پرویز مانوس
ایسا آج پہلی بار ہوا تھا کہ سیکورٹی فورسس کی فائرنگ سے اپنا ہی جوان بُری طرح زخمی ہوا تھا، نائک پرمود کا تمام جسم لہو لہان تھا، وہ بے ہوش پڑا ہوا تھا اور اسٹیچر سے لہو کے قطرے ٹپک رہے تھے، نیم فوجی دستوں سے پورا اسپتال بھرا ہوا تھا، اعلیٰ آفیسران بھی پہنچ کر واقعے کی بابت جانکاری حاصل کر رہے تھے _،،
چار اہلکاروں نے نائک پرمود کے زخمی جسم کو اسٹیچر پر اُٹھا کر ایمرجنسی وارڈ کے بیڈ پر رکھا اور اُس کے ارد گرد ڈاکٹروں کی ایک ٹیم اُس کا معائنہ کرنے لگی، تمام اعلی آفیسران آپس میں چہ میگوئیاں کررہے تھے۔ کچھ اس حادثے کو شک بھری نظروں سے دیکھتے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے یہ واقعہ حادثاتی طور پر رونما ہوا ہے یا پھر۔۔۔۔؟ اور کچھ اس منحوس واقعے پر کفِ افسوس مل رہے تھے۔
پرمود مہتو جھاڑ کھنڈ کا باشندہ تھا وہ سیکورٹی فورسز میں نائک ہو چکا تھا اور پچھلے چار برس سے اس شورش زدہ خطے میں تعینات تھا۔ شہر کے جس چوک پر وہ تعینات تھا، وہاں ہنگامے اور سنگ بازی معمول کا حصہ تھے۔ دنگے فساد، جلسے جلوس، نعرے اور مظاہرے، شہر کی رونق بن چکے تھے۔ کوئی پتہ نہیں کب کس جانب سے گولی آجائے۔ صُبح سے شام تک اپنے جسم پر بھاری بھر کم بُلٹ پروف جیکٹ، ہیلمٹ، اور بندوق کا پچیس کلو اضافی بوجھ اُٹھائے ڈیوٹی دے کر اُس کا انگ انگ دُکھنے لگتا لیکن اب وہ اس کا خوگر ہو چکا تھا۔ پرمود کی زندگی میں امن اور سکون کی صرف ایک ہی جگہ تھی، وہ تھی معصوم سی بچی، ماریہ۔،،
ماریہ اسی محلے میں رہتی تھی جہاں پرمود پچھلے کئی دنوں سے اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔
ماریہ پانچ سال کی پیاری سی معصوم بچی تھی جس کی آنکھوں میں دنیا بھر کا تجسس اور معصومیت بھری ہوئی تھی۔ پرمود جب بھی ماریہ کو دیکھتا، ایک عجیب سا سکون اس کے دل میں اتر آتا۔ ماریہ کو دیکھ کر اُسے اپنی بیٹی شالو یاد آجاتی تو اُس کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ جاتے، کبھی وہ اسے بسکٹ دیتا، کبھی چاکلیٹ اور کبھی کبھی پکوڑے، ماریہ کی خوشی دیکھ کر پرمود کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل جاتی۔ اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی بس یہی لمحے بن چکے تھے۔
پرمود کی ماریہ سے پہلی ملاقات کچھ عجیب و غریب حالات میں ہوئی تھی۔ ایک دن جب شہر میں شدید مظاہرے ہو رہے تھے، فورس کے اہلکار سنگ بازوں کے پیچھے دوڑ پڑے تو اتنے میں معصوم ماریہ نے بھی اپنے مکان کی دوسری منزل سے جذباتی نعروں سے سرشار ہو کر گملے سے مٹی کا ایک ڈھیلا اُٹھا کر اہلکاروں کی طرف پھینکا تو وہ سیدھا پرمود کی چھاتی پر جالگا۔ پرمود نے گردن اُٹھا کر دیکھا تو معصوم بچی کو دیکھ کر حیران رہ گیا اور سوچنے لگا، اس معصوم سی بچی میں اسقدر جنون ……..؟
لیکن پرمود اُس پر غُصہ ہونے کے بجائے مسکرادیا، وہ تو محض ایک بچی تھی، جسے نہ سیاست کی سمجھ تھی اور نہ ہی فسادات کے پیچھے کی وجوہات کا علم۔
اس کی معصومیت نے پرمود کے دل کو چھو لیا۔ اسی دن کے بعد سے ماریہ اور پرمود کے درمیان ایک خاموش دوستی کا آغاز ہوا۔
ماریہ کی ماں جب بھی کبھی اُسے بُھٹا بناکر دیتی تو وہ اُس میں آدھا پرمود کو دے آتی، کئی مرتبہ محلے کی عورتوں نے اُس کی ماں کو کہا کہ وہ ماریہ کو ملٹری والے کے پاس جانے سے روکے لیکن ماریہ کی ماں پڑھی لکھی اور سمجھدار تھی، اس بات کو سمجھتی تھی کہ وہ بھی اپنا عیال چھوڑ کر یہاں پیٹ کی آگ بجھانے آیا ہے اور وہ ماریہ کو بہت پیار کرتا ہے _ ۔
اُس نے انہیں سمجھایا کہ وردی پہننا اُس کی مجبوری ہے ورنہ وہ بھی ہماری طرح ایک انسان ہے، اُس کے اندر بھی جان ہے، ایک دل ہے، اُس کے بھی جذبات ہیں، ماریہ کو اُس سے دلی لگاؤ ہوگیا ہے، ماریہ اُسے ملٹری انکل کہتی ہے اور مجھے یقین ہے وہ ماریہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔
پڑوسن کہنے لگی” اری بہن۔۔۔! ان ملٹری والوں کا کوئی بھروسہ نہیں، یہ ہم سب کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور ہر وقت بدلہ لینے کی تاک میں رہتے ہیں۔ _اُن کا بس چلے تو وہ ہم سب کو مار ڈالیں _،،
