عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/مرکزی جامع مسجد سرینگر میں نمازِ جمعہ کے موقع پر ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میرواعظِ کشمیرمولوی محمد عمر فاروق نے دہلی میں حالیہ بم دھماکے کو انتہائی افسوسناک اور دل دہلا دینے والا واقعہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سانحے میں 12 بے گناہ شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ متعدد شدید زخمی ہوئے، جو پورے ملک کیلئے صدمے کا باعث ہے۔میرواعظ نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس طرح کے واقعات کے فوراً بعد بعض میڈیا حلقے بغیر کسی مصدقہ معلومات کے ’انسائیڈ سورسز‘ کے نام پر ایسے بیانیے کو فروغ دیتے ہیں جو ایک مخصوص مذہب یا کمیونٹی کو نشانہ بناتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس جلد باز رپورٹنگ کے نتیجے میں ملک کی مختلف ریاستوں میں تعلیم یا روزگار کی خاطر مقیم کشمیری نوجوان اور طلبہ مشکوک بن کر عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں، جبکہ کشمیر میں ان کے اہل خانہ شدید بے چینی اور پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
اپنے خطاب میں میرواعظ نے واضح کیا کہ وہ اور ان سے وابستہ تمام سیاسی و مذہبی تنظیمیں ہر قسم کے تشدد اور دہشت گردی کی ہمیشہ شدید مذمت کرتی آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے دہائیوں تک ایسے واقعات کا درد سب سے زیادہ برداشت کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ دہلی میں جو کچھ ہوا، کسی بھی مقصد کو تشدد کے ذریعے حاصل کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ کوئی مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔
میرواعظ نے کہا کہ مسائل کے مستقل حل کیلئے سب سے مؤثر راستہ مکالمہ، مشاورت اور باہمی احترام پر مبنی بات چیت ہے۔ انہوں نے جامع مسجد کے منبر و محراب کو عوام کی اجتماعی آواز کا آئینہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے لوگ اس وقت شدید بے اختیاری، مایوسی اور غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بنیادی سیاسی مسئلہ بدستور حل طلب ہے جبکہ اگست 2019 میں جموں و کشمیر کی آئینی خود مختاری کے خاتمے، ریاستی درجہ چھیننے، زمین و ملازمت کے حقوق محدود کرنے اور آبادیاتی خدشات نے لوگوں میں غیر معمولی اضطراب پیدا کیا ہے۔میرواعظ کے مطابق اظہارِ رائے کی آزادی پر پابندیاں، ہر وقت نگرانی کا ماحول، سرکاری ملازمین کی برطرفیاں، جائیداد ضبطی کا خطرہ، تحقیقاتی ایجنسیوں کی چھاپہ مار کارروائیاں اور گرفتاریوں نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
انہوں نے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، آرٹیکل 35اے کے خاتمے کے بعد امتیازی ریزرویشن پالیسی اور روزگار کے محدود ہوتے مواقع کو بھی بڑھتی ہوئی مایوسی کی بنیادی وجہ قرار دیا۔فیصلہ ساز اداروں کو مشورہ دیتے ہوئے میرواعظ نے کہا:’ضرورت اس بات کی ہے کہ جموں و کشمیر کو محض سیکیورٹی اور لاء اینڈ آرڈر کے زاویے سے نہ دیکھا جائے۔ جیسا کہ سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی جی نے کہا تھا، مسئلہ کشمیر کو ’انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت‘ کے دائرے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