نور شاہ
ماں
’’میڈم‘‘
’’میں آپ کی بات سُن رہی ہوں، کہئے اور کیا کہنا ہے؟‘‘
’’کہنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن میں اپنی بات کو مختصر کرکے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مجھے کمپنی سے جو تنخواہ ملتی ہے اس کی بدولت ہماری گھریلو ضروریات خوش اسلوبی کے ساتھ پوری ہوجاتی ہیں، اس کے علاوہ میری اس تنخواہ سے آپ کی ڈھیر ساری ذاتی چاہتوں کی تکمیل بھی ہوتی ہے اور آپ جانتی ہیں اور میں بھی جانتا ہوں کہ آپ کی اندر باہر کی چاہتوں کی راہ بڑی لمبی ہے اور ۔۔۔۔ اور۔۔۔۔؟!‘‘
’’اورکیا؟‘‘
’’کہدوں‘‘
’’کہدیجئے، ویسے بھی کچھ رقم تو بچ ہی جاتی ہوگی‘‘۔
’’ہاں کچھ رقم ضرور بچ جاتی ہے۔ وہ میں یتیم گھر جاکے دے آتا ہوں اُن بے سہارا اور یتم بچوں اور بچیوں کے لئے جنہیں اچھی پرورش اور بہتر تعلیم و تربیت کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بہتر تعلیم و تربیت اُن کے بہتر اور خوشحال مستقبل کی ضمانت ہے۔ ہر ماہ دبے دبے قدموں سے یتم گھر جاتا ہوں اور دبے دبے قدموں سے لوٹ آتا ہوں۔ بچوں اور بچیوں سے بھی ملتا ہوں۔ میں کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں یتیم گھر کے منیجر کے بغیر کوئی نہیں جانتا ہے۔‘‘
’’آپ کی تو سُن لی اب میری بھی سُن لیجئے۔‘‘
’’کیا کہنا چاہتی ہیں آپ‘‘۔
’’فی الحال یتیم گھر کی باتیں بھول جائیں اور وہ رقم مجھے دیا کریں۔ میری ذاتی ضروریات بھی بڑھ چکی ہیں۔ میری ضروریات میرے لئے اہم ہیں، اُن بچوں سے بھی اہم‘‘۔
’’یہ آپ کہہ رہی ہیں اُن معصوم بچوں اور بچیوں کی ضرورت کو نظرانداز کرنے کا مشورہ آپ دے رہی ہیں۔ آپ۔۔۔۔میڈم۔۔۔ آپ کہہ رہی ہیں۔‘‘
’’ہاں میں کہہ رہی ہوں، میں میڈم کے علاوہ آپ کی بیوی بھی ہوں‘‘
’’ہاں آپ میری بیوی ہیں۔ اس بات سے میں نے انکار کب کیا۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔؟
’’لیکن کیا؟‘‘
’’کاش آپ ایک ماں بھی ہوتیں۔۔۔!‘‘
����
سانپ
گُل سرور کے شور و غل سے جب افراد خانہ گھبرا کر اُس کے کمرے میں آئے تو وہ بظاہر اپنے بستر پہ لیٹا ہوا تھا لیکن اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے جسم کو لحاف کے اندر چھپانے کی کوشش کررہا تھا۔
’’کیا ہوا گل سرور‘‘
’’سانپ نے کاٹ لیا لیکن وہ میرے جاگنے سے پہلے ہی غائب ہوگیا‘‘۔
’’میں نے کہا تھا کہ اس گھر میں سانپ ہے اور یہ سانپ زہریلا بھی ہوسکتا ہے۔ گھر میں کسی نے بھی میری بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ گل سروس سانپ کے ڈسنے سے بچ گیا۔ لیکن کیا معلوم سانپ اپنا کام کر چکا ہو۔ اس نے گل سرور سے کہا ہاسپٹل جانا ضروری ہے۔ ڈاکٹری معائینہ ہر حالت میں ہونا چاہئے۔ گل سرور کے بڑے بھائی نے تلخ لہجے میں کہا۔ اس لہجے میں اپنے بھائی کے لئے محبت مٹھاس صاف صاف نظر آرہی تھی۔
کمرے میں خاموشی چھا گئی اور اس خاموشی میں گل سرور اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ہاسپٹل چلا گیا۔
ڈاکٹر نے بھر پور معائینہ کیا اور پھر اطمینان بھرے لہجے میں بتایا کہ مریض کو سانپ نے نہیں کاٹا ہے۔ وہ بصحت و سلامت ہے۔ فکرمند ہونے کی ہرگز ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ ہاں تھوڑی سی گھبراہٹ ضرور تھی جس کے لئے میں نے انجکشن لگادیا ہے۔ اب آپ ان کو گھر لے جاسکتے ہیں۔
اور پھر جب گل سرور اور اس کا بھائی گھر کی جانب جانے لگے تو ڈاکٹر نے جانے کیا سوچتے ہوئے روک لیا۔
’’میں اپنی بات دہرا رہا ہوں کہ ان کو کسی سانپ نے نہیں ڈسا ہے اور نہ ہی کاٹا ہے لیکن ۔۔۔۔!‘‘
’’لیکن کیا؟‘‘ بڑے بھائی نے گھبرائے ہوئے انداز میں پوچھا۔
’’یہ انسانی سانپ بھی ہوسکتا ہے اور انسانی سانپ اکثر گھروں میں ہی ملتے ہیں۔ ‘‘
’’آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ڈاکٹر صاحب‘‘
’’کیا یہ شادی شدہ ہیں‘‘۔
’’جی نہیں‘‘
’’تو پھر تنہائی کا سانپ ان کو ڈس بھی سکتا ہے اور کاٹ بھی سکتا ہے۔
چانس
’’ممی میں جارہی ہوں‘‘۔
’’پر کہاں، تم تو جانتی ہو کہ مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔‘‘
’’جانتی ہوں۔ میں یوں گئی اور یوں لوٹ آئی‘‘۔
’’پر مجھے تو یہ بتائو جا کہاں رہی ہو۔‘‘
’’میک اَپ سینٹر۔ ذرا سا میک اَپ کرنے کے لئے۔‘‘
’’میک اَپ اور اس وقت؟‘‘
’’ڈاکٹر کے پاس جارہی ہوں نا آپ کے ساتھ‘‘
پر ڈاکٹر اور میک اَپ کا کیا تعلق؟
’’سناہے ڈاکٹر ابھی کنوارا ہے۔
’’تو پھر؟‘‘
شاید مجھے چانس مل جائے۔۔۔!
ایل ڈی کالونی راولپورہ سرینگر
موبائل نمبر; 9906771363