بھارت کی پانچ ریاستی اسمبلیوں :مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، تلنگانہ اور میزورم کی انتخابی جنگ بالآخر خیر سے ختم ہوگئی ۔ اس انتخابی جنگ میں گزشتہ دو تین ہفتے پہلے زبردست گمھسان مچا رہا ، انتخابات لڑنے والی پارٹیوں نے اپنی ساری ساری توجہ اور سرگرمیاں تااختتام اس دنگل پر پر مرکوزرکھیں۔ خصوصاً بھارتیہ جنتاپارٹی اور کانگریس پارٹی نے ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے پورا زور لگایا اور کامیابی حاصل کرنے کے لئے کوئی وقیقہ فرد گزاشت نہیں کیا، روپیہ پیسہ کا بھی چلن رہا، دھرم ، مذہب، فرقہ، برادری کا بھی خوب استعمال ہوا۔ مخالف پارٹیوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر نے میںبھی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی، حتیٰ کہ مہذب اور غیر مہذب الفاظ کی بھی کوئی تمیز روا نہ رکھی گئی۔ ملک بھر کا میڈیا انتخابی خبروں سے بھرا رہا۔ چونکہ یہ انتخابات اگلے سال لوک سبھا کے انتخابات سے عین قبل منعقد ہورہے تھے ا ور ان میں کامیابی اور ناکامی کو انتخابی کھیل میںسمی فائنل کانام دیاجارہاتھا اور سمجھا یہ جارہاتھا کہ ان انتخابات کے رُحجان اور نتائج سے سے پیش آئند لوک سبھا انتخابات کے رُخ کا اندازہ لگایا جاسکتاہے، اس لئے انتخابی کھلاڑیوں نے اس سمی فائنل پر اپنا سب کچھ دائو پر لگائے رکھاتھا۔ چونکہ بھاجپا کے گڑھ ہندی بولنے والی تین ریاستوں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان جہاں اس پارٹی کی سرکاریں برسرا قتدار تھیں، ان انتخابات میں شد ومد سے شامل تھیں۔ اس لئے معمول کے انتخابات کی نسبت یہ غیر معمولی اہمیت کے حامل تھے۔
اب جب انتخابی گردوغبار بیٹھ گیا اور نتائج کا پٹارا کھلنے کے بعد حکومت سازیوں کامرحلہ طے ہو چکا ہے، ان ریفرنڈم نما انتخابات سے بخوبی عیاں ہواہے کہ پانچویں ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی انتخابی جنگ ہار گئی ہے اور یہ بات سنگھ پریوار کے لئے بالعموم اور وزیراعظم نریندرمودی کے لئے بالخصوص ایک زبردست جھٹکا ہے کیونکہ نریندرمودی اس انتخابی جنگ میں خود بھاجپا کے سپہ سالارتھے اور اُن ہی کی پالیسیوں اور اب تک کی کارکردگیوں کی بنیاد پر ساری جنگ مرکوز رہی۔ اس لئے مبصرین اس انتخابی جنگ میں بھارتیہ جنتاپارٹی کی ناکامی کو بجا طورپر مودی سرکار کی ناکامی سے محمول کررہے ہیں۔ تلنگانہ اور میزورم کے اسمبلی انتخابات میں بھاجپا کو بالترتیب محض ایک اور دوسیٹوں پر قناعت کرنی پڑی لیکن مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں جہاں بھاجپا کی سرکاریں برسراقتدار تھیں، وہاں بھاجپا کو اقتدار سے محروم ہوناپڑا ۔اس صورت حال کو نریندرمودی اور بھاجپا کے خلاف بلاشبہ عوامی فتویٰ قراردیا جاسکتاہے۔ بنابریںاس پارٹی میں مایوسی اور شکست خوردگی کا احساس پایاجاناکوئی حیران کن امر نہیں ہے۔ بھاجپا کے صدر امت شاہ نہ صرف ان انتخابات میں کامیابی کے دعوے کررہے تھے، بلکہ آنے والے پچاس برسوں میں بھی بھاجپا کے برسراقتدار رہنے کے بلند بانگ اعلانات کر چکے تھے لیکن عوام نے اُنہیں اس دعوے کا ایسا مزہ چکھایا کہ اُن کی بولتی بھی بند ہوگئی ہے اور تادم تحریر اُن کی طرف سے اس عوامی استرادپر کوئی تبصرہ تک سننے میںنہیں آیا۔ موٹے طور پر انتخابی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھاجپا کی قسمت کاستارہ گردش میں ہے اور یہ رُحجان اگلے لوک سبھا کے انتخابات کے رُحجانات کی بلاشک وشبہ تھوڑی بہت غمازی بھی کرتاہے۔
بھاجپا کے جن لیڈروں نے انتخابی نتائج پر کوئی تبصرہ بھی کیا تواُنہوںنے خود کو طفل تسلی دی کہ یہ انتخابات ریاستی سرکاروں کی کارکردگی سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن کامرکزی سرکار کی کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ عذر لنگ کسی کو بھی مطمئن نہیںکرسکتا کیونکہ ریاستی سرکاریں مرکزی سرکار کی پالیسیوں پر ہی گامزن تھیں اورخود جس طرح نریندرمودی ان انتخابات میں اپنی’’ کامیابیوں اور کامرانیوں‘‘ کا غلغلہ جماکے ووٹ مانگ رہے تھے، اُس سے صاف ظاہر ہے کہ ووٹروں نے پولنگ بوتھ پر جاکر نہ صرف اپنی اپنی ریاستی سرکار کی کارکردگی پر اپنی رائے ظاہر کی بلکہ مرکزی سرکار کی پالیسیوں پر بھی فتویٰ صادر کیا اور بزبان حال بتادیا کہ یہ پالیسیاں سراسرعوام کے لئے ناقابل قبول ہیں ، یہ غیر جمہوری ہیں،انہوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیاہے۔ اب بھاجپا نیتا ان نتائج کو ریاستی سرکاروں کے خلاف رائے دہی قراردے رہے ہیں تا کہ مرکز میں مودی سرکار کا پلا جھاڑا جاسکے مگر یقینی طور عوامی رُحجانات کا اثر مستقبل قریب میں ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات پر بھی پڑے گا۔ بھاجپالیڈر اس سلسلہ میں خاطر جمع رکھیں۔
مختلف حلقے ان انتخابی نتائج کے مختلف تاثرات اخذ کررہے ہیں لیکن درحقیقت یہ نتائج بھاجپا اور مر کزی سرکار کے خلاف عوامی فتوے ہیں کیونکہ 2014میںنریندرمودی کی قیادت میں بھاجپا نے مہنگائی کو روکنے ، بے کاری کو دورکرنے، رشوت اور بھرشٹاچار کو ختم کرنے، روزگار کے سادھن جٹانے، معیشت کو مضبوط کرنے، تعمیر وترقی کو تیز کرنے ، سب کاوکاس کرنے، معیار ِزندگی بلند کرنے، مزدوروں، کسانوں ، درمیانہ طبقہ، ملازموں کو راحت پہنچانے ، ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے، امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے، ملک کے لئے اچھے ان لانے کے جتنے وعدے کئے تھے، وہ سراسر محض جملہ بازی ثابت ہوئے ہیں۔ خاص کر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے تغلقی فیصلے کرکے مودی سرکار نے مہنگائی اور بے کاری سے دبے کچلے عوام کو مزید انہی مسائل کے گرداب میں پھنسادیا کہ بے چارے عوام الامان الامان پکار اُٹھے۔ بھارتیہ جنتاپارٹی کے لیڈروں نے ہندوتو کے نام پر ایسی اُدھم مچائی کہ گئو رکھشا کے نام پر کھلے عام غارت گری ، ہجومی تشدد اور خوف وہراس کابازار گرم ہوگیا۔ معصوم اور بے گناہ لوگوں پر اجتماعی حملے کرکے اُن کا جینا محال بنادیاگیا۔ خصوصاً دلتوں اور اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو کھلے عام ہراساں کیاجانے لگا، فرقہ اور برداری کے نام پر تقسیم در تقسیم کاماحول پیدا ہوگیا جس سے نفرت اور منافرت کو زبردست فروغ حاصل ہوا۔ اس صورت حال سے عوام نالاں، ہراساں، پریشان ہیں اور اُنہوںنے پانچ ریاستوں میںبھاجپا کے خلاف منفی رائے کا اظہار کرکے نریندرمودی اور بھاجپا کے خلاف ریاستی سطح پر ہی نہیںبلکہ ملکی اور قومی سطح پر بھی اپنی برہمی، ناراضگی، غصے اور نفرت کا اظہار کیا ہے۔ یہ امر اچھی طرح سے سمجھ لیا جاناچاہیے۔
بھاجپا کے خلاف عوامی اظہار ناراضگی کا تمام محب وطن ، سنجیدہ اور اہل ِبصیرت عوامی حلقوں کی طرف سے خیر مقدم ہوا ہے اور بے باک دانشور اس اظہار رائے کو بھاجپا اور اُس کی پالیسیوں کے خلاف عوام کا ریفرنڈم بخوبی سمجھتے ہیں، لیکن اسے کسی دوسری پارٹی کے حق میں مثبت اظہارِ رائے ہرگز نہیں سمجھتے۔ کوئی دیگر مثبت متبادل موجود نہ ہونے کے باعث ووٹروں نے کانگریس پارٹی کو ہی ووٹ دے کر اپنے دل کا غبار نکالاہے۔ البتہ یہ دُرست ہے کہ اس ووٹ سے نیم مردہ کانگریس پارٹی میں جان آئی ہے اور وہ بھاجپا سے مقابلہ آرائی کے قابل ہوگئی ہے،لیکن غور سے دیکھئے تو یہ انتخابی جنگ حکمران طبقوں ،سامراج ، گماشتہ سرمایہ داری اور لینڈ لارڈوں کی نمائندہ اور ترجمان دوپارٹیوں کے درمیان ہی ہے۔ اِن میں کوئی بھی برسراقتدار ہو ، عوام الناس کی حالت بہتر نہیںہوسکتی۔ جب تک اس ملک میںعوامی انقلاب کے ذریعہ عوامی جمہوریت قائم نہیں ہوتی، عوام مشکلات اور مصائب سے نجات حاصل نہیںکرسکتے۔بے شک بھاجپا زوال پذیر ہے لیکن وہ اپنے زوال کو ٹالنے کے لئے کوئی بھی حربہ بروئے کار لاسکتی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں ابھی تین چار ماہ باقی ہیں۔ اس عرصہ میںوہ کوئی بھی کھیل کر لوک سبھا کے انتخابات میںوہ کامیابی کی پوری کوشش کرے گی۔ اُس کے پاس سب سے بڑا ہتھیار اورحربہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا ہے جس کے ذریعہ وہ آج تک ایوان اقتدار تک پہنچی ہے نہ کہ کسی مثبت عمل سے نہیں۔ اس کی کامیابی کی علامت بابری مسجد جبراً گرانے کے بعد شروع ہوئی ہے، اس وقت بھی وہ عدالتی فیصلہ کا انتظار کئے بغیر جبراً مندر بنانے کے لئے رائے عامہ منظم کررہی ہے۔ جب کہ سب طرفین کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کاا نتظار کرنے کے لئے کہا جارہاہے اور سبھی فریقین سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں توپھر راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ اور وشوہندوپریشد کی طرف سے عدالتی فیصلہ کے بغیر مندر بنانے کی مہم بازی کاکیامطلب ہے؟ یہی کہ مندر بنانے کے نام پر منافرت پھیلا کر ووٹ حاصل کئے جائیں۔ حالانکہ مودی سرکار کو برسراقتدار آئے پانچ سال کے قریب ہوگئے ہیں،اس دوران اُسے مندر بنانے کی نہیں سوجھی لیکن اب انتخابات کے عین قریب اس مسئلہ پر فرقہ وارانہ مہم بازی کی جارہی ہے۔ گئو رکھشا کے نام پر دنگے بھڑکائے جارہے ہیں اور معصوم لوگوں کو تختہ ٔ مشق بنایا جارہاہے، شہروں کے تاریخی نام تبدیل کرکے فرقہ پرستی کو ہوا دی جارہی ہے،بڑی بڑی مورتیاں کھڑی کرکے انتخابات جیتنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس لئے باخبر اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ 2019ء کے انتخابات عام نوعیت کے نہیںہیں،اگر اس میںبھاجپا کو کامیابی دکھائی نہ دی تو وہ کوئی اورکھیل کھیل کر نام نہاد بورژوا جمہوریت کو تلانجلی دے کر برسراقتدار رہنے کا کوئی اور حربہ بھی زیر ِکارلاسکتی ہے، جس طرح ہٹلر نے جرمنی میں کیاتھا۔ رائے عامہ کافرض ہے کہ وہ ہوشیار اور خبردار رہے اور راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ اور اُس کی شکمی تنظیم بھاجپا کے عزائم کو ناکام کرنے کے لئے پورا زور لگائے۔ ہمیں کانگریس اور اس کے اتحادیوں کے اُبھر رہے متبادل سے بھی ہرگز صورت حال میںکسی بہتری کی اُمید نہیں ہے کیونکہ بھاجپا سے پیشتر وہی اس ملک کے حکمران تھے اور اُ ن ہی کی کالی کرتوتوں کے باعث فاشسٹ، فرقہ پرست، رجعت پسند اور قدامت پسند بھاجپا برسراقتدار آئی ہے اور اُس نے برسر اقتدار بورژوا جمہوریت کے بھی ادارے تباہ وبرباد کردئے۔ کہیں عدلیہ، انتظامیہ، معیشت، قانون سازیہ، صحافت، میڈیا سب زیرِعتاب ہیںاور تباہی وبربادی کے نرغے میں پھنسے ہوئے ہیںلیکن بھاجپا کے برسراقتدار رہنے سے ان سب اداروں کے تباہ وبرباد اور غرقآب ہونے کااندیشہ حقیقی ہے۔ اگر کسی سازش، ہیرا پھیری، لفاظی، محاورہ بازی، یا سنہرے سپنے سے بھاجپا ایک بار پھر برسراقتدار آگئی تو اس ملک کی خیرنہیں۔ اس لئے ملک کی سلامتی، اتحاد، یگانگت اور خیر سگالی کے لئے فرقہ پر ستوں سے نجات دلوانا فرض اول ہے۔ حالیہ پانچ ریاستوں کے عوام نے اس فرض کی ادائیگی میں رہنمایانہ رول ادا کیاہے، ملک کے باقی حصوں کو بھی اس سلسلہ میں پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔
طبقاتی لحاظ سے بھاجپا کے متبادل اُبھر رہی پارٹیوں سے بھی طبقاتی اعتبار سے کسی تبدیلی کی اُمید نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ متبادل بھی پہلے ہی سے آزمایاہواہے۔ یہ متبادل بھی سامراج، گماشتہ سرمایہ داری اور لینڈلارڈازم کا ترجمان اور محافظ ہے، تاہم جب تک عوام انقلابی جدوجہدوں کے ذریعہ انقلاب کے ذریعہ عوامی جمہوریت کے قیام کی جدوجہد میں کامیابی حاصل نہیںکرلیتے۔ اُس وقت تک بھاجپا کی فاشسٹ آمریت سے بچانا ضروری ہے اور بھاجپا کو اقتدار سے محروم کرنے کی جدوجہد کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ البتہ یہ سمجھنا کہ کو ئی سامراج ، گماشتہ سرمایہ داری اور لینڈلارڈوں کی ترجمان اور محافظ موجودہ انتخابی پارٹی عوام کو سچی آزادی ، حقیقی جمہوریت اور فارغ البال معاشرہ سے ہمکنارکرسکتی ہے، ایساسو چنا بھی سخت نادانی اورناحق ہے۔ اس قومی مقصد کے حل کے لئے ایسی انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے جو سامراج، گماشتہ سرمایہ داری اور لینڈلارڈوں سے ناطہ توڑ کر خود کفیل اور خود انحصار معاشرہ تعمیر کرسکے اور طبقاتی تفاوتوں کو ملیا میٹ کرسکے۔ موجودہ پارلیمانی اور انتخابی پارٹیوں میں ہرگز یہ صلاحیت نہیں ،ملک کی موجودہ صورت حالات سے کئی حلقے مایوس ہیں اور وہ موجودہ بورژوا پارلیمانی نظام کے اندر ہی بہتری اور بہبودی کی راہ تلاش کررہے ہیں لیکن ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے انتخابی بھول بھلیوں سے آزاد ہو کرکار کشا راستہ ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت یہ متبادل مشکل معلوم ہوتاہے لیکن اس کے بغیر عوام کے نجات کاکوئی راستہ نہیں ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ بار بار کے تجربات کے اور عوام اصل راستہ اختیار کرنے کے ضرور قابل ہوجائیںگے۔ اس سلسلہ میں ساحرؔ لدھیانوی کاکہنابجاہے ؎
وہ صبح کبھی تو آئے گی
انِ کالی صدیوں سے جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دُکھ کے بادل پگھلیںگے ۔ جب سکھ کا ساگر چمکے گا
وہ صبح کبھی تو آئے گی
جس صبح کی خاطر جُگ جُگ سے ہم سب مرمر جیتے ہیں
جس صبح کے امرت کی دُھن میںہم زہر کے پیالے پیتے ہیں
اِن بھوکی پیاسی روحوںپر اِک دِن تو کرم فرمائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
مانا کہ ابھی تیرے میرے ارمانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
مٹی کا بھی ہے مول کچھ۔ مگر انسانوں کا قیمت کچھ بھی نہیں
انسانوں کی عزت جب جھوٹے سکوں سے نہ تولی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
دولت کے لئے جب عورت کی عصمت کونہ بیچاجائے گا
چاہت کو نہ کُچلا جائے گا۔ غیرت کو نہ بیچا جائے گا
اپنے کالے کرتوتُوں پر جب یہ دُنیا شرمائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
بیتیںگے کبھی تو دِن آخر بھوک اور بیکاری کے
ٹوٹیںگے کبھی تو بُت آخر دولت کی اجارہ داری کے
جب ایک انوکھی دُنیا کی بنیاد اُٹھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
مجبور بڑھاپا جب سونی راہوں کی دھول نہ پھانکے گا
معصوم لڑکپن جب گندی گلیوں میںبھیک نہ مانگے گا
حق مانگنے والوں کو جس دن سولی نہ دکھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
فاقوں کی چتائوں پر انسان نہ جلائے جائیںگے
سینوں کے دہکتے دوزخ میں ارمان نہ جلا ئے جائیںگے
یہ نرک سے بھی گندی دُنیا ۔ جب سورگ بنائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
جب دھرتی کروٹ بدلے گی۔ جب قید سے قیدی چھوٹیںگے
جب پاپ گھروندے پھوٹیں گے۔ جب ظُلم کے بندھن ٹوٹیںگے
اُ س صبح کو ہم ہی لائیںگے۔ وہ صبح ہمیں سے آئے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
منحوس سماجی ڈھانچوں میںجب ظلم نہ پالے جائیںگے
جب ہاتھ نہ کاٹے جائیں گے ۔ جب سر نہ اُچھالے جائیںگے
جیلوں کے نیا جب دنیا کی سرکار چلائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
سنسار کے سارے محنت کش کھیتوں سے ۔ ملوںسے نکلیںگے
بے گھر ، بے در، بے بس انسان تاریک بلوںسے نکلیںگے
دُنیا امن اور خوشحالی کے پھولوں سے سجائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی