معاشرے میں امن ہو،آپسی محبت کی فضا ہو اور ہر فرد کی زندگی میں سکون ہو،اس کے لیے ہمیشہ مصلحین مختلف کوششیں کرتے آئے ہیں اور ان کوششوں میں اہم تر اصلاح معاشرہ کی کوشش رہی ہے۔ دنیا میں بالعموم اور امت مسلمہ میں بالخصوص ہمیشہ ایک یا دوسرے نام سے کوئی نہ کوئی اصلاحی تحریک برسرپیکار رہی ہے۔ اس طرح کی کوششیں اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرہ کے اندر خیر خواہی موجود ہے، اللہ کے نبیوں نے جہاں اپنے وقت میں دعوت الی اللہ کا کام کیا وہی اصلاح کی کوشش بھی کی ہے۔ بعدازاں کئی اشخاص اٹھے اور کئی تحریکیں برپا ہوئیں مگر عموماً ان تحریکوں میں دو کمیاں پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ اصلاح معاشرہ کا لفظ ذہن میں آتے ہی صرف چند محدود رسوم کو لے کر کوششیں ذہن میں آتی ہیں۔ اس طرح اصلاح کا کام ایک محدود فریم میں ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ دوسرا جو طریقے اپنائے جاتے ہیں، وہ روایتی طریقے ہوتے ہیں۔ نتیجتاً کوئی خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آتی۔ معاشرے کی تعمیر ایسے نہیں ہو پاتی جیسے ہونی چاہیے۔ دراصل معاشرے میں موجود ہر برائی کا سرا کسی سبب کے ساتھ جڑا ہوتا ہے اور وہ سبب کسی اور سبب کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ وقت کا مصلح سماج پر گہری نظر رکھتا ہو اور چیلنجز کا واضح شعور رکھتا ہو اور اصلاحی عمل ایک مربوط اور مضبوط پلان کے مطابق ہو۔ اصلاحِ عمل کے کیا کیا خدو خال ہونے چاہئے؟ موجودہ علوم اور تحقیقوں کے تناظر میں اصلاحی پلان کس طرح ترتیب دیا جانا چاہئے؟ اس پر ایک منفرد اور بہترین کوشش جناب سید سعادت اللہ حسینی کی کتاب ’’اصلاح معاشرہ ۔منصوبہ بند عصری طریقے‘‘ میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔سید سعادت اللہ حسینی دانشور قائد ہیں۔ آپ فی الوقت امیر جماعت اسلامی ہند ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے، جہاں ان کی قرآن و حدیث پر گہری نظر ہے، وہیں عصری علوم سے بھی آپ بہرہ ور ہیں۔ ان کی تحریر میں علمی دلائل کے ساتھ ساتھ بہترین عقلی استدلال ہوتا ہے۔ ایک عرصہ سے ضرورت تھی اُمت مسلمہ کو ایسی قیادت کی جو قلب کو گرمادے اور روح کو تڑپا دے۔جو اُمت کی عملی اور فکری رہنمائی کرے، سعادت صاحب میں الحمد للہ یہ صفات ہیں۔ سعادت صاحب نے اس سے پہلے کئی کتابیں اور مضامین تحریر کئے ہیں۔ آپ کی زیر تبصرہ کتاب 133 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں ان کمزوریوں اور رکاوٹوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جس سے اصلاح کی کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتیں۔ 'پیش لفظ میں وہ اس کتاب کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں: ’’پیش نظر کتاب میں اصلاح معاشرہ کا ایک نیا اپروچ تجویز کیا جا رہا ہے،اس اپروچ میں جدید معاشروں کی پیچیدہ ترکیب اور ان میں تبدیلی کے ہمہ گیر تقاضوں کا لحاظ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، سماجی تبدیلی اور سوشل انجینئرنگ کے جدید طریقوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ ‘‘ (صفحہ 8)
