ڈاکٹر فلک فیروز
ہر دور میں افراط اور تفریط سے بچنے کی خاطر اعتدال کو اپنایا گیا ہے ۔مالیاتی سطح پر اعتدال برتنا معاشی خوشحالی کی ضمانت ہے۔ خردووش میں اعتدال صحت کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ کلام ،تکلم میں اعتدال رکھنے سے دانائی مل سکتی ہے ۔تعلقات میں اعتدال رکھنا آپ کے ذہنی سکون کی سند ہے ،عبادات میں اعتدال کی تلقین خود حضور ِاکرمؐ نے کی ہے ۔غرض اعتدال لازم ہے ۔عہد حاضر کے افراتفری ،سماجی انارکی، ظلم و تشدد کی قوی مثالیں عالمی سطح پر دیکھی جاتی ہے جہاں اعتدال سے کام لینا ہوش مندی سے تعبیر ہے ۔مشہور قلم کار ایرولین کریٹیو لکھتے ہیں :
” Observe carefully what guides the actions of the fanatics. Civilization can not survive when moderation is replaced by Extremism, desire for revenge, and greed. When moderation is missing, the language becomes debased and violence is regarded as legitimate. Fierce sectarian battles are waged among people who start seeing each other as irreconcilable enemies. In the end, a new state of nature replaces civilization ,allowing the dark demons of human nature to prevail over its better angels”. ) Why Not Moderation ? Letters to Young Radicals pg.no 36, by Aurelian Craiutu ,2024(
دنیا کی تعریف یوں بیان کی جاتی ہے کہ دنیا انسانی نقطۂ نظر سے زمین کو دیکھنے کا نام ہے۔ یہ ہمارے تجربات ہماری تاریخ اور ہماری صورت حال کا عکس ہے۔ ہر انسان کے نزدیک دنیا کا تصور مختلف ہے۔ لفظ دنیا مفکروں ،علماء، فنکاروں ،سائنسدانوں کی نظر میں اپنی الگ الگ تعریف رکھتا ہے ۔ ماہر نفسیات ابراہم ایچ میزلو نے اِس دنیا کو اپنی بنیادی خواہشات کے پورا کرنے اور خود شناسی کی منزل کی طرف سفر قرار دیا۔ اندلس کے فلسفی ابن رشد نے دنیا کو انسانی خواہشات اور حدوں کا امتزاج قرار دیا۔ مذہبی لوگوں کے نزدیک دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ ایک بچے کی دنیا کھلونوں کے گرد گھومتی ہے اور ایک وطن پرست کے نزدیک اس کا وطن ہی اس کی دنیا ہے۔ اندھی ،گونگی اور بہری ہیلن کیلر امریکی قلم کار ،سیاسی کارکن اور لیکچرر کو یہ دنیا بہت خوبصورت لگی۔ اسی طرح آخرت کو دنیا کی ضد گردانا جاتا ہے ۔ یعنی ایک ایسی جگہ جو ہماری ظاہری نظروں سے اوجھل ہے لیکن جس کا ہمیں بغیر دیکھے بھی کامل یقین ہے، جس پر ہمارے ایمان کی بنیاد ہے اور اس بات کی خبر بھی ہمیں دی جاچکی ہے کہ انسان کو دنیا میں زندگی گزارنی ہے، اس کے نرم و گرم ،سازگار ،ناسازگار حالات ،خوشی اور غم کے موقعوں ،موت اور حیات کا رقص ،محبت،عداوت،دوستی ،دشمنی،ناکامی ،کامیابی ،تنگدستی ،فراوانی،تکالیف ،آرام وآسائش سے گزر کر مرنا بھی ہے اور موت کے بعد اللہ کے روبرو ہو کر تمام اعمال،عطا کردہ نعمتوں کا حساب دینا ہوگا ۔گویا دنیا ایک ایسی جگہ بھی ہے جہاں رہ کر انسانوں کو ایک قانون ،اصول کا پابند بنایا گیا ہے جس کا نصاب ہر ایک انسان کے لیے اس کی مذہبی و آسمانی کتاب میں موجود ہے ۔اللہ نے مومنوں کو بار بار اس بات سے اجتناب برتنے کی تلقین کی ہے کہ نہ خود پر ظلم کرو ،نہ خود کو ہلاکت میں ڈالو نہ ہی دوسروں کا حق ہڑپ کرو ۔خود پر اللہ کے قانون کا اطلاق کرنے سے مراد ہے ،اپنے خاکی وجود اور روحانی وجود کے حقوق کے درمیان اعتدال برتنا ۔اعتدال سے مراد ہے نہ کم اور نہ زیادہ بلکہ برابر اپنی مقدار کے مطابق۔
