رشید پروین ؔ
۱۳ جون ۲۰۲۵،جمعہ کی صبح کو اچانک اور ناگہانی طور پر اسرائیل نے ایران پر بہت بڑا حملہ کرکے پہلے ہی حملے میں ایران کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل حسین باقری ، پاسدارانِ انقلاب کے چیف جنرل سلامی کے علاوہ ۶ سائینٹس کو شہید کیا اور اس کے ساتھ ہی ایران کی جوہری تنصیبات کو شدید نقصان سے دو چار کیا ،اتنا ہی نہیں بلکہ شہری علاقوں پر بمباری اور میزائیل داغنے سے در جنوں افراد اور بچے شہید کر دئے گئے ہیں جن کی ابھی تک صحیح تعداد معلوم نہیں۔ایسا کہا جاتا ہے کہ اس حملے کی تیاری اور منصوبہ بندی اسرائیل پچھلے دو سال سے کر رہا تھا ، بڑا منظم اور پوری احتیاط کے ساتھ اس کی پلاننگ ہوئی تھی اور سب سے بڑی بات کہ اسرائیل نے ماضی قریب میں سینکڑوں اہم سائنسدانوں ، یہاں تک کہ صدر ایران کو بھی اس طرح اپنے منصوبوں کے تحت شہید کیا تھا ، لیکن ایران ایک معمولی کاروائی کرکے خاموش ہوتا رہا کیونکہ وہ جانتا ہے اور اس سے اپنی مادی اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے اپنی کمزوری کا نہ صرف اندازہ ہے بلکہ پورا ادراک ہے ، اس کی سرحدیں اسرائیل کے ساتھ نہیں ملتیں اور گراونڈ لیول پر ایران اسرائیل کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر سکتا اور یہ کس سے معلوم نہیں کہ اسرائیل کو اسوقت ائیر ٹیکنالوجی میں امریکی اور یورپی ممالک کے تعاون سے زبردست سپر میسی حا صل ہے اور عرب یا مسلم دنیا میں اسوقت اس کے ہم پلہ کوئی نہیں۔دوئم یہ کہ عرب ممالک اور مسلم دنیا کے سر براہاں کب کے مرچکے ہیں اور محض زمین پر ان کی لاشیں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ ان کے ضمیر اور روح اسرائیلی خوف اور امریکی ڈر سے ان کے جسموں سے کب کے خارج ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی حملہ جس انداز اور جس وقت ہوا ہے یہ حیرت انگیز اور غیر متوقع حملہ نہیں تھا کیونکہ وہ پہلے کئی ہفتوں سے اس بات کا عندیہ دے رہے تھا کہ ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی اور اس کے لئے عراق کی طرح ہی نیو کلیئر کا بہانہ بنایا گیا ،لیکن اصل بات یہ پیدا ہوتی ہے کہ ایران کی انٹیلی جنس کہاں سوئی ہوئی تھی ، یا ایران کی انٹیلی جنس اور دوسرے اداروں کو اس بات کی خبر کیوں نہیں ہوئی؟ یا جیسا کہ شبہ ظاہر کیا جا رہا کہ اسرائیلی موساد نے بڑی تعداد میں ایرانی آفیسران کو کورپٹ کیا ہوا ہے جو اس سے پل پل کی خبریں پہنچا رہے ہیں ،یہ بات ہم ان انکشافات کے پس منظر میں لکھ رہے جو اب سامنے آرہی ہیں کہ موساد نے ایران مخالف کاروائیاں ایرانی سر زمین سے بھی کی ہیں اور بہت کچھ اسی سر زمین سے کیا جاچکا ہے، جس کے لئے ایران کے ہی اپنے لوگ موساد کے ایجنٹوں کے طور پر انگیج ہیں ۔موساد کا زبردست نیٹ ورک یہاں موجود ہے جس کی مدد سے اسرائیل اپنے اہداف سے یہاں باخبر رہتا ہے اوربقول ٹرمپ ’’ہمیں معلوم ہے کہ ایرانی قیادت کہاں چھپی ہے ‘‘۔ دو ہی نتائج اخذ ہو جاتے ہیں یا ایران کی سر کار بڑی حد تک غفلت شعار ہے اور ان کی اپنی ایجنسیاں با لکل ناکارہ اور بودی ہیں یا ان میں اسرائیلی جارحیت اور یہ میزائل حملے روکنے کے وسائل اور ٹیکنالوجی نہیں۔ دوسری وجہ ہی زیادہ قرین قیاس لگتی ہے کیونکہ اسرائیلی قوم کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ آخری دور میں یہ تقریباً ناقابل تسخیر ہوگی اور ہم دیکھ رہے کہ واقعی اسرائیل اس وقت جنگی ٹیکنالوجی اور ائر سپر میسی میں کم سے کم مسلم دنیا کے لئے ناقابل تسخیر بن چکا ہے۔یہ حملہ اور یہ جنگ اسرائیل نے اس نازک موقعے پر چھیڑ دی ہے جب امریکہ اور ایران کے ، ایرانی نیو کلیئر پر مذاکرات چل رہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ ایران اور امریکہ کسی خاص نتیجے پر پہنچنے ہی والے ہیں ۔ اسرائیل کا فوری طور یہ جنگ چھیڑنے کا یہ بھی ایک واضح مقصد رہا ہوگا کہ ان مذاکرات کو سبو تاژ کیا جائے تاکہ کسی امن معاہدے کی کوئی گنجایش ہی باقی نہ رہ جائے۔ لیکن امریکہ کی منشا اور گرین سگنل کے بغیر یہ بھی ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔اس کی تصدیق اس بات سے واضح طور ہوجاتی ہے کہ امریکی سرکار نے اپنے تمام مشرقِ وسطیٰ کے سفارتکاروں کو ٹریول ایڈوائزری دو ر روز پہلے ہی جاری کر دی تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ نے گرین سگنل دیا تھا ۔ہمیں ٹرمپ سے اس ساری دنیا کے لئے کسی خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔جب تک وہ اقتدار میں ہے یہ ریاست کچھ بھی کرسکتی ہے اور کہیں بھی جنگ چھیڑ سکتی ہے اور سای دنیا کو تیسری عالمگیر جنگ میں بڑی آسانی سے جھونک سکتی ہے، کیونکہ ٹرمپ کی زندگی کا مطالعہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ وہ غیر یقینی ، انتشاری اور اضطرابی شخصیت کے مالک ہیں۔ ہمیں حقائق کا ادراک کر لینا چاہئے اور وقت اور حالات کا تجزیہ کر لینا چاہئے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارے لئے بہتر راستے کیا ہوسکتے ہیں۔ اگر چہ ’’ہونی کو ہر بہانے سے ہونا ہی ہوتا ہے‘‘ اوپر ہم نے اسلامی دنیا یا زیادہ کہنا یہ مناسب ہوگا کہ نام نہاد اسلامی ممالک کی بے ضمیری اور بے حسی کا تذکرہ کیا ہےجو ایک ایسا اسلامی نظامی چاہتی ہیں جو ان کی مرضی اور منشا کے مطابق ان کے نجی اور ذاتی مفادات کی نگہبانی میں حائل ہی نہ ہو۔ اسی لئے ان عرب ممالک نے اخوان المسلمون کو مصر میں نیست و نابود کرنے میں السیسی کا بھر پور تعاون کیا ، یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ حماس اور حز ب اللہ کے مخالف ہیںاور غزہ کے لاکھوں افراد کی شہادت کے بعد بھی ٹس سے مس نہیں ہوئے اور نہ کبھی کھل کر غزہ کی حمایت میں سامنے آئے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عرب سربراہاں اسرائیل کو قبول کرنے پر تیار ہو ئے ہیں اور اس سے باقی مسلم دنیا سے بھی قبول کروانے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں ۔ہم اس دور میں رہ رہے ہیںجس میں یہود اپنی دو ہزار سالہ جلا وطنی ختم کرکے ارض مقدس پر قابض ہوچکے ہیں اور یہ جلا وطنی اللہ تعالیٰ نے بطور سزا اُن کا مقدر کی تھی ،’’ جس بستی کے لوگوں کو ہم نے ہلاک کیا تھا، اُن پرہم نے حرام کیا تھا کہ وہ وہاں جا سکیں ،حتیٰ کہ یاجوج ماجوج کھل جائیں اور وہ تمام بلندیو ں سے اترتے نظر آئیں گے۔‘‘( سورۃالانبیا ۶،۹۵) ۔ظاہر ہے کہ یاجوج اور ماجوج ہی ایک نئی دنیا کا نظام تشکیل دیں گے جو اس وقت ہورہا ہے اور ان کے بہترین سنہری دور کی واپسی ابھی باقی ہے اور اس کے لئے یہودیوں کے لئے ضروری ہے کہ ارض مقدس غیر یہودیوں سے چھڑالی جائے ۔ دوئم یہ کہ یہودی اپنی جلاوطنی سے ارض مقدس لوٹ آئیں۔ سوئم یہ کہ اسرائیلی ریاست بحال ہوجائے اور چہارم یہ کہ ہیکل سلیمانی پھر سے تعمیر ہو جائے ۔ اب صرف ہیکل سلیمانی کی تعمیر ہی باقی رہ گئی ہے ۔یہ قوم کبھی راست رو نہ رہی ہے اور نہ آگے مستقبل میں راست روی اختیار کرے گی اور اپنی اَنّا اور خود پسندی کے خول میں پہلے بھی ہزاروں برس مقید رہی ہے اور اب آخری دن تک اسی بھرم میں مبتلا رہے گی کہ وہ اللہ کی برگذیدہ اور معتبر قوم ہے ، چاہئے ان کے اعمال اور طرز معاشرت دین ابراہیمی کے مخالف اور متضاد ہی کیوں نہ ہو۔ ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوجاتا ہے کہ اللہ نے ان کے قلوب ، دل و دماغ پر مہر ثبت کی ہے اور ان کی دیکھا دیکھی ان مسلم ممالک کی بصیرت اور بصارت بھی مقفل ہوچکی ہے جو ان کے ساتھ معاہدات کرکے شتر مرغ کی طرح اپنا سر چھپاتے ہیں تا کہ وہ بھی اس معتوب اور خود سر قوم کے ساتھ ہی اپنے انجام کو پہنچیں اور وہ انجام احادیث مبارکہ کی رو سے ان کی’ ’فنا ‘‘ کے سوا کچھ نہیں،جس کے لئے یہ قوم خود ہی بڑی تیز رفتاری کے ساتھ سٹیج سیٹ کر رہی ہے ۔