بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے زیر قیادت بر سر اقتدار پارٹی عوامی لیگ نے آئےندہ پارلیمانی الیکشن کی تیاریاں شروع کر دی ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا قدم حسینہ سرکار نے یہ اٹھایا کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ۲۱۱؍ سرگرم افراد بشمول سابق امیر جماعت مقبول احمد ، نائب امیر جماعت پروفیسر میاں غلام سرور اور جنرل سکریٹری ڈاکٹر شفیق الرحمن کو’ ’حفظ ما تقدم‘ ‘ کے طور گرفتار کر کے پس زندان دھکیل دیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ شیخ حسینہ نے اپنے اقتدار کا غلط استعمال کر تے ہوئے ۲۰۱۴ سے ہی جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے ۔ اس کے باوجود شدتِ خوف سے جماعت کے قائدین اور وابستگان کو گرفتار کرنے کا سلسلہ تادم تحریر جاری ہے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر شیخ حسینہ کی یہ ستم آزمائی نئ چیز نہیں ہے ۔ قبل ازیں بنگلہ دیش کے عوامی رہنما،ممبر پارلیمنٹ ، سابق مرکزی وزیر اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مولانا مطیع الرحمان نظامی کو ڈھاکہ سنٹرل جیل میں صلیب دے کر شہید کیا جا چکا ہے ۔ ملا عبدالقادر ، پروفیسر قمر الزماں ، علی احسن مجاہد کے بعد جام شہادت نوش کرنے والے جماعت اسلامی کے قائدین کے سلسلتہ الذہب کی چوتھی کڑی تھے۔ صف اول کے قائدین کی شہادت کے بعد صف دوم کے رہنماؤں کی گرفتاری غیر متوقع نہیں ہے۔ نشہ ٔ ا قتدار میں مست بنگلہ دیشی شیخ حسینہ سے اسلام پسندوں کے خلاف ان ہی قاتلانہ اقدامات کی توقع ہے کیونکہ وہ اوروں کے اشاروں پر ناچنے کی تاریخ رکھتی ہے ۔بنگلہ دیش کے سیاسی اسٹیج پر گذشتہ چھ برسوں سے جاری خونی ڈرامے کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی طور یر غمال عوام کو حقا ئق کا پتہ نہ چلے اس کے لئے اس ڈاین نے ملک کے مین اسٹریم میڈیا کو شیخ حسینہ کی جانب سے احکامات جاری کر دئے گئے ہیں کہ دنیا کو ان تلخ حقائق سے بے خبر رکھو ۔ برصغیر کا میڈیا (بسا اوقات اردو میڈیا بھی) شاید ان حقائق کا بلیک آوٹ کر رہاہے یا ان سے نا واقف رہنا چاہتا ہے ۔ ممکن ہے زعفرانی میڈیا اپنی خاص انسان بیزار پالیسی کے تحت دانستہ طور پر جانبداری کا مظاہرہ کر رہا ہو ۔ میڈیا کا اس قسم کا غیر پیشہ ورانہ رویہ کسی بھی مسئلے پر عوام کو منصفانہ موقف اختیار کرنے سے محروم کر دیتا ہے۔
بنگلہ دیش کا موجودہ خون خوارانہ ڈرامہ شیخ حسینہ کی جانب سے ۲۰۱۰ء میں اس پالیمانی انتخاب کے لیے رچایا گیا تھا جو جنوری ۲۰۱۴ میں عمل میں آیا ۔شیخ حسینہ کی قیادت میں بنگلہ دیش کی اس وقت کی عوامی لیگ کی حکومت گوناگوں حکومتی محاذ پر بری طرح ناکام ہوچکی تھی ۔ملک سنگین اقتصادی و سیاسی بحران کا شکار تھا۔ عوام پر یہ واضح ہوچکا تھا کہ عوامی لیگ کی حکومت انتہائی بدعنوان اور کرپٹ حکومت ہے ۔ معاشی ابتری کے سبب آسمان کو چھوتی مہنگائی ، پیٹ کاٹتی غربت اور مستقبل کو تاریک کر دینے والی بے روزگاری نے بنگلہ قوم کی کمر توڑ دی تھی ۔ ایک طرف شیخ حسینہ کی یہ سیاسی ناکامیاں تھیں ، دوسری جانب جماعت اسلامی بنگلہ دیش اپنے سابقہ سیاسی ریکارڑ کی بنیاد پر ایک بڑے سیاسی متبادل کے طور پر اُبھرنے لگی تھی۔ جماعت اسلامی ملک میں عوامی لیگ کی حکومت سے پہلے خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی(بی این پی)کے ساتھ سیاسی گٹھ جوڑ سے بر سر اقتدار رہ چکی تھی ۔ جماعت کے صف اول کے قائدین خالدہ حکومت میں مختلف اہم وزارتوں اور عہدوں پر فائز تھے ۔شہید مولانا مطیع الرحمٰن نظامی وزارت زراعت اور صنعت کے عہدوں پر فائز تھے ۔ اُس وقت جماعت کے وزرآنے صاف شفاف کارکردگی کے ذریعے تعلیم اور زراعت کے محاذوں پر زمینی سطح پر کام کرتے ہوئے غیر معمولی انقلاب برپا کیا تھا۔ اس بنا پر جماعت کو بے پناہ عوامی مقبولیت اور حمایت حاصل ہو گئی تھی ۔ جماعت کی اس بڑھتی مقبولیت کے سبب جنوری ۲۰۱۴ء کے قومی انتخابی میں شیخ حسینہ کی سیاسی ہزیمت تقریباً طے تھی ۔ اس نے خطرے کی گھنٹی بجتے ہی کوششیں شروع کیں کہ جماعت کو خالدہ سے کاٹ کراپنا سیاسی اتحاد ی بنائے لیکن جماعت نے اس دل بدلی سے صاف انکار کیا تو حسینہ نے انتقاماً ۲۰۱۰ ء میں نام نہاد انٹرنیشنل وار ٹریبونل قائم کر دیا ۔ اس کے قیام کا مقاصد سیاسی تھے، اس لئے بنگال کی ڈائن نے اسے کسی عدالتی معیار اور قانونی ساکھ سے مکمل طور مستثنیٰ کر کے اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف ایک آلہ ٔکار بنایا۔ ٹریبونل بنتے ہی آناً فاناًجماعت اسلامی بنگلہ دیش کے صف اول کے رہنماؤں اور بی این پی کے چند اہم لیڈران کی گرفتاریاں عمل میں لائیں۔حسینہ نے جماعت کے لیڈران پر یہ الزام لگایاکہ جماعت بقول اس کے غدار وطن ہے کیونکہ اس نے ۱۹۷۱ ء میں سقوط ڈھاکہ اور قیام بنگلہ دیش کی مخالفت کی تھی ۔ اس الزام کے ردعمل میں جماعت کے امیر مولانا مطیع الرحمٰن نظامی کی وضاحتیں دیں مگر حسینہ ٹس سے مس ہوئیں۔ مولانا شہید نے ایک بنگلہ اخبار کو انٹرویو دیتے ئے کہا تھا کہ ’’ جب ہم نے پاکستان کی حمایت کی تھی تب بنگلہ دیش وجود پذیر نہیں ہوا تھا ۔پاکستان ہم سب کا وطن تھااور یہ حب الوطنی کا تقاضا تھا کہ ہم تقسیم وطن کی مخالفت کریں لیکن جب بنگلہ دیش وجود میں آہی گیا تب ہم نے اپنی ساری وفاداریاں فطری طوربنگلہ دیش کے لئے خاص کردیں‘‘۔ جماعت کے سبھی قائدین پر جھوٹے الزامات عائد کر کے غداری کے مقدمات دائر کئے گئے کہ انہوں نے تقسیم ِپاکستان کے وقت دو طرفہ جنگ میں تین ملین بنگلہ دیشیوں کا قتل عام ، ہزاروں خواتین کی آبرو ریزی اور کروڑوں کی املاک کو برباد کیا تھا۔ ایک عام شخص جو جماعت اسلامی کی فکر ، اس کی دعوت، اس کی تاریخ اور اس کے مزاج سے واقف ہو جماعت کا کٹر مخالف ہونے کے باوجود ضمیر کو گواہ کر کے یہ شہادت دے گا کہ کم از کم جماعت اسلامی پر اس قسم کے گھناؤنے مقدمات بے بنیاد ہیں۔بہر حال جعلی مقدمات کی بنیاد پر خانہ زاد وار ٹریبونل نے انصاف اور انصاف کی دھجیاں اڑاتے ہوئے عدالتی قتل کے فتوے جاری کر دئے ۔