کتاب کے بارے میں میرے محترم استاد ڈاکٹر محی الدین غازی کی رائے ہے کہ یہ اپنے موضوع پر پہلی کتاب ہے۔ مزید لکھتے ہیں :’’معاشرے کی اصلاح اہم ترین دینی فریضہ ہے۔ اس کے سلسلے میں امت کے اندر ہمیشہ فکرمندی رہی ہے۔ سماج میں پائے جانے والے غلط رویوں کی اصلاح کے لیے امت کے علما اور رہنما ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔ اصلاحی تقریروں پر مشتمل پروگراموں اور جلسوں کا امت میں عام رواج ہے۔ اس کے باوجود سبھی لوگوں کا گہرا احساس ہے کہ اصلاحِ معاشرہ کا کام آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے اور اس کے لیے زیادہ موثر تدبیروں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔اس وقت دنیا بھر میں انسانی آبادی پر اثر انداز ہونے والی قوتیں معاشرے کو اپنے ایجنڈے کے مطابق بدلنے اور ڈھالنے کے لیے نہایت منصوبہ بند اور ترقی یافتہ طریقے استعمال کرتی ہیں۔ معاشرے کو الٰہی ہدایات کے مطابق ڈھالنے کے لیے بھی صرف تقریروں اور خطبات پر اکتفا کرنا نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا ہے۔ اس عظیم الشان کام کے لیے بھی سماج کا گہرا جائزہ، منصوبہ بندی اور صالح عصری طریقوں کا استعمال ضروری ہے۔
منصوبہ بند اصلاحِ معاشرہ بہت اہم موضوع ہے، لیکن ابھی تک اس موضوع پر کوئی کتاب موجود نہیں تھی ،جو اس میدان کے کارکنوں کے لیے مرجع بنتی‘‘۔ کتاب میں پیش لفظ کے علاوہ 6 ابواب ہیں۔ کتاب کے پہلے باب’’ اصلاح معاشرہ کا سماجیاتی اپروچ ‘‘ کے تحت کتاب کا مقصد بیان کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:
’’معاشرے کی اصلاح، اس وقت ہر دینی جماعت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ بڑی دینی جماعتوں کے ساتھ ، علمائے کرام اور مصلحوں اور دانش وروں کی ایک بڑی تعداد، انفرادی طور پر بھی اصلاحی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ملک بھر میں سینکڑوں چھوٹے بڑے گروپ، ادارے، نوجوانوں کی فلاحی تنظیمیں، مسجد کمیٹیاں، اصلاحی انجمنیں وغیرہ بھی معاشرے کی اصلاح کو اپنا اہم مقصد قرار دیتی ہیں۔ لیکن ان سب کی کوششوں کے جائزے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح معاشرہ کا کام بہت زیادہ روایتی کام بن گیا ہے اور تقریروں اور جلسوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ جلسے اور اجتماعات کرنا، معاشرتی برائیوں کی مذمت پر تقریریں کرنا اور مختلف معاشرتی موضوعات پر اسلامی موقف بیان کردینا، ان کاموں کو اصلاح معاشرہ کی واحد سرگرمی سمجھا جانے لگا ہے۔ اب زیادہ سے زیادہ انہی تقریروں کے چھوٹے بڑے کلپ سوشل میڈیا پر عام ہونے لگے ہیں۔ اس کام کی ضرورت و افادیت سے انکار نہیں، لیکن اصلاح معاشرہ کی ساری ضرورتیں ان کاموں سے پوری نہیں ہوتیں۔ اس سوال پر از سر نو سنجیدگی سے غور ہونا چاہیے کہ آج کے دور میں معاشرے کی اصلاح کے تقاضے کیا ہیں؟ اور اس سلسلے میں جد و جہد کے کون سے پہلو مزید توجہ چاہتے ہیں؟‘‘(صفحہ 11)
