جلتا گلاب
اوشا کی عمرتقریبا تیس سال کے قریب تھی۔ لیکن دیکھنے میں وہ صرف سترہ یا اٹھارہ برس کی ایک حسینہ معلوم ہوتی تھی ۔ بلا کا حسن اور مچلتی ہوئی جوانی۔ جب وہ چلنے لگتی تو دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ جاتے ۔ ان کی نگا ہیں اس کے گلابی گالوں پر پھسل کر رہ جاتیں۔ رخسار گویا کشمیر کے عنبریں سیب اور ہونٹ گویا دہکتے انگارے۔ اس کی ریشمی زلفیں جب اس کے چہرے پر بکھرنے لگتیں تو یوں محسوس ہونے لگتا کہ اللہ میاں نے دن رات کی گردش گویا اس کے قدموں میں ڈال کر رکھ دی ہے ۔ ستم ظریفی دیکھئے! کہ اس کا خاوند گھنشام جذام کے موزی مرض کا شکار تھا۔ اس کی شکل بگڑ چکی تھی۔ بہت ہی بھدی اور گھناونی ۔ ناک پچک چکی تھی اور انگلیاں مرض کی وجہ سے آدھی سے زیادہ گھل کر گر چکی تھیں ۔ کسی کسی انگلی پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور پاؤں کے زخموں سے پیپ رس رہا تھا۔ چہرے پر بھی زخموں کے گھاؤ Nodules تھے۔ مشکل سے اب لاٹھی کے سہارے چل سکتا تھا۔ اللہ کی مرضی ! جس کو جس طرح چاہتا ہے ، رکھتا ہے۔! یہاں ایک طرف سے حسن اور وفاداری کا مجسمہ اور دوسری طرف سے ایک ایسا بھدا اور بدصورت شخص جس کو دیکھ کر گھن آتی ہے۔ مرض میں مبتلا ہونے سے پہلے گھنشام بھی تو ایک خوش وضع سجیلا اور حسین جوان تھا لیکن بیماری اب انہیں مایوسی اور افلاس کے گھڑے کی طرف دھکیلتی جارہی تھی ۔ دونوں میاں بیوی در در کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے زندگی کی ٹوٹی ہوئی نیا کو کھینچتے جارہے تھے۔ مشکل سے جسم و جان کا رشتہ قائم تھا اور ایک آدھ دن کی روٹی مشکل سے نصیب ہو جاتی تھی۔ تن ڈھاپنے کو کپڑا بھی میسر نہ تھا۔ نامساعد حالات سے نبرد آزما ہوتے وقت کبھی کبھی اوشا کو اپنی عزت خطرے میں محسوس ہونے لگتی ۔ دونوں اس بیماری کا علاج کروانے کی خاطر ایک شہر سے دوسرے شہر ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس جاتے لیکن جب وہ کسی ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جاتے تو وہ گھنشام کا علاج کرنے کے بجائے اوشا کی طرف ہی زیادہ متوجہ ہو جاتے اور اس کے چھریرے جسم کی بناوٹ، نشیب و فراز اور خدو خال میں کھو جاتے، ایسے موقعوں پر اکثر اوشا کا تن بدن کانپنے لگتا۔ وہ جب بھی ڈاکٹروں کے پاس جاتی اس کو اسی طرح کے رویہ کا سامنا کرنا پڑتا۔ حالات سے تنگ آکر او شانے ایک رات اپنے ہی آپ ایک فیصلہ لیا۔ دوسری صبح کو وہ اٹھ کر اس موذی مرض کے ایک ایسے ماہر ڈاکٹر کے پاس پہنچی جو چند ہی روز سے اس شہر میں آیا ہوا تھا۔ وہ ڈاکٹر بہت ہی حقیقت پسند تھا لیکن کچھ لوگ اسے سنکی سمجھتے تھے، کیونکہ حقیقت پسندی اور سچائی ہمیشہ کڑوی ہوتی ہے۔ جو اس دور میں ہر ایسے آدمی کو سنکی بنا دیتی ہے۔ اوشا ڈاکٹر کے پاس جاکر اسے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی! ڈاکٹر صاحب کیا آپ کے پاس ایسی کوئی دوائی…… ہاں بیٹی۔۔۔ ڈاکٹر نے بات کاٹتے ہوئے کہا اور گھنشام پر نظر ڈالی۔ کیوں نہیں، نئی نئی دوائیاں ہیں۔ گھبرانے کی کوئی ضرورت……… نہیں نہیں ڈاکٹر صاحب! اوشا نے کہا! میں ان کا،اپنے خاوند کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ، علاج نہیں کروانا چاہتی ہوں۔ میں ایسی دوائیوں کی تلاش میں ہوں جس سے مجھے بھی یہ بیماری لگ جائے ۔ تا کہ دنیا والوں کی بھوکی نظریں مجھ پر نہ اٹھیں ۔ جن میں آپ سبھی لوگ شامل ہیں! اوشا کے یہ الفاظ کانٹے کی طرح ڈاکٹر کے کلیجے میں چھننے لگے۔ اسے یوں محسوس ہونے لگا، گویا کلینک کی چاروں دیواریں آپس میں مل گئی ہیں اور وہ درمیان میں پھنس کر رہ گیا ہو!
