عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں پیر کے روز جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام میں دو قبائلی نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد سڑکوں پر نکلنے والے مظاہرین کے خلاف پولیس کارروائی پر ہنگامہ خیز مناظر دیکھنے میں آئے۔
آج جیسے ہی سوال و جواب کا سیشن شروع ہوا، ایم ایل اے سرنکوٹ چودھری محمد اکرم کھڑے ہوگئے اور ان پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جنہوں نے ایک خاتون کی مار پیٹ کی ہے جو ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔
اکرم نے کہا یہ ایک سنگین مسئلہ ہے کہ ایک خاتون کو پولیس افسر نے بلا جواز مار پیٹ کی ، ایوان کو اس کی مذمت کرنی چاہیے ۔نیشنل کانفرنس ، کانگریس اور پی ڈی پی کے ارکان اسمبلی بھی کھڑے ہوگئے اور قصوروار پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
این سی کے نذیر گوریزی نے سوال کیا،کیا یہ پولیس اسٹیٹ ہے؟ کیا پولیس کسی کو بھی گولی مار سکتی ہے، گرفتار کر سکتی ہے؟ کیا پولیس کے لیے کوئی قانون نہیں؟ایوان میں ہنگامہ مزید شدت اختیار کر گیا جب این سی کے ارکان اسمبلی جاوید چودھری، میاں مہر علی، جاوید مرچل اور ظفر علی خطان ایوان کے وسط میں جانے کی کوشش کرنے لگے، لیکن مارشلز نے انہیں روک دیا۔
احتجاج جاری رہنے پر، اسپیکر عبدالرحیم راتھرنے کہا کہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے احتجاج کرنے والے ارکان اسمبلی کو یقین دلایا کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں گے۔ دو قبائلی نوجوانوں، جو 13 فروری کو لاپتہ ہوگئے تھے، کی لاشیں کولگام میں برآمد ہوئی ہیں، جس کے بعد علاقے میں احتجاج پھوٹ پڑا ہے۔ لواحقین کا الزام ہے کہ ان نوجوانوں کو اذیت دے کر قتل کیا گیا ہے اور وہ ایک عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ ان کے ’’قاتلوں‘‘کو بے نقاب کیا جا سکے۔
کولگام میں مظاہرین کے خلاف پولیس کارروائی پر ارکان ِاسمبلی کا ایوان میں احتجاج
