کڑاکے کی ٹھنڈ میںمسلسل غیر اعلانیہ کٹوتی سے صارفین کا جینا دوبھر
مکیت اکملی
سرینگر// بجلی کی خریداری سے متعلق حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود وادی کشمیر مسلسل بجلی کی کٹوتیوں کی لپیٹ میں ہے، جس سے لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہے اور معاشی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔کشمیر پاور ڈسٹری بیوشن کارپوریشن لمیٹڈ (کے پی ڈی سی ایل) نے بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ہے، جس میں چوری میں مصروف صارفین کو نشانہ بنایا گیا ہے تاہم غیر اعلانیہ بجلی کی کٹوتی میٹر اور غیر میٹریافتہ علاقوں میں کشمیریوں کو پریشان کر رہی ہے۔کے پی ڈی سی ایل کے عہدیداروں نے انکشاف کیا کہ کشمیر میں بجلی کی سب سے زیادہ طلب 2000 میگاواٹ سے بڑھ گئی ہے، جب کہ 19 گھنٹے کے لیے مختص کردہ بجلی 1400 میگاواٹ پر برقرار ہے، شام کو پانچ گھنٹے کیلئے بڑھ کر 1600 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔کے پی ڈی سی ایل کے ایک سینئر عہدیدارنے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے اس کمی کو تسلیم کرتے ہوئے کہا’’پچھلے ماہ بجلی کی سپلائی میں اضافے کے باوجودہم 2000 میگاواٹ سے زیادہ کی طلب کو پورا کرنے میں ناکام ہیں۔ طلب اور رسد میں کمی لوڈ شیڈنگ کا باعث بنی جس کے نتیجے میں غیر اعلانیہ بجلی کی کٹوتی ہورہی ہے‘‘۔
کے پی ڈی سی ایل کا کٹائی کا شیڈول شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں میٹر والے علاقوں کے لیے 4.5 سے 6 گھنٹے تک بجلی کی کٹوتی کی اجازت دیتا ہے جبکہ غیر میٹریافتہ علاقوں کو پوری وادی میں آٹھ گھنٹے کی بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تاہم مقامی لوگوں کے مطابق اس سرکاری کٹوتی کے شیڈول پر بالکل ہی عمل نہیں ہورہا ہے۔لوگ بجلی کی جاری کٹوتیوں پر سیخ پا ہیں۔صنعت نگر سرینگرسے تعلق رکھنے والے شبیر احمد نے بتا’’اضافی بجلی کی خریداری کے اعلانات کے باوجودہمیں گھنٹوں بجلی کی غیراعلانیہ کٹوتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے روزمرہ کے کاموں میں خلل پڑتا ہے اور ذہنی اذیت ہوتی ہے‘‘۔ دیہی علاقوں میں بجلی کی صورتحال شہری علاقوں سے بھی بدتر ہے۔ پٹن علاقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان فردوس حمید نے افسوس کا اظہار کیا کہ ان کے علاقے (پٹن) میں موسم سرما کے آغاز کے بعد سے بجلی کا منظرنامہ بہتر نہیں ہوا۔کشمیر میں بار بار اور طویل بجلی کی بندش سانس کی بیماریوں میں مبتلا لوگوں اور آکسیجن کی سہولت پر رہنے والوں کے لیے مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔بجلی کی بغیر کسی رکاوٹ کی فراہمی کی عدم موجودگی میں مریض یا تو جنریٹر یاپھر آکسیجن کنسنٹریٹر استعمال کرنے پر مجبور ہیں، جس کے نتیجے میں علاج کے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔نیل بل کے ایک رہائشی وسیم احمد نے کہا’’ایک 15 لیٹر کے آکسیجن سلنڈر کی قیمت 250 سے 300 روپے کے درمیان ہے اور یہ تقریباً تین گھنٹے تک چلتا ہے‘‘۔کے پی ڈی سی ایل کے ایک سینئرعہدیدار نے بجلی چوری کے خلاف اپنی کوششوں پر زور دیتے ہوئے انکشاف کیا’’ہر روز ہم بجلی چوری میں ملوث سینکڑوں صارفین کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔ ہمارے 70 فیصد صارفین میٹر کے بغیر ہیں، جن کا لوڈ ان کی طے شدہ صلاحیت سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سےبجلی کے نقصانات اور محصولات کے خسارہ بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے‘‘۔حاصل کردہ سرکاری اعداد و شمار صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔اعدادوشمارکے مطابق کشمیر پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ (کے پی ڈی سی ایل) کے ذریعہ 2171 میگاواٹ پر طے شدہ متفقہ لوڈ، مارچ 2021 میں 1911 میگاواٹ سے بڑھ کر 2022 میں 2045 میگاواٹ تک پہنچ گیا ہے اور2023میں 2171 میگاواٹ کا موجودہ لوڈ ہے۔اس کے بالکل برعکس وادی میں بجلی کی تقسیم طے شدہ لوڈ سے بہت نیچے گر گئی ہے، جو گزشتہ چند ہفتوں میں محض 1400 سے 1600 میگاواٹ کے درمیان رہی ہے۔ کے پی ڈی سی ایل حکام کے مطابق، اس شدید تفاوت نے بجلی کے ایک سنگین بحران کو جنم دیا ہے، جس نے کے پی ڈی سی ایل کو حل تلاش کرنے پر اکسایا ہے۔جموں و کشمیر فی الحال یونین ٹیریٹری میں بجلی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے باہر سے 2000 میگاواٹ سے زیادہ بجلی خرید رہا ہے، جب کہ مقامی پاور پلانٹس سے پیداوار گھٹ کر 500 میگاواٹ رہ گئی ہے۔جوائنٹ الیکٹرسٹی ریگولیٹری کمیشن (JERC) نے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں جموںوکشمیرحکومت کے زیر ملکیت پن بجلی پروجیکٹوں سے بجلی کی پیداوار میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جموں اور کشمیر پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن ان پن بجلی منصوبوں کا انتظام کرتی ہے، جس کی کل نصب صلاحیت 1211.96 میگاواٹ ہے۔