ماں
میں گہری نیند میں سویا ہوا اور خواب دیکھ رہا تھا۔ کچھ اس طرح کہ عزیز، جو ہمارا گھریلو نوکر ہے دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور کہتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب یہ آپ کے لئے ’’بیڈٹی اور آپ کا اخبار ۔ میں چائے کی چسکیاں آہستہ آہستہ لیتے ہوئے اخبار پر سرسری نظر ڈالتا رہا۔ پوری اخبار بھری پڑی تھی کہ آج یوم والدہ ‘‘ یعنی Mother’s Day ہے۔ جلسے ہو رہے ہیں، سیمینار ہو رہے ہیں ، سیاسی لوگوں کے بیانات ہیں، اسکولوں ، کالجوں میں بحث و مباحثے ہور ہے ہیں۔ ہر طبقہ فکر کی شخصیات کے مضامین چھپے ہیں ۔ ہر کسی نے ماں کی عظمت، ماں کی ممتا اور شفقت کی تعریفیں کی ہیں۔ رنگ برنگے فوٹو حسن میں کسی تصویر میں بیٹی ماں کے پیر چوم رہی ہے، کسی میں بچے کو گلے لگایا ہوا دکھایا گیا ہے اور کوئی ماں اپنی بچی کو دعائیں دے رہی ہے۔ میں نے چائے ختم کی، پورا اخبار پڑھا تو دل میں ماں کے لئے اور بھی عزت و عظمت اُبھر آئی ۔
ہاں ! عزیز نے جب چائے اور اخبار لایا تو میں نے اس سے پوچھا کہ عزیز آج کیا تاریخ ہے تو اس نے جواب دیا کہ جناب اخبار پر تاریخ لکھی ہوئی ہے۔ میں نے پڑھا تو تاریخ نو مئی تھی ۔ اخبار پڑھ کر میں نیچے اُترا اور اپنی ماں سے کہا، ماں پتہ ہے آج ” مدرس ڈے ہے یعنی تمام دنیا میں آج ماں کی عظمت اور اہمیت کو اجاگر کرکے ابھارا جاتا ہے۔ لوگوں کو آشنا کیا جاتا ہے کہ آخر ماں کتنی عظیم شخصیت ہے کتنی قابل قدر ہے وغیرہ وغیرہ۔ ماں یہ سب سن کر بڑی خوش ہوئی۔ میں اسے زور سے گلے ملا اس نے بھی مجھ سے پیار کیا۔ میں جذباتی ہو گیا اور میری آنکھیں اشک بار ہوئیں۔ اس نے مجھے ڈھیر ساری دعائیں دیں کہ بیٹا ! اللہ تجھے ایمان دے ، بڑا افسر بنائے، تجھے دونوں جہانوں میں عزت ملے تو کسی کا محتاج نہ رہے، تیرا باغ پھلے پھولے تو ہمارا نام روشن کرے۔ ماں ابھی دعا میں ہی دے رہی تھی کہ دروازے پر عزیز کا کا نے دستک دی، میں ہڑ بڑا تا ہوا جاگ گیا۔ اپنے آپ کو سنبھالا اور اپنے سر کو ادھر اُدھر گھمایا، میں پینے پسینے ہورہا تھا۔ زبان خشک تھی، ہاتھ پیر کانپ رہے تھے۔ میں نے دروازہ کھولا ۔ عزیز کا کا نے میز پر چائے کا کپ اور اخبار بھی رکھا۔ میں نے چائے کی چسکیاں لیں، اخبار پر نظر دوڑائی ۔ عزیز کا کا سے پوچھا آج کیا تاریخ ہے ؟؟ وہ بولے ’’صاحب اخبار آپ کے سامنے ہے اس پر تاریخ لکھی ہوئی ہے۔‘‘میں نے اخبار دیکھا تو تاریخ نو مئی تھی ۔ وہی ’’یوم والدہ ‘‘میں اخبار پڑھتا گیا ایک ایک خبر پڑھی ۔ ساتھ ساتھ مجھے ۹ مئی ۱۹۶۷ء کا دن یاد آتا گیا بالکل جیسے کوئی کیسٹ چل رہی ہو۔ جب میں نے پورا اخبار پڑھ کرختم کر ڈالا تو میں ہڑ بڑاتا ہوا اپنے کمرے سے باہر نکل کر تمام اہل خانہ کے کمروں پر نظر ڈالتا ہوا نیچے لان میں آیا۔ وہاں کرسی لگی ہوئی تھی۔ میں تھکا تھکا سا کرسی پر بیٹھ گیا۔ ہاتھ میں چائے کا کپ کپکپاہٹ کی وجہ ہے چھلک رہا تھا۔ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد میں قدرے سنبھلا ۔ ماضی کی کھڑ کی کُھلی ، ایک ایک بات یاد آتی گئی، اپنی یاداشت کے اوراق سے ایک ایک بات ٹک کرتا گیا۔اللہ نے عزت دی، صحت دی، رتبہ دیا، بیوی ، بچے دئے ، وہ سب کچھ دیا جس کی ماں نے دعا دی تھی لیکن ایک چیز جس کی کمی کھٹکتی تھی ، وہ ماں کی غیر موجودگی تھی جس کی دعاؤں کا یہ سب ثمر تھا۔
ماں کی عظمت کو حضور پاک نے آج سے ۱۴۰۰ سال قبل واضح فرمایا ہے۔ حدیث اس طرح ہے۔ ایک شخص نے آنحضور سے دریافت کیا کہ
بہترین رفاقت (حُسنِ سلوک ) کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ نے جواب دیا ” تیری ماں سائل نے پھر پوچھا آپ نے فرمایا تیری ماں . سائل نے پھر پوچھا آپ نے فرمایا تیری ماں سائل نے چوتھی مرتبہ پھر دریافت کیا آپ نے فرمایا ”تیرا باپ (متفق علیہ: مشکواۃ
حدیث ۴۹۱۱) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حسن سلوک میں ماں کا حق باپ سے بہت زیادہ ہے۔
ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
بھدرواہ،حال سرینگر
موبائل نمبر؛8825051001