Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

آئینہ افسانہ

Mir Ajaz
Last updated: October 12, 2024 11:16 pm
Mir Ajaz
Share
13 Min Read
SHARE

راجہ یوسف

’’سمجھتے کیوں نہیں۔ تم بندر ہو ‘‘
’’لیکن مجھے تو تم بندر دکھائی دے رہے ہو؟‘‘
’’ میں ۔۔۔؟ کیا بکواس ہے یہ ۔۔۔؟؟؟ بندر تم ہو۔‘‘
’’ یہ بکواس نہیں۔ تم واقعی بندر ہو۔کبھی تواریخ کی بھی ورق گردانی کیا کرو ۔ ‘‘
’’ یہ کونسی کوئی پرانی تواریخ ہے۔ کل کی بات ہے یہ۔ جب انیسویں صدی میں ہم انسانوں کو بندر کہنے والا آگیا تھا۔‘‘
’’کیوں ؟ اس پہلے کسی نے نہیں بتایا کیا؟ کتنے سارے آئے اور یہ کہہ چلے گئے کہ چمپینزی تمہارا خاص رشتہ دار ہے۔ ستر لاکھ برس پہلے تمہارا اور چمپنزی کا جد امجد ایک ہی تھا ۔‘‘
’’ ھاھاھاااااا ۔ تم بھی نا ۔ کس تواریخ پہ بھروسہ کرتے ہو اور ہاں تم خود کو بندر مان لوگے تو مجھے کیا اعتراض ہے۔ ‘‘
’’ میں بندر ہوں یا تم بندر ہو ۔ سچ تم بول رہے ہو یا میں بول رہا ہوں۔ اس کا فیصلہ کون کرے گا ‘‘
’’اس کا فیصلہ تو سرپنج کرے گا ‘‘
’’سرپنج ؟؟؟ سرپنج بولے توووو۔‘‘
’’سر پنج ، فیصلہ کرنے والا ۔۔۔ جو یہ ثابت کرے کہ تم بندر ہو ‘‘
’’ یہ کیا بندر بندر لگا رکھا ہے۔ تیرا منہ نوچ لوں گا ابھی۔‘‘
’’ ماننا پڑے گا ۔ اور تمہاری یہ حرکت بھی بتا دیتی ہے کہ اصل میں تم بندر ہو۔‘‘
’’اب زیادہ بولنا بند کر اور یہ بتا کس سرپنج کے پاس جانا ہے۔ انسان والے سرپنج کے پاس یا بندر والے سرپنج کے پاس۔‘‘
’’تیرے لئے تو بندر والاسرپنج ہی صحیح رہے گا‘‘
’’ ایسا کیوں۔ بھلا انسان والاسرپنج کیوں نہیں؟‘‘
’’ کیونکہ تم بندر ہو ۔ اس لئے بندر والا سر پنج ہی ہونا چاہئے۔‘‘
’’ لیکن میں تو خود کو انسان مانتا ہوں ۔ یہ تم ہو جو مجھے بندر سمجھتا ہے۔ میں تمہاری بات پر یقین کیوں کروں؟‘‘
’’ نہ کر ۔۔ ۔ لیکن میں نے تمہیں تمہاری حرکات و سکنات سے پہچان لیا ہے۔۔۔ تم بندر ہی ہو۔‘‘
’’ میں تمہاری کیوں مانوں۔ اورہاں تم ۔۔۔ تم نقل بھی بندر کی طرح اتارتے ہو۔ تم توصاف بندر دکھائی دے رہے ہو۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے ۔ انسان والے سرپنج کے پاس جاتے ہیں۔ لیکن میں کہے دیتا ہوں ۔ وہ بھی تمہیں بندر ہی کہے گا۔‘‘
’’ اور میں کہتا ہوں کہ وہ تم کو ہی بندر کہہ دے گا۔ دیکھ لو۔‘‘
’’ چلو دیکھ لیتے ہیں۔‘‘
’’ ارے توبہ ۔۔۔ یہاں تو بہت بھیڑ لگی ہے لیکن یہ سب بھاگ کیوں رہے ہیں۔ یہ کہاں لے آئے تم مجھے۔‘‘
’’ یہ انسانوں کے سرپنج کی حویلی ہے۔ وہ دیکھو دروازے پر چوکیدار کھڑا ہے۔۔۔چوکیدار جی ذرا سرپنج سے ملوا دیجئے۔‘‘
’’ دیکھتے نہیں ۔ کتنوں کو بھگا رہے ہیں ہم۔ ‘‘
