کا احساس دلاتی ہے کہ ایک ماں کے لیے اس کا بچہ صرف ایک وجود نہیں بلکہ اس کی پوری دنیا ہوتا ہے۔جبکہ اس کتاب میں شامل کئی افسانچے کشمیر کے تناؤ زدہ ماحول کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ ’’امید کا خون‘‘ جیسے افسانچے میں بے روزگاری کے عذاب کو نہایت مؤثر انداز میں اُجاگر کیا گیا ہے، جہاں ایک نوجوان اپنی تعلیمی اسناد کو بچانے کی کوشش کرتا ہے، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کے کسی کام کی نہیں رہیں۔
ڈاکٹر فیض کے کئی افسانچے طنز و مزاح کی چاشنی لیے ہوئے ہیں، جن میں ’’راشن ڈپو‘‘ ایک بہترین مثال ہے۔یہ کہانی دیہی طرز زندگی اور جدید سہولتوں کے درمیان کشمکش کی بہترین مثال ہے۔ڈاکٹر فیض کےافسانچوں میں بیانیہ کی سادگی اور گہرائی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ وہ کم الفاظ میں زیادہ کہنے کا فن جانتے ہیںاور یہی خوبی ان کے افسانچوں کو پراثر بناتی ہے۔ علامتی انداز، استعاراتی بیانیہ اور فنی چابکدستی ان کی تحریروں میں نمایاں نظر آتی ہے۔ ان کے کردار عام انسانوں سے لیے گئے ہیں، جو ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویریں پیش کرتے ہیں۔’’آدمی مسافر ہے‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جو قاری کو جذباتی، فکری اور سماجی سطح پر متاثر کرتی ہے۔ ڈاکٹر فیض قاضی آبادی نے اپنے افسانوں کے ذریعے انفرادی اور اجتماعی مسائل کو نہایت فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ یہ کتاب ان قارئین کے لیے نہایت موزوں ہے جو ادب کو محض تفریح نہیں بلکہ ایک سماجی آئینہ سمجھتے ہیں۔ اگر آپ حقیقت نگاری، اصلاحی ادب اور آپ کے لیے ایک لازمی مطالعہ ہے۔میں ذاتی طور ڈاکٹر فیض قاضی آبادی کی تخلیقات کا اکثر مطالعہ کرتا ہوں ،جن کی تخلیقات اکثر لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔
رابطہ۔8082403001