اعتدال عربی زبان کا لفظ ہے ۔ جس کو فارسی میں میانہ روی کہتے ہیں، اردو زبان میں دونوں لفظ اس کے معنی کے ساتھ مستعمل ہے۔ لغت میں اس کے معنی درج ہیں ، توازن، طبیعت کے معمول پر ہونے کی حالت، اطمینان ،کسی جسم کے اعضا کا تناسب۔(طب) جسم انسانی میں اخلاط کا متوازن امتزاج یا تناسب مقدار کہ ایک دوسرے پر غالب نہ آئے، طبعی صحت۔ (ہیئت) وہ نقطہ جہاں خط استوائی اور طریق الشمس کا تقاطع ہوتا ہے (جب آفتاب یہاں پہنچتا ہے تو شب و روز برابر ہوجاتے ہیں)۔میانہ روی ، کسی عمل میں درمیانی روش یا حالت جس میں نہ افراط ہو نہ تفریط (مثلاً خرچ کرنے میں نہ اسراف نہ بخل ، برتاو میں نہ سخت گیری نہ بالکل نرمی )۔
اللہ تعالی قران کریم میں ارشاد فرماتے ہیں: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا(سورۃ البقرہ: ۱۴۳)ترجمہ: ’’اور ( مسلمانو !) اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک معتدل اُمت بنایا ہے، تاکہ تم دوسرے لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنے۔‘‘
حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سراپا نور ہے جس کا ہر لمحہ اعتدال یا میانہ روی میں گزرا ہے، ذاتی زندگی سے لیکر بین الاقوامی سطح تک کے تمام امور میں اعتدال کو برتنا حضوراکرمؐ کی تعلیمات میں شامل ہے ۔اللہ کی عبادات میں ،اپنے نفسانی خواہشات کی تکمیل میں ،رشتہ داری نبھانے میں،دوست داری میں،فرایض ِ منصبی کی تکمیلات میں ،خاندانی امورات میں ،اولاد کے درمیان محبت ،شفقت کے جذبوں کے اظہار میں ،ازدواجی زندگی میں ،میزان میں ،اولاد کی تعلیمات کے حصول میں ،خردونوش کے معاملات میں ،آرام و آسایش کی دستیاب سہولیات میں ،کاروبار کے نفع و نقصان میں ،اپنے کلام و اخلاق میں ،کھانے پینے ، پہنے میں ،خرید وفروخت میں ،اپنے خاکی و روحانی وجود کے درمیان معاملات میں ،اللہ کی عبادات میں ،غرض ہر جگہ اعتدال پسندی سے کام لینا چاہیے ۔جس کی تعلیمات ہمیں اللہ نے حضرت محمدؐ کے ذریعے کلام پاک میں دی ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اخراجات میں میانہ روی اختیار کرنا آدھی معیشت ہے۔ اس حدیث کی رو سے اقتصادی مسایل کی تعلیم ہمیں دی گی ہے جس پر آج کے ماہرین اقتصادیات اکثر و بیشتر اپنے ماہرانہ تجربوں سے عوام کو مشورے صادر کرتے رہتے ہیں کہ کس طرح ہم اپنی معیشت کو بہتر بناسکتے ہیں ،کون کون سی تدابیر اختیار کرنا لازم ہے تاکہ مالی بحران سے نجات مل سکے ۔ اعتدال پسندی کو ہر مذہب ،ہر قوم ،مختلف فکر و نظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں ،علماء، ادباء نے اپنانے کی تلقین کی ہے اور انسانی زندگی کے لیے ضروری قرار دیا ہے ۔برٹینکا لغت کے مطابق اعتدال :
“The quality or state of being reasonable and avoiding behavior, speech, etc., that is extreme or that goes beyond what is normal or acceptable”
یونان کے معروف فلسفی ارسطو نے اعتدال کو ایک اخلاقی فضیلت سے تعبیر کیا ہے جو کئی خصوصیات کا حامل ہے اور لوگوں کی زندگی کو بہتر سے بہتر بنا سکتا ہے گویا اعتدال میں فضیلتیں پوشیدہ ہیں جنھیں اپنا کر بندہ نیکی کی جانب قدم بڑھا سکتا ہے ۔ ایرلین کرایٹیو ایک مشہور قلم کار ہے جو سیاسی امور ،مسائل پر لکھتے رہتے ہیں، انکی مشہور کتاب مکالمے کی صورت میں بعنوان’’ اعتدال پسندی کیوں؟‘‘ شایع ہوئی ہے، اسکے علاوہ اعتدال کے چہرے ۔ انتہا پسندی کے دوران میں توازن کا فن میں لکھتے ہیں :