اس نام نہاد ٹریبونل کی دنیا بھر میں مذمت ہوئی ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسے حقوق انسانی کے کئی مستند عالمی اداروںنے انٹرنیشنل وار ٹریبونل کو انصاف کے عالمی ضابطوں کی صریح خلاف ورزی قرار دے کر اس کے وجود کی نفی کردی ۔ بنگلہ دیش کے کئ اہم اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ بنگلہ دیش میں شہری اور سیاسی حقوق بری طرح پامال کئے جا ر ہے ہی،سیاسی کارکنوں کو بڑے پیمانے پر قید و بند اور ہلاکتوں کا نشانہ بنایا جا رہاہے ۔ان خبروں سے دو باتیں عیاں ہوئیں: ایک یہ کہ اپنے مذموم منصوبے کو عملانے کے ضمن میں حسینہ حکومت کی جانب سے جماعت اسلامی پر جھوٹے مقدمات سیاسی دباؤکا آمرانہ حربہ ہے ، دوسرا یہ کہ بنگلہ دیش ایک نئے داخلی بحران کا شکار ہے جس کے اثرات سال ہا سال اس ملک کی معیشت و معاشرت پر پڑیں گے ۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے عوامی لیڈران کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد شیخ حسینہ ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی الیکشن کا ڈرامہ رچایا ۔ انتخاب سے عین قبل حکومت نے جماعت اسلامی اور خالدہ ضیا کی بی این پی کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی عائید کر دی گئی اور انہیں انتخابات میں حصہ لینے کے جمہوری حق سے بھی محروم کر دیا گیا ۔ ملک کی اکثریت نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا ۔چناںچہ پارلیمانی انتخابات میں محض ۱۰ فیصد پولنگ ہوئی ۔یوں شیخ حسینہ نے خود کو دوبارہ بنگلہ عوام کے سر وں پر مسلط کیا ۔ اب جب کہ حکومت کی پانچ سالہ میعاد مکمل ہونے کو ہے ، اوچھے سیاسی اغراض کے لئے دوبارہ جماعت اسلامی پر شکنجہ کسنے کی مہم شروع کی جا چکی ہے۔
اس وقت ایشو یہ نہیں ہے کہ ۱۹۷۱ میں پاکستان کیوں تقسیم ہوا،کس نے کس کی حمایت کی ، کس نے کس کی مخالفت کی ،بلکہ اصل ایشو یہ ہے کہ چار دہائیاں گزر نے کے بعد گڑھے مردے اکھاڑ تے ہوئے جھوٹے مقدمات کا ڈرامہ از سر نو کیوں رچا جارہا ہے؟ عدل و انصاف اور ملکی و عالمی قانون کو پامال کرتے ہوئے مقتدر سیاسی شخصیات کو میدان سے ہٹانے ، خاص کر جماعت اسلامی کو سیاسی وڑ سے خارج کرنے کا گھناؤنا کھیل بڑی بے مروتی کے ساتھ کھیلا جارہا ہے ؟ واضح رہے کہ یہ معاملہ جماعت اسلامی کی حمایت یا مخالفت کا نہیں بلکہ انسانی حقوق کی پامالیوں ، بے قصوروں کے عدالتی قتل ، قید و بندکی صعوبتوں کی بھرمار ملک میں کسی سیاسی تبدیلی کو سبوتاژ کرنے کی منصوبہ بند سازش ہے جس کی پشت پر عالمی اور علاقائی سیاست کے مسلم دشمن کھلاڑی ہے ۔
بہرحال شیخ حسینہ بنگلہ دیش میں اپنی فرعونی سوچ کے ہاتھوں یرغمال ہوکر در اصل اپنی سیاسی متواتر تیار کرتی جارہی ہے اور ظلم و جبر کا یہ سلسلہ چند روزہ ہے اور باوجودیکہ شیخ حسینہ اس ٹھوس حقیقت سے ناواقف بھی ہو مگر اس ظلم وبر بریت کے نتیجے میں جماعت اسلامی کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہی ہورہا ہے ۔ وہ دن ضرور طلوع ہوکر رہے گا جب بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت اسلام پسندوں کے پاک خون میں غرق ہو جا ئے گی اور پھر اس کے انجام بدپر نہ آسمان روئے گا نہ زمین اشک بار ہوگا ۔
رابطہ [email protected]