ہمت و حوصلہ
ابراہیم آتش
34 سالہ ظہران ممدا نی امریکہ کے شہر نیو یارک کے میئر بننے کے بعددنیا بھر کے مختلف ٹی وی چینلوں اور اخباروں میںان دنوں سب سے زیادہ چرچا میں دیکھے جا رہے ہیں اور یہ جائز بھی ہے کیونکہ نا ممکن کو ممکن کر دکھایا ہے۔ ظہران ممدانی کی جیت کو ئی معمولی نہیں ہے بلکہ غیر معمولی ہے۔ ایک ایسے شہر میں جہاں عیسائی 60 فیصد ہیں اور یہودی 11 فیصد اور مسلمان9 فیصد ہیں ،وہاں پر ظہران ممدانی ایک ایسا چہر ہ جو اپنے آپ کو کھلے عام کہتا ہے’’ میں مسلمان ہوں‘ جو اپنی شناخت نہیں چھپاتا، جیت جانا ہمارے ملک کے ان مسلم لیڈروں کے منہ پر طمانچہ ہے جو اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے پر شرم محسوس کرتے ہیں اور بعض تو اپنے آپ کو ظاہر کرنا بھی پسند نہیں کرتے جبکہ ہمارے ملک میں مسلمانوں کی آبادی 20 فیصد کے لگ بھگ ہے اور امریکہ میں مسلمان صرف دو فیصد ہیں ۔دو فیصد کی مسلم آبادی والے ملک میں شیر کی طرح دھاڑ کر اپنے آپ کو اسلام کا ماننے والا کہنا، اس کے اندر کی اس کی ایمانی قوت کو ہم محسوس کر سکتے ہیں۔ وہ کوئی معمولی شخص نہیںہے، وہ شخص ایک دن امریکہ میں انقلاب لا سکتاہے۔ اللہ تعالی نے ظہران ممدانی کو بے پناہ صلاحیتوں کا مالک بنایا ہے، جس روانی سے وہ انگریزی بولتے ہیں، اسپینی ،ہندی ،عربی اور یوگانڈا کی زبان پر بھی عبور رکھتے ہیں، جس زبان کے جاننے والے ہوتے، ان کی زبان میں بات کی جائے تو فوراً اثر ہوتی ہے اور دل کو چھو لیتی ہے ۔
ظہران ممدانی 18 اکتوبر 1991 کو کمپالہ ،یوگانڈا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمود ممدانی ایک کھوجا گجراتی مسلم گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی ما ں میرا نائر ہندی فلموں کی مشہور رائٹر رہی ہیں ،جن کا تعلق پنجاب سے ہے، محمود ممدانی کی پیدائش ممبئی میں ہوئی تھی، بعد میں وہ یوگانڈا منتقل ہو گئے۔ یوگانڈا سے جنوبی افریقہ چلے گئے، پھر وہاں سے امریکہ میں جا کر بس گئے، اُس وقت ظہران ممدانی کی عمر سات برس کی تھی۔ 2014 گرا یجویٹ کیا، ممدانی ہپ ہاپ کے بھی شوقین تھے اور شو بھی کرتے تھے اور راپ میوزک بھی دیتے تھے، ظہران ممدانی 2018 میں امریکی شہریت حاصل کی ،2021 میں راما دوجی شامی لڑکی سے ڈیٹنگ کے ذریعہ ملاقات ہوئی، اکتوبر 2024 میں دونوں ملے اور اس کے دو مہینے بعد ان دونوں کا دبئی میں نکاح ہوا ۔ نیو یارک شہر دنیا کے سب سےزیادہ مالدار لوگوں کا شہر ہے۔ وہاں کے تمام مالدار لوگ ظہران ممدانی کے خلاف تھے ،وہاں کے مالدار نہیں چاہتے تھے کہ ظہران ممدانی الیکشن میں جیت جائیں مگر ظہران ممدانی کو عوام کا حیرت انگیز سہارا ملا، انھوں نے بلا مذہب ہر غریب کے لئے آواز اٹھائی ،وہی آوازیہاں راہل گاندھی بھی اٹھا رہے ہیںاور راہل گاندھی ظہران ممدانی سے کئی سال پہلے سے یہ آواز اٹھا رہے ہیں۔ راہل گاندھی نا کام اور ظہران ممدانی کامیاب ہونے کی کئی وجوہات ہیں، اس پر ہمیں سوچنا ہوگا۔ امریکہ کی عوام تعلیم یافتہ ہے اور ہمارے ملک میں ووٹروں کو خریدا جا سکتا ہے وہاں پر ووٹر کو نہیں خریدا جا سکتا، یہاں پر ذات پات اور مذہب کے لئے کسی بھی سطح پر ملک کے مفاد سے سودا کیا جا سکتا ہے، وہاں عوام کی ترقی کو ملک کی ترقی سمجھا جاتا ہے۔ مہنگائی کتنی بھی ہو جائے ہمیں ہمارے پسند کی حکومت چاہئے مگر وہاں ایسا نہیں ہے۔ یہاں مسلمان بیس فیصد ہوتے ہوئے بھی اقتدار تو دور کی بات اپنی شناخت بچانے کے لئے جدوجہد کر نا پڑ رہا ہے، وہاں نو فیصد مسلمان ہوتے ہوئے بھی ایک مسلمان60 فیصد عیسائی اور گیارہ فیصد یہودیوں کے ووٹ لے کر کامیاب ہو جا تا ہے۔ راہل گاندھی کا ظہران ممدانی سے موازنہ کیا جاسکتا، راہل گاندھی میں کچھ کمزوریاں ہیں۔ شخصیت کے اعتبار سے ظہران ممدانی راہل گاندھی سے عمر میں چھوٹے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تقریر ایک فن ہے، اس کا علمی قابلیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔بہت سے ایسے بھی لیڈر ہمیں دیکھنے کو ملے ہیں، تقریر دھواں دھار کرتے ہیں مگر علمی قابلیت میں صفر ہوتے ہیںاور کچھ ایسے بھی ہیں جن کی تقریر بہت کمزور ہوتی ہے، مگر علمی قابلیت بلا کی ہوتی ہے ۔ مثلاً ہم ہمارے ماضی کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو دیکھ سکتےہیں۔
امریکہ میں لوگ جب وہاں کے حالات سے مایوس ہو رہے تھے، ظہران ممدانی نے عوامی مسائل پر توجہ دی، خاص کر فری بس اور فاسٹ ٹرانسپورٹ عوام کے لئے سستے مکان اور امیروں پر بھاری ٹیکس یہ ان کا اہم ایجنڈا تھا۔ ویسے حالات میں وہاں کے لوگوں کو ظہران ممدانی کے اندر ان کا بہتر مستقبل نظر آیا ، وہ شخص اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل، لوگ آتے گئے کارواں بنتا گیا۔ وہ ایک ایک گھر پر پہنچا بسوں میں ،ٹرینوں میں، پارکوں میں، ہوٹلوں میں، سڑکوں پر، بازاروں میں ہر جگہ لوگوں سے نیویارک کی غریب عوام کے لئے کامیاب کرنے کی اپیل کی۔ ظہران ممدانی کی کامیابی کے بعد جو انھوں نے تقریر کی اس تقریر میں جواہر لال نہروکی وہ بات دہرائی جو جواہر لال نہرو نے 1947 میں آزادی کے بعد کہی تھی ،کسی بھی ملک کے لئے وہ لمحہ تاریخی لمحہ بن جاتا ہے جب پرانے کو چھوڑ کرنئے کو اپناتے ہیں۔ 2014 کے بعد سے ملک کے کسی ٹی وی چینل نے جواہر لال نہرو کی تعریف نہیں کی ہوگی، جبکہ حکمران سیاسی پارٹی کی جانب سے جواہر لال نہرو کو اچھے نام سے یاد نہیں کیا جارہا ہےبُرا بھلا کہا جاتاہے اور مختلف معاملوں میںاُنہیں مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے۔جبکہ ایسا دکھائی دے رہا ہےکہ ایسا جذبہ و حوصلہ بھی راہل گاندھی میں موجود نہیںہے، جس طرح کا جذبہ ظہران ممدانی کے اندر موجود ہے۔ لوگوں کا ذہن بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتی،جیسا کہ بی جے پی نے کرکے دکھایا ہے۔
نیو یارک شہر کا مئیر بننا آسان نہیں، میئر کا امیدوار بننے کے لئے پہلے پار ٹی میں الیکشن ہوتا ہے، کون امیداوار ہوگا۔ وہاں پر ایسا نہیں ہے، ہر ایک امیدار کو کھڑا کیا جاتا ہے۔وہاں ذات پات اور دھرم بھی نہیں دیکھا جاتا ۔ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے ،ویسے ہی وہاں کے لوگوں کے خیالات بھی ہیں،اس لئے وہ دنیا کا نمبر ایک ملک بنا ہے ۔ڈیمو کریٹک پارٹی میں نیویارک کے مئیر کے لئے دو امیدوار میدان میں تھے، ان میں سے جو کامیاب ہوگا، وہ نیو یارک کے مئیر کے لئے الیکشن لڑے گا ۔ ایک ظہران ممدانی اور دوسرا امیدوار انڈریو کومو۔ انڈریوکومو جو نیو یارک ریاست کے تین بار گورنر رہ چکے تھے ،ہم اندازہ گا سکتے ہیں کتنے طاقتور ہوں گے۔ پارٹی سے امیدوار بننے کے لئے ظہران ممدانی نے انڈریو کومو کو ہرایا۔ا نڈریو کومو کی ہار کی اہم وجہ یہ تھی کہ ان پر جنسی ہراں سانی کے بہت الزامات تھے اور پارٹی بھی صاف ستھری شخصیت کو امیداور بنانا چاہتی تھی، جب ڈیمو کریٹک پارٹی سے انڈریو کومو کو ٹکٹ نہیں ملا تو انھوں آزاد امیدوار کی حیثیت سے نیو یارک کے مئیر کا الیکشن لڑا اور ظہران ممدانی سے الیکشن میں ہار گئے۔ جبکہ ان کا ساتھ دینے کے لئے امریکہ کے صدر ٹرمپ بھی میدان میں آ ئے اور نیو یارک کے تمام مالدار لوگ انڈریو کے ساتھ تھے، مگر نیو یارک کی عوام نے اپنے بہتر مستقبل اور نیو یارک کے بہتر مستقبل کے لئے ظہران ممدانی کو کامیاب کیا ۔
رابطہ۔ 9916729890
[email protected]