” Aristotle listed moderation as one of the moral virtues. He also defined virtue as the mean between extremes, implying that moderation plays a vital role in all forms of moral excellence. But moderations protean characterits vague and ill-defined.”)Faces of Modernation :The Art of Blance in the age of Extremes , Aurelian Craiutu( ۔
یہاں اس بات کی مزید وضاحت لازمی بن جاتی ہے کہ اعتدال پسند بننا نہ صرف انسان کی آخرت کے لیے فایدہ مند ہے بلکہ دنیا میں بہتر ،مناسب ،موزون،باوقار،پُرسکون زندگی بسر کرنے کے لیے اعتدال کی اشد ضرورت ہے ۔مشہور مقرر و مصلح قوم جناب قاسم علی شاہ اپنے ایک کالم بعنوان’’ میانہ روی کامیابی کا راستہ‘‘ کے ذریعے ہمیں بتاتے ہیں کہ میانہ روی یا اعتدال پسندی اپنانے سے زندگی میں سکون اور خوشی ممکن ہے وہ رقمطراز ہے: اعتدال اور میانہ روی ہی وہ صفت ہے جس کی بدولت انسان بہت ساری دنیاوی فوائد حاصل کرسکتا ہے ۔اعتدال میں رہنے والا انسان کبھی مفلسی کا شکار نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ غیر ضروری فکروں میں مبتلا ہوتا ہے۔حضورِ اکرمؐ کا فرمان ہے کہ ’’ میانہ روی نبوت کا پچیسواں جزو ہے۔( ابوداؤد،مسنداحمد)
قاسم علی اپنے لکچروں کے ذریعے لوگوں کو نیک تعلیمات دیتے رہتے ہیں ۔اعتدال مضمون پر ان کے متعدد ویڈیوز ،لیکچر دیکھنے کو ملے ہیں جن میں انھوں نے عصری حالات ،عہد جدید،عہد قدیم کے سماجی راوبط،معاشرتی زندگی ،مذہبی عقیدگی ،تعلیمی نظام ،نظام عدلیہ وقانون،سیاسی منظرنامے،مالیاتی نظام ،معاشی صورت حال کے تناظر میں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اعتدال برتنے سے زندگی ہموار ہو جاتی ہے اور اسراف کرنے سے انسان تنگ دستی کا شکار ہوکر خود پر عذابِ الہٰی کو واجب کردیتا ہے ۔یقینی بات یہی ہے کہ اگر روزمرہ زندگی کے مسایل میں اعتدال پسندی کو اپنا شیوہ بنایا جائے تو بے سکونی،پریشانی،بے برکتی سے انسان کو نجات مل سکتی ہے۔ ہر انسان کو چاہئے کہ خود اعتدال پسند رہے، دوسروں کو اعتدال پسندی کے فایدے بتائے، خاص طور پر اپنے بچوں کو اعتدال پسند بنانا سکھائے، انھیں اسراف ،فضول خرچی اور زیادتی و کمی کے نقصانات اور فواید سے آگاہ کریں ۔ایک والد میں اعتدال پسندی نہ ہونے سے اس کی نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ عین مطابق بچوں کا اعتدال پسند نہ ہونا آبا و اجداد اور خاندان کی بنائی گئی سلطنت کو برباد کرنے کے ساتھ ساتھ حسب و نسب کی تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔ مشہور ہیومن ریسورس ٹرینر اور ویرا ورچیو کڈس کے بنیاد گزار ویرا سموٹ ٹیلور بچوں میں بہترین بھلائی کے جذبوں کو پرورش پانے کی خاطر ،ان کے اندر اچھائی یاخیر کے نمو پانے کی تربیت کو اکثر اپنی تحریروں میں لکھتے رہتے ہیں۔ بچوں کے اندر اعتدال پسندی کے جذبات کو اُبھارنا چاہئے تاکہ وہ فطری طور پر اپنی زندگی کو آسانی سے گزارسکے اور فضول خرچی و اسراف کے نقصانات سے بھی انھیں آگاہ کیا جانا چاہے تاکہ وہ اپنی زندگی میں ان چیزوں سے دور رہیں اور انکی زندگی میں توازن پیدا ہوسکے نیز زیادہ سہولیات اور کم آسائشوں کے ہوتے ہوئے بھی وہ توازن برقرار رکھ سکے ۔ بقول ویرا سموٹ ٹیلور :
” Moderation is the practice of finding a balance between extremes. In the context of child development, moderation refers to the process of teaching children how to find a balance between too much and too little of something. This can be applied to a variety of areas, such as food, screen time, and activities”(Vera Smoot Taylor(
(رابطہ۔8825001337)