’’ وہ تو دیکھ ہی رہے ہیں۔ بس ہمیں ایک بار ملوا دو ۔ اور ہم اپنی۔۔۔‘‘
’’ بس بس تم چپ ہی رہو تو بہتر ہے۔ میں تمہیں دیکھ کے سمجھ گیا ہوں کہ تمہارا مسئلہ کیا ہے ۔۔۔ یہیں رکو۔۔۔‘‘
’’ سر پنج جی ۔ باہراور دو بندر آگئے ہیں ۔ آپ سے ملنے کی ضد کر رہے ہیں۔ ‘‘
’’ یہ تم کیسے چوکیدار ہو جوتم ان کو روک نہیں رہے ہو۔ بھلا بندروں کو سر پنج سے کیا کام۔‘‘
’’ وہی تو میں نے بھی بولا تھا۔ لیکن وہ آپ سے فیصلہ مانگتے ہیں۔‘‘
’’ فیصلہ ۔۔۔؟؟؟ کیسا فیصلہ ‘‘
’’وہ خود کو توانسان کہتے ہیں لیکن ایک دوسرے کو بندر سمجھتے ہیں۔‘‘
’’ یہ کیسا کل یگ آگیا ہے۔ اب بندر بھی خود کو انسان سمجھنے لگے ہیں۔‘‘
’’ لیجئے سرپنج جی ۔وہ دونوں اندر بھی آگئے۔ ‘‘
’’ چوکیدار ان کو بولو ۔ اپنی اصل بنیاد پر جائو تو سمجھ جائوگے کہ حیاتی انواع کا جد امجد ایک ہی تھا۔‘‘
’’ لو جی ۔اب یہ سرپنج بھی ہمیں ساڑھے تین ارب سال پیچھے لے کے جا رہا ہے۔ جد امجد(لوکا) کی بات کرنے لگا ہے۔ اب سمندر، بھاب اور ہوائوں کا درس دینا شروع کرے گا۔ابھی حیاتی انواع اقسام میں آپسی رشتہ داری نکال کر لائے گا۔‘‘
’’ آہستہ بول ، مروائے گا کیا۔۔۔ سر ررر ۔۔۔ سرپنج جی ہماری فریاد سنئے۔‘‘
’’ میں بندروں کی کیا فریاد سنوں۔ تم اپنے سرپنج کے پاس جائو نا ۔ میرے پاس کیا لینے آئے ہو۔‘‘
’’ ذرا کان ادھر لائو۔ تم کیا سمجھے۔‘‘
’’ ارے میں سمجھ گیا۔ یہ سرپنج ہم دونوں کو بندر سمجھتا ہے۔‘‘
’’ وہی تو ۔ اب اس کی کیا سنیں گے ۔۔۔ ارے دیکھ ، یہ سرپنج ہمیں دھتکار کیوں رہا ہے۔ ‘‘
’’ وہ دیکھ مشٹنڈا چوکیدار بھی ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔ شاید دھکے دے کر ہم کو یہاں سے نکال دے گا۔‘‘
’’ اس کے تیور تو یہی بتا رہے ہیں۔ سرپنج بھی خونخوار نظروں سے ہمیں گھور رہا ہے۔ کہیں سچ مچ ہی مار نہ دیں۔‘‘
’’ تو کیا دیکھتے ہو۔ چلو بھاگووو ۔۔۔ ارے بھاگو یہاں سے۔ ‘‘
’’ اوووہ ۔۔۔ خیریت گزری سرپنج اور چوکیدار کے ہاتھوں سے نکل آئے۔ ‘‘
’’ ہاں اب کوئی بات نہیں۔ ہم تو ان کی بستی سے ہی نکل آئے۔‘‘
’’ میری تو بھاگتے بھاگتے سانس پھول گئی ۔‘‘
’’ اچھا ہوا بھائی ۔ جان بچی تو لاکھوں پائے۔‘‘
’’ یہ ۔۔۔ تم مجھے بھائی کیوں بولتے ہو۔ کہاں تم بندر اور کہاں میں انسان ۔ پھر میں تیرا بھائی کیسا؟‘‘
’’ بندر تم اور تیرا سارا خاندان بندر ۔۔۔ مجھے پھر بندر بولا تو مجھ سے براکوئی نہیں ہوگا۔ ‘‘
’’ تو چل نا سرپنج کے پاس ۔‘‘
’’ ہاں اب تو بندر والا سرپنج ہی رہ گیاہے۔ وہی فیصلہ کرے گا۔ چل ‘‘
’’ لیکن وہاں تم اپنی کھچ کھچ بند ہی رکھنا۔ نہیں تو چوکیدار کی طرح وہاں بھی کوئی دھکے دے کر نکال دے گا۔‘‘
