بلا شبہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہےاور اسلامی تعلیمات میںگھریلو زندگی کو سجانے و سنوارنے اور معاشرے کو بہتر بنانے کے تمام اصول و ضوابط بھی فراہم کئے گئےہیں،لیکن اس کے باوجود ہمارے موجودہ معاشرے میںرشتوں میں کڑواہٹ ،آپسی تنازعات ،دھوکہ دہی، امانت میں خیانت عام سی بات ہوگئی ہے،خلع اور طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے، گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے، یہاں تک کہ والدین کو جوتے مارے جارہے ہیںاور ماں کی ممتااور باپ کی شفقت کو تھپڑ پڑ رہے ہیں۔جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہےکہ ہمارا معاشرے نے اپنے مذہبی احکامات و تہذیبی اقدار سے منہ موڑ کر اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیا ہے اورمحض مفاد پرستی،خود غرضی اور موقع پرستی کو اپنالیا ہے۔جس کے نتیجے میں نا انصافی ،غیر مساویانہ تقسیم اور کئی سماجی بُرائیوں و خرابیوںنے جنم لیا ہے،اخلاقی گراوٹ فروغ پارہی ہے اور جرائم کی رفتار تیز ہو رہی ہے۔اگر ہم اخلاقی گراوٹ کے اسباب پر نظر ڈالیں تو یہ دیکھ کر تعجب ہورہا ہے کہ معاشرے میں پڑھے لکھے افراد بھی بے انصاف ، بے درد، بد دیانت ، سنگ دل ، رشوت خور، کام چور، دولت کے غلام ، انسانیت کے دشمن اور خود غرض ہوگئے ہیںجو امن وسکون کی زندگی کے بجائے بدنظمی ،خود سری اور بد خوئی کے رسیا بن چکے ہیںاور انسانیت کی خدمت کرنے کے بجائے دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔اگرچہ ہر دور میںقوم یا معاشرے کو ہر قسم کی بُرائیوں اور خرابیوں سے صاف وپاک رکھنے کی ذمہ داری تعلیم یافتہ لوگوں کے سر رہی ہے، تاہم تعلیم یافتہ افراد کا باصلاحیت ، نیک سیرت ، خوش اخلاق ، فرض شناس اور باکردار ہونا انتہائی اہم ہوتا ہے۔لیکن ہمارے معاشرےکے پڑھے لکھے لوگوں کا ایک خاصا حصہ بداخلاقی کی پستی میں جاگرا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات اور اس کی تمام چیزیں انسانوں کی سہولت اور ان کی ضرویات کی خاطر پیدا کی ہیںمگر انسان خود اپنے خالق ومالک کی مرضی کو بھول کر وہ تمام کام کرتاچلا جارہا ہے جو نہ صرف اللہ کی رضا کے خلاف ہے بلکہ انسانیت کیلئے بھی نقصاندہ ہے۔ آج کا انسان مادہ پرست ہوگیا ۔ مادہ پرستی وہ مہلک مرض ہے جو انسانی اخلاق وکردار اور سماج کو متاثر کرتا ہے۔اللہ نے انسان ہی کو اشرف المخلوقات کا اعزاز بخشا ہے،اُسے بہترین دل ودماغ عطا کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایسی ایسی ایجادات عمل میں لائی گئیںجن کا تصور بھی نہ تھا۔ زمانہ قدیم سے آج تک جتنی بھی ایجادات ہوئی ہیںوہ اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ انسان نے اپنے ذہنی شعور سے ہی چاند تک رسائی حاصل کی ہے۔ لیکن یہی انسان آج مادہ پرستی کی گہری دلدل میں ڈوب گیاہے اور اسی مادہ پرستی نے انسان کے اخلاق کوبُری طرح متاثر کیا ہے، جس سے معاشرہ فساد وبگاڑ کی آماجگاہ بن گیا ہے۔حق بات تو یہ ہے کہ انسان اپنے اخلاق وکردار سے پہنچانا جاتا ہے، اچھا اخلاق اسے انسانیت کے اعلیٰ مقام پر پہنچاتا ہے جبکہ بُرے اور گندے خصائل اُسے ذلیل ورُسوا کرکے پستی میں ڈال دیتے ہیں۔ اس لئے ان تمام چیزوں پر ہمیں غورو فکر کرنا چاہئے۔اپنے اخلاق وکردار کو سنوار کر اور دوسروں کے حقوق ادا کرکے ہی ہمیں امن وسکون اور راحت وآرام حاصل ہوسکتا ہے۔خصوصاً ہمیں اپنے معاشرے کے اُس مروجہ نظام کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے،جس میں ہم نے اخلاقیات سے کنارہ کشی کرلی ہے، جس کے نتیجے میں بُرائیاں اور خرابیاںپھل پھول رہی ہیں،بچوں میں اخلاقی بگاڑ پروان چڑھ رہا ہےاوررقص و سرور کی محفلیں سج رہی ہیں۔گویاہم شناختی اور قانونی مسلمان تو ہیں لیکن سیرتاً و صورتاً ہمارا کردار بعثت سے پہلے والے معاشرے کی عکاسی کر رہا ہے۔تعلیمی ادارے غیر شرعی تعلقات کے اڈے اور تجارتی مراکز بے حیائی کے مراکز بن چکے ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جہاںاہل البیت و صحابہ کو اپنا قدوہ ماننے والے اسلامی معاشرے کی ترجمانی کرنے میں ناکام ہورہے ہیںوہیں سید الاولین والآخرین سے نسبت رکھنے والے جدید دور کے مسلمان ہی اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہم قولاً و فعلاً سرورکائنات کے باغی بن چکے ہیں۔یادرکھیں کہ نام سے نہیں، اچھے کام سے ایک مسلمان مکمل مسلمان کہلاتا ہے۔