کوثر عروبہ
اختلاف انسانی صلاحیتوں میں سے ایک ایسی خدادا صلاحیت ہے جو غور و فکر کی نئی راہیں ہموار کرتی ہے۔دماغ کو تدبر کے نئے اسلوب اور زاویوں سے روشناس کرواتی ہے۔مدلل اختلاف جدت اور ترقی کا دوسرا نام ہے کیونکہ اگر تمام انسان ایک ہی نقطے پر متفق ہو جائیں تو ارتقاء کا عمل رک جائے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اس کائنات میں بھیجا۔اسے شعور کی نعمت عطا کر کے باقی تمام مخلوقات پر فضیلت دی۔اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو الگ الگ سوچ اور الگ الگ دماغی صلاحیتوں کے ساتھ اس دنیا میں بھیجااور ان صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنی بنائی ہوئی کائنات میں غور و فکر کی دعوت دی اور فرمایا:بیشک اس میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں(القرآن۔مفہوم)
لیکن ان نشانیوں کو واضح طور پر بیان نہیں کیا۔گو کہ اپنے بندے کو اختیار دیا کہ وہ جائے اس کائنات میں غور کرے اور اپنے علم و عقل سے ان کو ڈھونڈ لے۔ ہر بنی نوع آدم کو اس کی صلاحیتوں کے مطابق اپنی نشانیوں کی تلاش اور نشان دہی میں دوسرے انسانوں سے اختلاف کا حق دیا۔ انسانی طرز تفکر میں تنوع اور اختراع اختلاف رائے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔گویا رب تعالیٰ نے اپنے بندے کو باقی حقوق کے ساتھ ساتھ اختلاف رائے کا حق بھی تقویض کر کے اس دنیا میں بھیجا ہے۔
لیکن بد قسمتی سے ہم بحیثیت انسان ایک دوسرے کو یہ حق دینے کو تیار نہیں ہیں۔ہمارے معاشرے میں اختلاف جیسی خوبصورت روش کو بغاوت اور گستاخی کا نام دے کر اختلاف رکھنے والے فرد سے جینے کا حق تک چھیننے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ ہم بحیثیت معاشرہ اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ ہم اور ہمارے نظریات سو فیصد درست ہیں جبکہ ان نظریات سے اختلاف رکھنے والے تمام لوگ کم عقل اور لا علم ہیں۔کیونکہ ہمارا معاشرہ جس نظام کی پیداوار ہے اس کے نصاب میں کہیں بھی برداشت اور رواداری کے اسباق موجود نہیں ہیں۔کہیں پر بھی ہمیں احترام رائے اور اختلاف رائے کے حق کے بارے میں تربیت نہیں دی گئی۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اختلاف رائے کی بنیاد پہ شاگرد اساتذہ کو قتل کرنے لگے، دانشوروں کے قلم پہ قد غنیں لگیں اور ہر مختلف شخص کو اظہارِ رائے کی صورت میں اپنی جان خطرے میں نظر آنے لگی۔
ہم بحیثیت معاشرہ اس قدر تنگ نظر ہو چکے ہیں کہ کسی مجلس میں گفتگو کے دوران اگر کوئی شخص ہم سے اختلاف کرتا ہے تو وہ ہمیں اپنا دشمن لگنے لگتا ہے۔اور جب ہمارے پاس اس کے اختلافات کے جواب میں کوئی مدلل جواب نہیں ہوتا تو ہم اس کی دلیل ماننے کی بجائے اس کی ذات پر بات شروع کر دیتے ہیں۔جس کی بنیادی وجہ اس تربیت کی کمی ہے جو ہمیں مدلل اختلاف کو بخوشی قبول کرنے کے حوالے سے دی جانی چاہیے۔لیکن بدقسمتی سے عالم کُل اور عقل کُل ہونے کے خناس نے ہمیں سوچنے،سمجھنے اور برداشت کرنے کی صلاحیتوں سے بالکل محروم کر دیا ہے اور ہم لوگ بحیثیت معاشرہ صم بکم عمی کی جیتی جاگتی مثال بن چکے ہیں۔
دین اسلام جس کا خاصہ ہی برداشت اور رواداری ہے۔ہم اس کے پیروکار ہوتے ہوئے بھی اپنے مذہبی معاملات میں بھی شدید عدم برداشت انتہاء پسندی کا شکار ہیں۔
اختلاف جو ہمارے دین کا حسن ہے ،ہم نے اس کو مسخ کر کے تفرقے کا روپ دے دیا ہے۔اختلاف رائے تو صحابہ اکرامؓ کے زمانے میں بھی موجود تھی لیکن انھوں اس اختلاف کے حسن کو ہمیشہ برقرار رکھا اور کبھی بھی برداشت اور رواداری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔کسی صحابی رسولؐ نے کبھی کسی اختلاف کی بنیاد پر نہ کوئی الگ فرقہ بنایا نہ دوسرے اصحاب سے بغض و عناد رکھا بلکہ ہر ایک نے علم و تحقیق کے ذریعے صحیح بات تک پہنچنے کی کوشش کی۔
اسی طرح صحابہ اکرامؓ کے بعد بہت سے تابعین اور ائمہ گزرے جو علم اور دلیل کی بنیاد پر ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے تھے لیکن یہ اختلاف کبھی بھی دائرہ اخلاق سے باہر نہیں گیا۔ لیکن آج کے اسلامی معاشرے میں کہیں پر بھی رواداری اور برداشت جیسی اسلامی قدریں نظر نہیں آتیں۔ آج ہر اختلاف پر ایک فرقہ موجود ہے۔جس کے لئے صرف اور صرف اپنا نظریہ اور اپنی رائے اہم ہے۔ہر فرقے کے مطابق ان سے اختلاف کرنے والا ہر شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے۔تعصب اور تفرقے کا یہ عالم ہے کہ ہر فرقے نے اپنے اپنے فرقے کے نام پر الگ مسجد بنا رکھی ہے۔ غرض یہ کہ تفرقے کی اس جنگ میں ہم نے اللہ کے گھر کو بھی تعصب کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا اور تو اور اس تفرقے اور عدم برداشت کا زہر ہمارے اندر اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے سلام کا جواب تک دینا گوارہ نہیں کرتے۔بلکہ اللہ کے گھر کو اپنے فرقوں کا گھر بنا کر اسلام کی بجائے اپنے فرقوں کی تبلیغ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جس سے تفرقہ کو ہوا ملتی ہے۔جس سب کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے مذہبی اور فکری اختلافات کو ذاتی اختلافات میں تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے۔کوئی بھی شخص اگر ہمارے کسی نظریے سے اختلاف کرتا ہے تو ہمیں لگتا کہ وہ ہماری ذات سے اختلاف کر رہا ہے۔ہم اس شخص کی بات پر ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کی بجائے اس اختلاف کو اپنی ذات کی توہین محسوس کرتے ہوئے اس توہین کا بدلہ لینے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور یہی سوچ اس انتہاء پسندی کی بنیاد بنتی ہے جو معاشرے تباہ کر دیتی ہے۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ بند دماغوں پر علم کو خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی بوجھ کی طرح لادنے کی بجائے انھیں کھولا جائے اور ان کی تربیت اس طرح سے کی جائے کہ انھیں اس بات کا احساس ہو کہ ان کے ارگرد بسنے والے لوگ ان سے مختلف سوچ اور رائے رکھتے ہیں اور وہ یہ رائے رکھنے میں حق بجانب ہیں۔ اور اس رائے کا احترام ہم سب کا دینی اور معاشرتی فرض ہے۔