محمد بشارت
کوٹرنکہ //ضلع راجوری کے سب ڈویژن کوٹرنکہ کے دور افتادہ علاقہ سموٹ میں واقع نیو ٹائپ پرائمری ہیلتھ سینٹر (پی ایچ سی) گزشتہ کئی برسوں سے بدترین زبوں حالی کا شکار ہے۔ صحت کے اس اہم ادارے میں گزشتہ سات سال سے ڈاکٹر تعینات نہیں، اور یہاں آنے والے مریض صرف ایک فارماسسٹ کے رحم و کرم پر ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ معمولی علاج کے لئے بھی انہیں کوٹرنکہ یا نوشہرہ کا رخ کرنا پڑتا ہے، جس سے غریب عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔پی ایچ سی سموٹ کی عمارت جس پر سال 2007میں ایک کروڑ 75 لاکھ روپے کی لاگت سے تعمیراتی کام شروع کیا گیا تھا، تاحال مکمل نہیں ہوسکی۔ گراؤنڈ فلور کے بعد فسٹ فلور کی تعمیر 18سال گزرنے کے باوجود مکمل نہیں ہوئی اور اب عمارت کھنڈر میں تبدیل ہو چکی ہے۔ عمارت کے ارد گرد نکاسی آب کا کوئی مناسب انتظام نہیں، جس کے باعث بارشوں میں پانی اندر داخل ہو کر مزید تباہی کا سبب بنتا ہے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ نہ محکمہ صحت اور نہ ہی پی ڈبلیو ڈی اس ادھورے منصوبے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہیں۔سماجی کارکن سلیم خان کے مطابق اس پی ایچ سی پر ایک کروڑ چار لاکھ 91 ہزار روپے کی رقم خرچ ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے، لیکن اس رقم کا کوئی عملی ثبوت موجود نہیں۔ مشینری زنگ آلود ہو چکی ہے، ایکسرے مشین ناکارہ ہے، اور کوئی بھی جدید سہولت یہاں میسر نہیں۔تنصیر خان نامی مقامی نوجوان نے بتایا کہ سات سال سے ڈاکٹر کی عدم دستیابی نے اس ادارے کو ایک فرماسسٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ڈاکٹر کی تعیناتی کے لئے ’جموں کشمیر سمدھان‘‘ میں شکایت درج کی تھی، جس پر ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز جموں نے 5 مئی کو چیف میڈیکل آفیسر راجوری کو تحریری ہدایت جاری کی کہ جلد از جلد روٹیشن کی بنیاد پر ڈاکٹر تعینات کیا جائے، لیکن 25 دن گزرنے کے باوجود کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔عوامی شکایات کے باوجود چیف میڈیکل آفیسر اور بی ایم او ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں۔ جب نمائندہ نے سی ایم او راجوری سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے فون تک اٹھانے کی زحمت نہیں کی۔ مقامی لوگوں نے ضلع ترقیاتی کمشنر راجوری سے اپیل کی کہ وہ ایک عوام دوست افسر ہونے کے ناطے اس لاوارث ادارے کی حالت زار پر خصوصی توجہ دیں۔ ساتھ ہی ایل جی انتظامیہ اور متعلقہ وزیر سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس علاقے کے عوام کو درپیش مشکلات کا نوٹس لیں، خالی پڑی آسامیاں فوری طور پر پْر کی جائیں، اور کروڑوں روپے سے بننے والی اس عمارت کو عوامی فلاح کا مرکز بنایا جائے۔