چُھپا کر بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
ایران نے چند برس پیشتر تعمیر وترقی کے لئے جوہری طاقت پیدا کرنے کافیصلہ کیاتھا جس کامقصد ایٹمی انرجی کے ذریعہ اپنی صنعت و حرفت، تجارت اور ترقی کو وسیع کرنا تھا، لیکن امریکی سامراج نے اس منصوبہ کو ایٹم بم بنانے کی کوششوں سے تعبیر کیا اور عالمی سطح پر اس امر کا پرچار اور پروپیگنڈا کیا کہ ایران ایٹم بم بنارہاہے۔ یہ پرچار اور پروپیگنڈہ ا سی نوعیت کاپکا جھوٹ تھاجیسے امریکہ نے عراق کے مصلوب صدام حسین اور لیبیا کے کرنل قذافی کے متعلق وسیع پیمانے پر اسلحہ سازی کے جھوٹا تصنیف کیا تھا لیکن سالہا سال گزرجانے کے بعد امریکی سامراج کو تسلیم کر نا پڑا کہ عراق کے متعلق اسے غلط معلومات تھیں ۔ اس سے صاف طور عیاں ہوتا ہے کہ صدام حسین اور قذافی کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈے کا مقصد محض ان کو قتل کرکے عراق و لیبیا پر اپنا قبضہ جمانا تھا۔ ایران کے سلسلہ میں بھی یہی امریکی سامراج حربہ بروئے کار لانے کا خواہش مند تھا ، اس نے ایران پر گوناں گوں قسم کی پابندیاں عائد کی تاکہ تہران کی معیشت تباہ کرکے چھوڑ کر اس پر عراق اور لیبا کی طرح اپنا تسلط جمایا جائے لیکن ایران کی بھرپورمدافعتی اور مزاحمتی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے اور عالمی رائے عامہ کی مداخلت سے واشنگٹن کو کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ ایران کی تمام ایٹمی تنصیبات کا بین الاقوامی ایجنسیوں نے معائینہ ہواتو اس کے بعد واضح ہوا کہ ایران اٹامک انرجی کو بم بنانے کے لئے نہیں بلکہ ترقی اور تعمیر کے لئے زیر کارلانے کا خواہش مند ہے۔ اس وجہ سے ایران کے خلاف امریکی سامراج کوئی جارحانہ کاروائی نہ کرسکا بلکہ عالمی رائے عامہ اور ایران کی مدافعتی و مزاحمتی قوت کو دیکھ کر اپنی ناک بچانے کی غرض سے تہران سے ایٹم بم کا پھیلائو روکنے کے نام پر ایک ایسا معاہدہ کرنے پرمجبور ہوا جس کے تحت ایران نے ایٹم بم نہ بنانے کا وعدہ کیا اور امریکہ نے ایران کے خلاف لگائیں پابندیوںختم کرنے کا اعلان کیا۔ امریکہ اور ایران کے علاوہ فرانس، جرمنی، برطانیہ، روس اور چین بھی اس معاہدہ کے برابر کے مشترکہ فریق تھے۔ ایران اپنے طور اس معاہدہ پر مکمل طورپر کاربند رہا اور اپنے پاس ایٹم بم بنانے کا سارا ساز وسامان موجود ہونے کے باوجود جوہری بم بنانے سے گریز کیا۔ اس کی تصدیق عالمی سطح پر تمام متعلقہ اداروں نے بھی کی لیکن خاصا عرصہ گزر جانے کے بعد معاہدہ شکنی کر کے امریکہ نے ایران کے خلاف پابندیاں ختم نہیںکیں اور نہ ہی امریکہ میں ایرانی اثاثوں کو تہران کو واپس کئے ۔حالانکہ معاہدے کے تحت وہ ا س کا پابند تھا۔ امریکہ کے جنونی صدر ٹرمپ نے جو ایک مسلمہ جنگ باز اور جارحیت پسند شخص ہے، نے حال ہی میں یک طرفہ طورپر ایران، روس، چین، فرانس ، جرمنی اور برطانیہ کے درمیان ہوئے اس مشترکہ معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کردیاہے جو کہ سراسر غیرواجب نامناسب اور مفسدانہ کا روائی ہی نہیں بلکہ سراسر امن عالم کو خطرات کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔ اس سے نہ صرف مشرق وسطیٰ کا پہلے سے ہی تباہ شدہ امن وامان مزید تباہی کی طرف رُخ کر ے گا بلکہ خطہ میں شیعہ سنی مسلکی تناؤ تیز ہوسکتا ہے اور مشرق وسطیٰ کا سارا خطہ عالمی جنگ کا اکھاڑہ بن جائے گا اور جیسا کہ خبریں گشت کر رہی ہیں کہ سعودی عرب اور ایران ایٹم بم بنانے پرمجبور ہوں گے۔ اس لئے امریکی صدر ٹرمپ کا زیر بحث معاہدے سے دستبرداری کا اعلان سراسر انسانیت سوز بھی ہے اور لائق صد مذمت بھی۔ ٹرمپ کا یہ اعلان اس قدر قابل نفریں ہے کہ امریکہ کے یوروپی اتحادی ممالک فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے بھی اس کی حمایت نہیں کی بلکہ وہ اس پر عمل پیرا رہنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ معاہدہ کے دو فریقوں روس اور چین نے تو برملا اس اعلان کی ڈٹ کر مخالفت ہی نہیں کی بلکہ اسے کھلی جارحیت قراردیاہے۔ عالمی رائے عامہ بھی اس منحوس اعلان کو سراسر جارحانہ اورعالمی امن کے خلاف بدشگونی قراردے رہی ہے۔ لیکن ٹرمپ ضد اور ہٹ دھرمی سے اس شرانگیز راستہ پر رواں دواں دکھائی دے رہاہے۔ بلاشبہ سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں نے ایران سے اپنی دوطرفہ رقابت کے باعث ٹرمپ کے اس عوام دُشمن اقدام کی ضرورحمایت کی ہے لیکن مسلم بلاک کا ماننا ہے کہ ٹرمپ اعلان کے پس منظر میں اس بات کا پورا پورا خطرہ ہے کہ کہیں سعودی عرب اورایران کے درمیان باقاعدہ جنگ نہ چھڑجائے جواس وقت پراکسی وار کی شکل میں پہلے ہی شام، یمن، قطر، خلیج فارس کی دیگر ریاستوں، لبنان اور دوسرے کئی مسلم ممالک میںجاری ہے۔ بالفاظ دیگر ٹرمپ کے ایران کے ساتھ معاہدہ شکنی سے عالم عرب باہم دگر لڑائیوں کے باعث مزید تباہ خیزیوں کی طرف دھکیلا جائے گا ۔ اب تو ایران کو ایٹم بنانے کی جوازیت پیدا ہوگئی ہے ۔ ٹرمپ کے اس احمقانہ فیصلے سے نہ صرف مشرقی وسطیٰ میںجنگ وجدل کے خطرات کوبڑھا واملاہے ۔اُدھر شمالی کوریا کو تباہ وبرباد کرنے کی ٹرمپ کی دھمکیوں نے شمالی کوریا کی طرف سے جوابی کاروائی کی دھمکی نے ایٹمی جنگ کے خطرات کو دوچند کر دیا تھا لیکن شمالی کوریا کی طرف سے راست اقدامات نے پروان چڑھنے والی جنگی فضا کو ٹھنڈا کیا۔ جنوبی کوریا کے کھیلوں میں شمالی کوریا کے کھلاڑیوں کی ٹیم کی شمولیت اور اس ٹیم کے ہمراہ شمالی کوریا کے حکمران کی ہمشیرہ کی شمولیت ، جنوبی کوریا کے صدر کے ساتھ شمالی کوریا کے صدر کی ملاقات اور پھر شمالی کوریا کے صدر اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان ماہ جون میں ملاقات کے اعلان سے اس خطہ میں معاملات کو سلجھانے کاعمل ضرور شرو ع ہوا تھالیکن ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ سے یک طرفہ طور دستبرداری کے امر یکی اعلان نے دوکوریاؤں میں بھی شکوک و شبہات کی فضا دیوار کھڑی کردی ہے۔ شمالی کوریا میںلازمی طورپر یہ خیال تقویت پاسکتاہے کہ جو ملک ایران اور دیگر پانچ عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے سے دستبردار ہوسکتاہے، شمالی کوریا اور امریکی انتظامیہ کے درمیان ممکنہ فیصلوں پر مثبت عمل درآمد کے لئے کیسے اعتبار کیا جاسکتاہے؟ اس سلسلہ میں امریکہ کی طرف سے دئے گئے بیانات پر شمالی کوریا نے خدشات وتحفظات کا کھلا اظہار بھی کیا۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایران کے ساتھ معاہدے سے دامن چھڑا کر شمالی کوریا، امریکہ اور جنوبی کوریا کے درمیان مذاکرات کامثبت نتائج نکلنے کی اُمید کا خون کیا گیا ہے۔
چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی مقابلہ بازی اور معرکہ آرائی تو آفاقی حقیقت ہے لیکن جس بے تکلفی سے ٹرمپ نے یک طرفہ طور چین کی درآمدات پر یک طرفہ ٹیکسوں کی بھرمار کی ہے، اُس سے چین اور امریکہ کی معیشت پر تجارتی جنگ کا زبردست خطرہ منڈلا رہاہے۔ اسی طرح جنوبی بحیرئہ چین میں واقع جزائر میںچین کے بحری بیڑوں کی تعیناتی اور امریکہ کی طرف سے اس خطہ میںہوائی جہازوں کی پروازیں اور بحری بیڑوں کی کھلی آمدورفت پر کسی وقت بھی تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے اورپھر امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور ہندوستان کے پیسفک ریجن میں تعاون کے معاہدہ کو بھی چین اپنے خلاف مخاصمانہ عمل گردانتاہے ، اس سے خطہ میں بھی تنائو کی صورت حال پائی جاتی ہے۔ اُدھر لاطینی امریکن ممالک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی تشویش ناک ہیں۔ا مریکی سامراج ان ممالک میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے پورا زور لگارہاہے۔ جس طرح ٹرمپ نے امریکہ اور میکسکو کے درمیان دیوار بندی کااعلان کیا،اُس سے ان ملکوں میںتنائو کی عکاسی ہوتی ہے جو مسلح ٹکرائو کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ امریکہ نے جس طرح شام میں یک طرفہ طور میزائیل حملے کئے اور اسی قسم کے مزید حملے کرنے کاارادہ ظاہر کیا ، اس پر روس کی طرف سے عملی کارروائی کا اعلان ہوا ۔ یہ روس اور امریکہ کے درمیان تعلقات نہ صرف کشیدہ ہونے کا اشارہ دیتا ہے بلکہ جنگ وجدل کے شدید امکانات کو ظاہر کر رہاہے ہے جو تیسری عالمی جنگ کاپیش خیمہ ہوسکتاہے۔غرض امریکی سامراج کے سربراہ ِ حکومت ٹرمپ کی اختیار کردہ پالیسیوں کے باعث نہ صرف ایران اور مشرق وسطیٰ میںجنگ وجدل کی شعلہ زنی ہوسکتی ہے بلکہ عالمی سطح پربھی تباہ کن عالمی جنگ کاخطرہ بڑھ رہا ہے۔ایسا دکھائی دیتاہے کہ ٹرمپ میں ہٹلر کی روح عود کرآئی ہے۔ تاریخ شاہد عادل ہے کہ ہٹلر نے پہلے آسٹریا پر قبضہ کیا تو دُنیا خاموش رہی، پھر چیکوسلواکیہ پرقبضہ کیا تودُنیا چُپ رہی۔ جب اُس نے پولینڈ پر حملہ کیا تو دنیا کچھ بیدار ضرور ہوئی لیکن ہٹلر کی جارحانہ اور جنگ بازانہ پالیسیوں نے دُنیا کو دوسری جنگ عظیم کے بھنور میں اس وقت پھنسادیا تھا۔اس کے تباہ کارانہ نتائج سب کے سامنے ہیںاور یہ عالمی تاریخ کاخون آلودہ صفحہ ہے۔ امریکہ کا صدرٹرمپ بھی ہٹلر ثانی بننے کی تگ ودَو میں مصروف ہے۔ ایران کے ساتھ معاہدہ سے یک طرفہ برأت کو اگر اقوام عالم اور عالمی رائے عامہ نے ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلیا تو ٹرمپ دُنیا کو تیسری عالمی جنگ کے جہنم میں دھکیل سکتاہے۔ اس لئے تیسری دُنیا ا ور دوسری دُنیا کے ممالک اور عالمی رائے عامہ کافرض منصبی بنتاہے کہ وہ بآواز بلند اس جنون و دیوانگی کے خلاف احتجاج کریںاور ٹرمپ کو یہ جارحانہ اور جنگ بازانہ قدم واپس لینے کے لئے مجبور کریں۔ وگرنہ سارے عالم کو اُس کے انتہائی مضر ونقصان دہ نتائج بھگتنے پڑیںگے۔