’’ یہ کھچ کھچ تم ہی کرتے ہو۔ بندروں کی طرح۔۔۔ میں تو بات کرتا ہوں ۔ انسانوں کی طرح۔‘‘
’’ ہاں ہاں ۔۔۔ دیکھا ہے میںنے۔ اب خاموش ہو جائو ۔ سرپنج کے گھر پہنچ گئے ہیں۔‘‘
’’ ارے یہاں تو بندروں کی پوری پلٹن بیٹھی ہے ۔‘‘
ارے ے ے ہاں سچی میں ۔۔۔ کیا مسئلہ ہے۔ یہ اتنے بندر کیوں آئے ہوئے ہیں۔‘‘
’’وہ دیکھو ۔ سر پنج غصے میں ہے۔سب کو جھڑک رہا ہے‘‘
’’ اب چپ بھی ہو جا ۔ سرپنج کی سنتے ہیں۔‘‘
’’ ارے میں کتنی بار کہوں میں بندروں کا سرپنج ہوں۔ انسانوں کا نہیں ۔ تین دن سے پریشان کئے ہوئے ہو۔ ایک آتا ہے دوسرا جاتا ہے۔ تیسرا ابھی کھڑا ہے چوتھا بیٹھ جاتا ہے۔۔۔یہ لو دو اور کھڑے ہوگئے۔ ارے بابا کیوں پریشان کررہے ہو مجھے۔ ہماری کوئی آپسی رشتہ داری نہیں ہے۔ ہم ویسے بھی تم انسانوں سے خوف زدہ ہیں۔ معلوم نہیں کب تمہاری نیت میں کھوٹ آجائے اور ہم پر حملہ آور ہوجائو یا ہم کو پکڑ کر ہی لے جائو ۔ پھر تم ڈگڈگی بجائو اور ہم ساری عمر ناچتے رہیں۔۔ ۔ارے بھئی جائو ۔۔۔ میری انسانوں سے توبہ۔ کان پکڑتا ہوں میں تم سے۔ جائو جائو ۔ نہیں تو سب کو کاٹ کاٹ کر بھگا دوں گا۔ ‘‘
’’چل بھائی ۔ اب یہاں بھی مار کھائیں کیا۔۔۔ یہ دیکھ ۔سبھی لوگ تتر بتر ہو رہے ہیں۔ جس کے جس طرف سینگ سماں رہے ہیں اس طرف بھاگ رہا ہے۔ کہیں ہمیں بھی لینے کے دینے نہ پڑ جائیں ۔‘‘
’’ ہاں ہاں چلو۔۔۔ ارے بھاگو ۔۔۔ بھائی جلدی جلدی بھاگو ۔
’’ اب رک بھی جا ۔ ہم خطرے سے باہر آگئے ہیں؟ شکر ہے اس بندر والے سرپنج نے primordial soup پر لیکچر دینا شروع نہ کیا‘ ‘
’’حیاتیاتی ارتقا کی ابتدا primordial soup کی مرہون منت ہے۔ اس میں مبالغہ کیا ہے۔ ‘‘
’’ اب تم اپنی لیکچر بازی رہنے دے۔ ویسے بھی سانس پھول رہی ہے۔‘‘
’’ تم بھی نا۔۔۔ بس تھوڑا کیابھاگتے ہیں کہ تمہاری سانس پھول جاتی ہے۔‘‘
’’ سانس کیوں نہ پھول جائے۔ تمہاری طرح بندر نہیں ہوںکہ اچھلتا کود تا پھروں اور سانس بھی نہ پھولے ۔‘‘
’’ اب بس بھی کرو۔ ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ بندر تم ہو یا کہ میں ۔‘‘
’’ یہی تو رونا ہے۔ انسان والا سرپنج ہمیں بندر سمجھتا ہے اور بندر والا سرپنج انسان ۔ اب ہم جائیں تو جائیں کہاں۔‘‘
’’ انسان اب سچ نہیں بولتا‘‘
’’ بندر بھی تو نقل ہی اتارتا ہے بس‘‘
’’تو پھر کیا کریں ؟‘‘
’’ کوئی اور سرپنج دیکھ لیں گے۔‘‘
’’ سبھی ایسے ہی نکلیں گے۔ اب کسی پر بھروسہ نہیں رہا۔۔۔
’’میری مانوں تو شیر والے سرپنج کے پاس جائیں گے ‘‘
’’ اووو ۔نہیں بابا ۔ شیر کے پاس جائیں گے تو بے وجہ مارے جائیں گے۔ ‘‘
’’ ارے ۔۔۔ ایسے کیسے مارے گا۔ وہ تو بادشاہ ہے ۔۔۔ ساری دنیا کا بادشاہ۔ اس کا انصاف صحیح ہوگا۔ ‘‘