آپ سب ملٹری والوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہی ہیں، اری ہاتھ کی پانچ انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں، لوگوں کے دلوں میں نفرت کا بیج مت بوئو، جاؤ اپنا کام کرو۔ ماریہ کی ماں نے سخت لہجے میں کہا تو وہ عورتیں اپنا سا منہ لے کر چلی گئی۔
روزانہ کی ڈیوٹی کے دوران، پرمود ماریہ کو دور سے کھیلتے دیکھتا رہتا، جب بھی موقع ملتا، وہ اس کے پاس جا کر اسے کچھ نہ کچھ دے دیتاکبھی بسکٹ، کبھی چاکلیٹ، اور کبھی محض ہنسی مذاق۔ ماریہ کے لیے پرمود ایک دوست بن گیا تھا، جس کی موجودگی اسے خوشی دیتی تھی۔ وہ پرمود کو “مِلتری انکل ” کہہ کر پکارتے ہوئے دوڑتی آتی اور اس کے سینے سے لگ جاتی، ماریہ کے ساتھ چند لمحے گزار کر پرمود اپنی روزمرہ کی مشکلات بھول جاتا۔
لیکن شہر کے حالات دن بدن بگڑتے جا رہے تھے۔ فساد اور پتھراؤ اب ایک معمول بن چکا تھا۔ ہر روز نئے مظاہرے ہوتے، ہر روز نئے زخم لگتے، پرمود کی زندگی اس شورش زدہ ماحول میں ایک جنگ بن چکی تھی مگر ماریہ کی معصوم مسکراہٹ اس کے دل کو ہر بار نئی امید دیتی تھی۔
ایک دن ایسا ہوا جس نے پرمود کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ شہر میں اس روز ایک بڑا جلسہ تھا، جو جلد ہی ہنگامے میں تبدیل ہو گیا۔ مظاہرین نے پتھراؤ اور آتش زنی شروع کر دی اور فورسز نے انہیں منتشر کرنے کے لیے پیلٹ گنز کا استعمال کیا۔ حالات بے قابو ہو رہے تھے اور ہر طرف بھاگ دوڑ مچی ہوئی تھی۔
پرمود بندوق تانے اپنی جگہ پر چاک و چوبند کھڑا تھا جب اچانک اس کی نظر ماریہ پر پڑی، جو اپنے گھر کے گیٹ سے ننھے ننھے قدموں چلتے ہوئے باہر نکل رہی تھی۔ وہ مظاہروں اور گولیوں کی آوازوں سے بے نیاز اپنی ہی دھن میں پرمود کی جانب چل رہی تھی _ اس گن گرج میں اُسے اپنی جانب آتے دیکھ کر پرمود کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا، اس نے دیکھا کہ پیلٹ گن سے نکلنے والے آہنی ریزے سیدھا ماریہ کی طرف جا سکتے ہیں _اس سے پہلے کہ ماریہ کو کچھ نقصان پہنچتا ، پرمود نے بغیر سوچے سمجھے اس کی طرف دوڑ لگا دی۔
اس لمحے میں، پرمود نے صرف ایک بات سوچی “اگر پیلٹ کے آہنی ریزے ماریہ کی آنکھوں میں لگے تو وہ بھی کہیں اُس کی بیٹی کی طرح ہمیشہ کے لئے اندھی نہ ہو جائے ”
پرمود کی اپنی بیٹی، جو کئی سال پہلے ایک حادثے کے باعث بینائی سے محروم ہو چکی تھی، اس کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ تھا۔ وہ اپنی بیٹی کی آنکھوں کی روشنی کو کبھی واپس نہ لا سکا تھا، لیکن وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ ماریہ بھی اس مصیبت کا شکار ہوکر در در کی ٹھوکریں کھائے۔
ٹھا۔۔۔۔۔۔! کی آواز سُنتے ہی پرمود نے جھٹ سے ماریہ کو سینے سے لگا لیا، اور اس کے اوپر پوری طرح جھک گیا۔ پیلٹ گن سے نکلنے والے آہنی ریزے سیدھا پرمود کی پیٹھ میں پیوست ہوگئے _ ایک شدید درد اس کے جسم میں پھیل گیا، مگر اس نے ماریہ کو محفوظ رکھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی ہے۔
ماریہ اس حادثے سے بے خبر پرمود انکل کے سینے سے لگی ہوئی تھی _پرمود کے ہونٹوں پر ایک کمزور سی مسکراہٹ تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اس نے جو کرنا تھا، کر دیا ۔ اس نے ماریہ کو اس طرح بچا لیا تھا، جیسے وہ اپنی بیٹی کو بچانا چاہتا تھا۔
پرمود کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا، مگر اس کے دل میں ایک عجیب سی روشنی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی قربانی رائیگاں نہیں گئی بلکہ امن کو پروان چڑھانے کی جانب ایک قدم تھا _۔
اتنے میں ڈاکٹروں کی ٹیم میں سے ایک ڈاکٹر نے اپنے ہاتھوں سے دستانے اُتارتے ہوئے کمانڈنگ آفیسر سے کہا Congratulation He is out danger ۔۔۔!
پرمود نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں کھولیں اور اُس کے کپکپاتے لبوں سے نکلا،، ماریہ۔۔۔۔۔۔!
���
آزاد بستی نٹی پورہ ویسٹ سرینگر
موبائل نمبر؛9622937142