اصلاح معاشرہ کے لیے کوئی لگا بندھا اصول نہیں،ہر جگہ کے الگ الگ مسائل ہیں۔ ہمیں ہر علاقے کے لیے الگ الگ پروگرام بنانے کی ضرورت ہے، سعادت صاحب لکھتے ہیں:’’ اصلاح معاشرہ کی حکمت عملی، ایک ایک مقام، شہر یا بستی پر توجہات کو مرکوز کرکے بنائی جائے۔ بستی کے مخصوص حالات پر غور کرکے وہاں کی خرابیوں کی تشخیص، اُن خرابیوں کے اسباب کی تعیین اور اس کے مطابق اصلاح کی حکمت عملی، پھر اس حکمت عملی کو اصلاح کا عمل مکمل ہونے تک صبر و استقلال کے ساتھ روبہ عمل لانا، ہمارے خیال میں اصلاح معاشرہ کے اس اپروچ کی اس وقت ضرورت ہے۔‘‘(صفحہ 15)
کتاب کے دوسرے باب ’’اصلاح معاشرہ اور درپیش رکاوٹیں ‘‘ میں وہ کہتے ہیں کہ اصلاح معاشرہ کے لیے ہمیں ہر برائی کا سبب معلوم کرنے کی ضرورت ہے اور ہر سبب کی اصلاح کے لیے وہ الگ الگ حکمت عملی بتاتے ہیں، سعادت صاحب کے نزدیک معاشرتی خرابیوں کی پانچ وجوہات ہیں، پہلا غلط عقیدےو تصورات ہے۔ اس سلسلے میں وہ غیر مسلموں اور مسلمانوں کے معاشرے کے غلط عقیدے اور تصورات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں اور ساتھ میں ان کے سدباب کے لیے حکمت عملی بھی بھی بتاتے ہیں، ان کے نزدیک دوسری بڑی رکاوٹ معاشرے میں موجود روایات ہے،جو اگرچہ غلط ہوتی ہیں لیکن معاشرہ میں وہ مستحکم ہوئی ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں وہ روایات بننے کی وجوہات بھی بتاتے ہیں اور چند روایات کی نشاندہی اور ان کے خاتمہ کے لئے دور نبوی سے بہترین مثالیں بھی پیش کرتے ہیں، ساتھ ہی ایکٹوزم کی وکالت کرتے ہیں۔ مصنف کے نزدیک معاشرتی برائیوں کے سدباب میں تیسری رکاوٹ عادات ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں وہ ری پروگرام کرنا اور نئ عادتوں کی بار بار مشق کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ وہ پرانی عادتوں کی جگہ لے لے،چوتھی رکاوٹ ان کے نزدیک مفادات ہے۔چاہے مالی مفادات ہوں یا مذہبی ،پانچویں رکاوٹ ان کے نزدیک عملی مشکلات ہے۔جس کو تب تک دور نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ نہ مشکلات پر قابو پایا جائے، اس کی وہ کئی مثالیں بھی دیتے ہیں ،مثلاً کچھ مشکلات شرعی مشکلات ہیں۔ ان مشکلات کا اجتہادی بصیرت کے ساتھ حل ڈھونڈنا ضروری ہے۔ مثلاً بیوی کے لیے خلع حاصل کرنا یا نکاح فسخ کرانا ہمارے ملک کے بیشتر علاقوں میں آج بھی نہایت مشکل بلکہ ناممکن کام ہے۔ یہ مسئلہ خاندانوں میں بہت سی برائیوں کے فروغ کا ذریعہ بنتا ہے۔ جب تک اس عمل کو آسان نہیں بنایا جائے گا، اس سے منسلک سماجی برائیوں پر تقریروں اور اجتماعات کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔(صفحہ 25)۔اسی طرح کچھ مشکلات ادارہ جاتی تعاون چاہتی ہیں اور کچھ مشکلات وہ ہیں، جن کے سدباب کے لیے متبادل ہونا ضروری ہے۔۔۔(مضمون جاری ہے،دوسری قسط میں ملاخطہ فرمائیں)۔۔۔۔
( بارہمولہ کشمیر،مبصر کا واٹس اَپ نمبر۔9906653927)