مختار احمد قریشی
آج پھر گھر میں خاموشی تھی۔ شازیہ اپنے کمرے میں بند بیٹھی تھی، چہرہ اداس اور آنکھوں میں نمی کی ہلکی سی جھلک۔ اس کا شوہر فہیم، کمرے میں چپ چاپ بیٹھا تھا۔نظریں ٹی وی کی اسکرین پر تھیں لیکن دھیان کہیں اور تھا۔ کل رات کی بحث نے دونوں کے دلوں میں دوری پیدا کر دی تھی۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا مگر اس بار کی ناراضگی میں ایک الگ ہی شدت تھی۔
شازیہ کے دل میں ایک عجیب سی بےچینی تھی، دل چاہ رہا تھا کہ فہیم آ کر ایک بار اسے منالے لیکن اس کی انا بیچ میں دیوار بنی ہوئی تھی۔ “میں کیوں پہلے معافی مانگوں؟” اس نے خود سے کہا۔ ادھر فہیم بھی سوچ رہا تھا کہ کل کی بات زیادہ سنجیدہ نہیں تھی، بس یونہی جذبات میں کہہ دیا، مگر پھر بھی اُسے قدم بڑھانے میں تذبذب ہو رہا تھا۔
شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ بچوں نے اسکول سے آ کر ماں باپ کے چہروں پر بکھری ہوئی ناراضگی کی لکیریں دیکھ لیں اور دبے قدموں اپنے کمروں کی طرف چلے گئے۔ شازیہ نے ایک نظر فہیم پر ڈالی جو اب بھی اسی حالت میں بیٹھا تھا۔
رات کا کھانا خاموشی کے عالم میں کھایا گیا، کوئی بات چیت نہ ہوئی۔ دونوں کی خاموشی دل کی ناراضگی کو مزید بڑھا رہی تھی۔ رات دیر گئے شازیہ کمرے میں واپس آئی اور بستر پر لیٹ گئی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں لیکن نیند کوسوں دور تھی۔
دوسری طرف فہیم بھی دیر تک جاگتا رہا۔ وہ جانتا تھا کہ شازیہ کو منانا آسان نہیں ہوگا لیکن ایک بات اسے سمجھ آ چکی تھی کہ یہ ناراضگی ان کے رشتے کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ آخر کار، اس نے اپنے دل کی بات مان کر قدم بڑھانے کا فیصلہ کیا۔
اگلی صبح، شازیہ کی آنکھ کھلی تو وہ حیران رہ گئی۔ اس کے سامنے ایک چھوٹا سا گلدان تھا جس میں فہیم نے اس کے پسندیدہ گلاب رکھے تھے۔ ایک چھوٹی سی چھٹی پر لکھا تھا: “مجھے معاف کر دو، شازیہ۔ میں تمہاری ناراضگی کا بوجھ نہیں سہہ سکتا۔”
شازیہ کے دل میں ایک پل کے لیے خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس نے گلاب کو ہاتھ میں لیا اور ایک گہری سانس لی، جیسے وہ سب بوجھ ایک ہی پل میں ہلکا ہو گیا ہو۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی کچن میں پہنچی، جہاں فہیم ناشتہ بنانے میں مصروف تھا۔ شازیہ نے فہیم کی طرف دیکھا اور ایک مسکراہٹ کے ساتھ کہا، “اچھا، یہ ناشتہ میرے لیے ہے؟”
فہیم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، “ہاں، اور معافی بھی۔”
شازیہ نے ایک لمحے کے لیے فہیم کی آنکھوں میں دیکھا اور اس کی آنکھوں میں چھپی سچائی نے اسے پگھلا دیا۔ اس نے ایک قدم آگے بڑھایا اور فہیم کے قریب جا کر کہا، “چلو، اس بار کی ناراضگی کو بھول جاتے ہیں، لیکن آئندہ میں یہ نہیں سنوں گی کہ تم نے میری باتوں کو نظر انداز کیا۔”
فہیم نے سر ہلاتے ہوئے کہا، “یہ میرا وعدہ ہے، شازیہ۔ آئندہ تمہاری ہر بات کا خیال رکھوں گا۔”
یوں ایک چھوٹے سے گلدان نے ان کی ناراضگی کے بادلوں کو چیر دیا اور ان کے رشتے میں پھر سے محبت اور خوشی کی روشنی بھر دی۔ ناراضگی کبھی کبھار رشتوں میں آ جاتی ہے، مگر اس کا حل انا کو توڑ کر ایک دوسرے کے قریب آنا ہے۔
اور اس دن، فہیم اور شازیہ نے یہ سیکھا کہ ناراضگی وقتی ہوتی ہے، لیکن محبت ہمیشہ کے لئے۔
���
موبائل نمبر؛8082403001
ای میل؛[email protected]