’’ بادشاہ ۔۔۔؟ وہ بھی پوری دنیا کا ۔۔۔؟؟ کیسا بادشاہ ۔۔۔؟؟؟ ہووووو‘‘
’’ اتنی لمبی سانس کیوں چھوڑی۔‘‘
’’ ارے ۔۔۔ میں بھی بھلکڑ ہوں۔تمہارے بادشاہ سے یاد آیا ۔اس کے لئے کوئی بادشاہ یا سرپنج نہیں چاہئے ، بلکہ کوئی خضر یا کوئی شیخ چاہئے ۔ چل آج تمہیں کائنات کے اصل سے روشناس کرواہی دوں۔تمہیں تم سے ملاوا ہی دوں۔‘‘
’’ اچھا ااا ۔۔۔ کون ہے وہ ؟ پھر کوئی سر پنج یا بادشاہ ؟؟؟‘‘
’’ نہیں ۔ وہ کوئی سرپنج نہیں اور نہ ہی کوئی بادشاہ ۔‘‘
’’ تو پھر وہ فیصلہ کیسے کرے گا۔ ‘‘
’’بس تم چلو اور دیکھتے جائو۔۔۔‘‘
’’ یہ کہاں لایا مجھے ۔ یہاں تو روشنی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ کوئی بندر ، نہ کوئی انسان ۔ کہاں ہیں ہم‘‘
’’ خاموشی سے بیٹھ اور نظریں جھکائے رکھ۔‘‘
’’ میری نظریں تو اٹھ ہی نہیں رہی ہیں۔‘‘
’’یہ آئینے کی چکا چوند ہے۔ نظریں ملانا مشکل ہے۔‘‘
’’ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ ‘‘
’’ خود کو پہچاننا ہے تو خاموشی اختیار کر۔‘‘
’’ یہاں تو پہلے ہی سناٹا ہے۔ کوئی آواز نہیں، کوئی آہٹ نہیں۔‘‘
’’ یہاں پہنچ کر رفتار اور گفتار تھم جاتے ہیں۔‘‘
’’آنکھوں کو خیرہ کر دینی والی روشنی بھی ماند پڑ رہی ہے۔ چارسو مدھم مدھم چاندنی پھیل رہی ہے۔ ‘‘
’’ تم دونوں آگے آجائو ۔ ‘‘
’’ اب آگے بھی بڑھو ‘‘
’’ بڑھ رہا ہوں۔ لیکن میں تھر تھر کانپ بھی رہا ہوں ‘‘
’’ تم دونوں غور سے میری آنکھوں میں دیکھ لو۔ ‘‘
’’ پرررر ۔۔۔ایسا کیوں ؟‘‘
’’ آنکھیں کبھی جھوٹ نہیں بولتیں ۔۔۔ بس تم میری آنکھوں میں جھانک لو اور اپنے آپ کو دیکھ لو۔‘‘
پھر انہوں نے آئینہء خویش میں جھانک لیا،
ایک پل میں ہزاروں لاکھوں سال طئے کئے،
اور عالمِ حیرت میں آکر ڈوب گئے۔
���
اسلا م آباد،اننت ناگ،موبائل نمبر؛9419734234

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
ملک بھر میں عیدالاضحیٰ جوش و خروش سے منائی گئی
برصغیر
جامع مسجد میں نماز عید کی اجازت نہ دئے جانے پر دکھ ہے، حکومت کو عوام پر بھروسہ کرنا چاہئے:وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ
تازہ ترین
جموں وکشمیر میں عید الالضحیٰ کی تقریب سعید مذہبی جوش و خروش کے ساتھ منائی گئی
تازہ ترین
تاج محل سے امن کی دعا، شاہی جامع مسجد میں ادا کی گئی نماز عیدالاضحیٰ
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

افسانچے

May 31, 2025
ادب نامافسانے

بے موسم محبت افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

قربانی افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

آئینہ اور ہاشم افسانچہ

May 31, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?