ایس معشوق احمد
کیا میں اردو کی آن لائن ویب پورٹل’’ اشتراک ڈاٹ کام‘‘ اور اس کے بانی طیب فرقانی کو بھول سکتا ہوں؟ جواب نفی میں آتا ہے اور اس سوال پر میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگتا ہے کہ یہ فاسق خیال ذہن میں آیا کیونکر۔ زندگی میں ایسے دوست ضرور ہونے چاہیے جن سے اگرچہ آپ باتیں نہیں کرتے، اپنے دکھ سکھ ان سے نہیں بانٹ سکتے، انہیں ادھار نہیں دے سکتے اور ان سے ادھار نہیں لے سکتے، پھر بھی وہ آپ کی زندگی کا حصہ ہوں۔یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے؟ پھر یہ دوستی نہ ہوئی بلکہ بیگانگی ہوئی۔ایسا ممکن ہے اور میں اس کا گواہ ہوں۔طیب فرقانی سے میری کبھی بات نہیں ہوئی، کبھی ملاقات نہیں ہوئی پھر بھی ان سے میری شناسائی ہے،ان سے میرا ایک خاص تعلق ہے،ان کے قلم سے میرا ایک خاص رشتہ ہے،ان کی تحریروں اور کتابوں سے مجھے ایک خاص انسیت ہے۔ اس تعلق، اس رشتے اور اس انسیت کو میں بیان نہیں کرسکتا، بس محسوس کرسکتا ہوں۔ اس احساس میں شدت آئی جب میں نے ان کی مرتب کردہ کتاب ’’غضنفر افسانوں کے روزن سے ‘‘ کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔کوئی ادبی سرگرمیوں سے ناواقف شخص ہی یہ سوال کر سکتا ہے کہ غضنفر کون ہے؟ ادب سنج جانتے ہیں کہ غضنفر ایک کثیر الجہات شخصیت کا نام ہے،ایک بہتر مہتر فکشن نگار ، ایک بڑا ناول نگار،ایک بہترین خاکہ نگاری، ایک رفیع المنزلت ناقد ، ایک جہاں دیدہ شاعر ہے غضنفر۔ایسی کثیر الجہات شخصیت کی گہرائی کی پیمائش کے لئے طیب فرقانی نے ایک کامیاب کوشش کی ہے اور افسانوں کے روزن سے جھانک کر دیکھا ہےکہ غضنفر نامی سمندر کے اندر کتنے تخلیق کردہ چمک دار موتی افسانوں کی صورت میں موجود ہیں۔یہ کتاب 2024 ء میں شائع ہوئی ہے اور اس میں غضنفر کے چودہ معروف افسانوں کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔اس کتاب کی ایک خصوصیت یا جدت کہہ لیجیے ،کا ذکر میں کر لیتا ہوں۔غضنفر کے ہر افسانے کا تجزیہ دو تجزیہ نگاروں نے کیا ہے تاکہ ان افسانوں کا کوئی کونا،کوئی گوشہ تاریک نہ رہے بلکہ ہر جملے اور ہر زاویے سے غضنفر کے افسانوں کو سمجھنے اور سمجھانے کا موقع میسر آئے۔اس جدت سے یہ احتمال پیدا ہوسکتا تھاکہ دو تجزیوں کو شامل کتاب کرنے سے ان میں بعض باتیں دہرائی جاسکتی تھی یا تجزیوں میں افسانوں کی خوبی اور خامیوں کا تذکرہ بار بار آتا لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوا ہے بلکہ دونوں تجزیے الگ الگ نوعیت اور الگ سوچ کے حامل ہیں،یہ اس کتاب کی خوبی ہے۔
طیب فرقانی نے مقدمے میں تجزیہ کیا ہے؟سے بحث کی ہے اور اردو میں تجزیہ نگاری کی تاریخ کے ساتھ ساتھ کتاب کا محرک، غضنفر کی حالات زندگی ، ان افسانوں کے انتخاب اور تجزیوں میں دشواریوں کا ذکر اور ان رسائل و جرائد کا تذکرہ تفصیل سے کیا ہے جن سے ان تجزیوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔مقدمے کے بعد طیب فرقانی نے غضنفر سے گفتگو کی ہے اور وہ انٹرویو اس انتخاب میں شامل ہے۔اس انٹرویو میں غضنفر نے جہاں کہانی اور افسانے میں فرق کو واضح کیا، وہیں طیب فرقانی کے اس سوال کا بھی تفصیل سے جواب دیا کہ آپ کے افسانوں میں جنس ندارد کیوں ہے۔غضنفر کا جواب سن لیجیے۔
