جاوید اقبال
مینڈھر // پونچھ کے مینڈھر سب ڈویژن میں دو روز قبل پیش آنے والے بہیمانہ حملے نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ محکمہ صحت کے فارماسسٹ محمد شبیر چوہدری، جنہیں تین سے چار نقاب پوش افراد نے خوفناک تشدد کا نشانہ بنایا تھا، جمعرات کی شام جموں کے گورنمنٹ میڈیکل کالج و ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ مرحوم کی میت جمعہ کے روز مینڈھر پہنچائی گئی جہاں غم سے نڈھال رشتہ داروں، ساتھی ملازمین اور مقامی لوگوں کی موجودگی میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور انہیں سپردِ خاک کیا گیا۔دو روز قبل یہ دلخراش واقعہ اس وقت پیش آیا جب محمد شبیر اپنی ڈیوٹی پر جانے کے لئے اسکوٹر پر روانہ ہوئے تھے۔ اڑی چیتری کے مقام پر ایک آٹو رکشہ میں سوار تین سے چار نقاب پوش افراد نے انہیں روک کر لوہے کی راڑوں اور دیگر اوزاروں سے بے رحمی کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا۔ حملہ اس قدر شدید تھا کہ ان کی ٹانگیں، پسلیاں اور جسم کے دیگر حصے بری طرح ٹوٹ گئے۔ شدید زخمی حالت میں انہیں فوری طور پر سب ڈسٹرکٹ ہسپتال مینڈھر لایا گیا جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد حالت نازک ہونے پر جموں ریفر کیا گیا، لیکن ڈاکٹروں کی مسلسل کوششیں بھی ان کی جان نہ بچا سکیں۔ان کی المناک موت کی خبر سنتے ہی مینڈھر اور گردونواح میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ محکمہ صحت کے ملازمین نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کام بند کر دیا اور انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ قاتلانہ حملے میں ملوث تمام افراد کو سخت ترین سزا دی جائے۔ احتجاجی ملازمین کا کہنا تھا کہ دن دہاڑے سرکاری ملازمین پر حملے اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ علاقے میں قانون شکنی اور عدم تحفظ بڑھ رہا ہے، جسے روکنے کے لئے فوری سخت اقدامات ضروری ہیں۔دوسری جانب پولیس نے اس افسوسناک واقعے کی تحقیقات میں اہم پیش رفت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق پولیس نے مقتول کے بھائی، ایک سابق سیشن جج سمیت تین افراد کو گرفتار کر لیا ہے، جبکہ آٹو ڈرائیور پہلے ہی حراست میں ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مزید ملوث افراد کی شناخت کے لئے تفتیش جاری ہے اور مختلف مقامات پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ حملے کی وجوہات، محرکات اور منصوبہ بندی کے سلسلے میں ہر زاوئیے سے جانچ کی جا رہی ہے۔اس واقعے نے نہ صرف مینڈھر بلکہ پورے ضلع میں خوف و ہراس کی فضا قائم کر دی ہے۔ عوام نے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ اس بدقسمت واقعے میں ملوث تمام ملزمان کو جلد از جلد قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ آئندہ اس طرح کے دل دہلا دینے والے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے۔