حکومت کا فائدہ حقداروں کو نہیں بلکہ بہروپیوں کو مل رہا ہے: عمر عبداللہ

File Photo

یو این آئی

جموں//موسم اور رہن سہن کے علاوہ دیگر کئی چیزوں میں کشمیر اور جموں کے درمیان کافی فرق ہے لیکن موجودہ دور میں ایک ایسی چیز ہے جو دونوں طرف برابر ہے اور وہ لوگوں کی پریشانی، ناراضگی اور مایوسی ہے۔
ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے مجالٹہ نگروٹہ جموں میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
عمر عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہاکہ گذشتہ4سال کے حالات و واقعات سے جموں و کشمیر کے لوگ پریشان ، بے چینی اور غیر یقینیت کے شکارہیں۔ میں جہاں بھی جاتا ہوں میں وہاں لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن وہ حقیقی مسکراہٹ اور خوشی کہیں بھی دیکھنے ملتی نہیں ہے۔
اگر کوئی تھوڑی دیر کیلئے مسکرا بھی دیتا ہے تو فوری طور پر اندر کی پریشانیاں اور دکھ و درد اُس پر حاوی ہوجاتا ہے۔جہاں بھی دیکھو وہاں لوگ مایوس اور پریشان۔ جن کے پاس زمین کا چھوٹا ٹکرا ہے آج وہ اس بات سے پریشان ہیں کہ پتہ نہیں کب حکومت کا کوئی فرمان آئے گااورانہیں اپنی زمین سے الگ کیا جائے گا۔
جن زمینوں پر شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے یہاں جموں، لداخ اور کشمیر کے لوگوں کو مالکانہ حقوق دیئے ،اُن زمینوں پر آج حکمرانوں کی نظریں ہیں۔بجائے اس کے کہ موجودہ حکمران پانی پانی فراہمی کیلئے ٹینکر ، بچوں کو سکول لے جانے کیلئے بسیں اور مریضوں کو ہسپتال لے جانے کیلئے ایمبولنسوں کی خریداری کرتے موجودہ حکمران بلڈوزروں کی خریداری میں مصروف ہیں۔
عمر عبداللہ نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہاں حقدار کو اپنا حق نہیں ملتا ہے،حکومت کا فائدہ وہ لوگ اُٹھا رہے ہیں، جو دھوکہ دہی کرکے آتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک بندہ گجرات سے آیا یہاں حکومت کو کہاکہ میں وزیر اعظم کے دفتر میں کام کرتا ہوں اور یہاں کے حکمرانوں نے اس کے بارے میں حقائق جانے کی زہمت بھی گوارا تک نہیں کی۔
اتنا کہنے پر ہی کہ ”میںوزیر اعظم دفتر سے آیا ہوں“ ہمارے افسران اس کے سامنے قطار میں کھڑے ہوگئے۔کسی نے دلی فون کرکے پتہ کرنے کی کوشش تک نہیں کی، آج تو سب کے پاس موبائل فون اور انٹرنیٹ ہے کوئی Googleپر ہی موصوف کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ۔
انہوں نے کہاکہ ہمارے ساتھی ہیں جو ماضی میں وزیر رہ چکے ہیں اور جن پر حملے ہوئے بھی ہیں آج انہیں منت سماجت کے باوجو دبھی اسکوارٹ گاڑی نہیںملتی ہے بلٹ پروف گاڑی تودور کی بات لیکن اُس فراڈ شخص کو ڈبل اسکوارٹ، بلٹ پروف گاڑی، سائرن، فاﺅ سٹار ہوٹل میں قیام و طعام کی سہولیات دی گئیں۔
مذکورہ فراڈ شخص لائن آف کنٹرول کا معائینہ بھی کیا اور اعلیٰ سطحی میٹنگوں میں حالات کا جائزہ بھی لیا اور سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ اُس کمرے کے باہر روز وزیر اعظم آفس میں سفارش کروانے کیلئے ہمارے یہاں کے افسروں کی لائن لگتی رہتی تھی۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں وکشمیر انتظامیہ نے اس فراڈ شخص کو خوش کرنے کیلئے جس طرح سے متحرک رہی اور جس سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اگر اُس کا آدھا ہی یہاں لوگوں کے مسائل و مشکلات کے تئیں دکھاتے تو آج یہاں لوگ پریشان نہیں ہوتے اور نہ ہی ہمارے نوجوان مایوسی اور نااُمیدی کا شکار ہوئے ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ 5اگست 2019کو جب جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن چھینی گئی اور دفعہ370کو منسوخ کیا گیا تو اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ یہاں کے نوجوانوں کو گھر بیٹھے بیٹھے نوکریوں کے آرڈر مل جائیں گے۔
لیکن 4سال ہوگئے تب سے لیکر ہمارے نوجوان یہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ کہاں گئے وہ آرڈر؟ اُلٹا ایک دن بھرتی عمل کی فہرست نکلتی ہے ، دوسرے دن شکایت ہوتی ہے اور تیسرے دن اسے منسوخ کیا جاتا ہے اور ایک منصوبہ بند طریقے سے ہمارے نوجوانوں کا مستقبل تاریخ بنانے کی مذموم کی جارہی ہے۔