’’ سیاسی اور معاشرتی مسائل کا دباؤ میرے ذہن و دل پر اتنا زیادہ اور زور دار رہا کہ جنس ان کے نیچے دب کر رہ گیا۔میرے نزدیک جنس کوئی ٹیبو( taboo) نہیں ہے کہ میں اسے نہ چھوؤں بلکہ بعض ناولوں میں ،میں نے اس طرح چھوا ہے کہ کچھ لوگوں نے اعتراض تک کیا۔یہ اور بات کہ ان کا اعتراض غیر منطقی اور اعتراض برائے اعتراض تھا۔‘‘
اس کتاب میں غضنفر کے جن چودہ افسانوں کا تجزیہ شامل ہے ان کی تفصیل یوں ہے۔کڑوا تیل تجزیہ اقبال مجید /شافی قدوائی، خالد کا ختنہ تجزیہ صفدر امام قادری / سیلم سرفراز ،مسنگ مین تجزیہ رفیع حیدر انجم / تسلیم عارف ، سائبر اسپیس تجزیہ رفیع حیدر انجم/ ریحان کوثر ،سانڈ تجزیہ اقبال مجید / صفدر امام قادری ، تصویر تخت سیلمانی تجزیہ مولا بخش / ابوذر ہاشمی ، خالی فریم تجزیہ مشتاق احمد نوری / ثروت خان ، شجر کاری تجزیہ نور الامین/ طیب فرقانی،ڈگڈگی تجزیہ ناصر انصار / شگفتہ ناز ، پارکنگ ایریا تجزیہ زرنگار یاسمین / حسن امام ، ہاؤس ہوسٹس تجزیہ ابوذر ہاشمی / فرح معید ، پہچان تجزیہ طاہر انجم صدیقی/ شہزور خاور ، سرسوتی اسنان تجزیہ رمیشا قمر / سمیرہ رفیق ،حیرت فروش تجزیہ فرح معید / طیب فرقانی۔کتاب میں شامل بارہ افسانوں کا انتخاب غضنفر کے افسانوی مجموعوں حیرت فروش اور پارکنگ ایریا سے کیا گیا ہے اور دو افسانے شجر کاری اور خالی فریم غضنفر کے تازہ افسانے ہیں جو ان دو مجموعوں میں شامل نہیں۔
مذکورہ بالا افسانوں میں غضنفر کا کوئی افسانہ آپ کی سمجھ میں نہیں آیا یا ان میں برتی گئی علامتوں اوراستعاروں کی تفہیم میں دقت پیش آرہی ہے تو آپ غضنفر افسانوں کے روزن سے نامی کتاب کا مطالعہ کیجیے۔آپ کو سمجھانے کے لئے دو تجزیہ نگار کی خدمات میسر ہیں جو فقط سطحی باتیں نہیں کرتے، بلکہ افسانوں میں جھانک کر ان کی خوبیوں اورخامیوں کو پرکھ کر ان افسانوں کی زبان و بیان اور اسلوب کا مطالعہ نہایت صفائی سے پیش کرتے ہیں جس سے افسانوں کی تفہیم آسان سے آسان تر ہوجاتی ہے۔ان کے تجزیوں میں ان افسانوں کا موضوع بھی سمیٹ کر آیاہے اور ان کی جزئیات نگاری، کردار نگاری ، موضوع اور ہیت کو بھی تجزیہ نگاروں نےموضوع گفتگو بنایا ہے۔یہ انتخاب اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اسے پڑھ کر ہم معاصر افسانے کے ایک اہم پڑاؤ غضنفر کے افسانوں کو ہی نہیں سمجھ پاتے بلکہ ان کی افسانہ نگاری کی مختلف جہات اور ادوار کو بھی جاننے میں کامیاب ہوتے ہیں۔یہ کتاب بلاشبہ غضنفر شناسی کے حوالے سے اہم اضافہ ہے۔ اس امتیازی کام کو انجام دینے کے لئے کتاب کے مرتب طیب فرقانی کی سراہنا ہونی چاہیے۔
رابطہ۔8493981240
[email protected]