رتن سنگھ کنول پہلگامی
منگو نے چپکے سے گیٹ کا چھوٹا پٹ کھولا اور باہر نکل گیا۔
وہ دھان کے کھیتوں کے بیچ سے گذرنےوالی سڑک سے چلتا ہوا کھیل کے میدان میں پہنچ گیا ۔ کھیل کے میدان میں بچے مل کر مختلف کھیل کھیل رہے تھے ۔
منگو منھ لٹکائے ایک کونے میں بیٹھ کر بسورنے لگا ۔کوئی بھی لڑکا اُس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا اور نہ ہی کوئی اُسکے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا ۔ کچھ دن پہلے لڑکوں سے اُس کا جھگڑا ہوا تھا ۔لڑکوں نے اُسے الگ تھلگ کر دیا تھا ۔ وہ لڑکوں سے سوری (sorry) بھی نہیں کہہ سکا تھا ۔ وجہ یہ تھی کہ منگو ایک شرارتی لڑکا تھا ۔ بات بات پر جھگڑا مول لیتا تھا ۔ اُوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا ۔اپنی بات منوانے کیلئے اَڑ جاتا ۔کرکٹ کھیلنا ہو تو پہلے بیٹنگ کرنے کی ضد کرتا۔ گُلی ڈنڈا کھیلتے وقت اگر آوٹ ہو جاتا تو نہیں مانتا ۔ جھولے پر چڑھ جاتا تو کسی اور کو چڑھنے کا موقع ہی نہ دیتا۔
منگو سے ہر کوئی خفا تھا۔ سب نے مل کر صلاح کی اور منگو سے’’ کٹی‘‘ کردی ۔کوئی لڑکا یا لڑکی اُس سے کے ساتھ کھیلنے کے لئے اب راضی نہیں تھا ۔
منگو جہاں بیٹھا تھا اُس کے آس پاس کوئی نہیں تھا ۔ وہ تنہا محسوس کر رہا تھا ۔ بہت اُداس تھا ۔ اب کی بار اگر منگو شرارت کرتا تو اُس کی پٹائی ہو جاتی ۔ یہ بات بھی وہ جان چکا تھا ۔بس سبک کر بیٹھا دیکھ رہا تھا ۔آنسو کی ایک موٹی سی بوند نکل کر اُسکی ناک پر سے لُڑھک گئی ۔پھر ڈھیلے پڑے ہونٹوں سے مُنہ میں چلی گئی۔ منگو نے پچ سے تھوک دیا۔
باقی سبھی لڑکے لڑکیاں کھیلنے میں محو تھے ۔
وقت گزرتا جا رہا تھا ۔سورج مغرب کی جانب ‘ پہاڑوں میں ‘ڈوب گیا ۔پرندے گھونسلوں میں واپس لوٹ آئے ۔
کِسان اور مزدور بھی کھیتوں کھلیانوں سے کام ختم کر کے واپس آگئے۔
بچوں کو اندھیرے کا احساس ہوا ‘اور وہ سامان سمیٹنے لگے ۔ منگو اُن سے پہلے ہی کھیل کا میدان چھوڑ کرنکل آیا ۔ وہ اب بہت غصے میں تھا ۔ نفرت کی آگ میں جل رہا تھا ۔ اپنے ساتھیوں سے انتقام لینے کی تراکیب سوچ رہا تھا۔
اُس کے من میں آیا اور اُس نے جگہ جگہ دبے ہوئے نوکیلے پتھروں کواُکھاڑ کر کھڑا کر دیا ۔کوئی کانٹے دار ٹہنی ملی تو اُس کو بھی بیچ سڑک کے پھینک دیا ۔ اتنا ہی نہیں ، دھان کی ہری بھری ملائم بالیوں کو بھی جگہ جگہ، غصے میں، نوچ ڈالا !
گھر پہنچا تو اندھیرے کی چادر سارے گانوں پر تن چکی تھی ۔ منگو چُپ چاپ ماں کے پاس جاکر بیٹھ گیا ۔ باہر کی ہر صدا کو کان لگا کر سننے لگا کہ کون گرے گا ،کس کوچوٹ آئیگی ، چیکھے گا ،روئے گا ! ۔
وقت گزرتا گیا لیکن کسی کے رونے کی کوئی آواز نہیں آئی ۔کوئی چیکھا نہیں۔
کچھ دیر کے بعد صدر دروازے پہ کسی کے دستک دینے کی آواذ آئی۔ کوئی زور زور سے دروازہ پیٹ رہا تھا ۔ منگو کی ماں بھاگ کر گئی۔ دروازہ کھولا اور لڑ کھڑا کر گر پڑی ۔ منگو کا پاپا ننگے سر، دروازے پہ کھڑا کانپ رہا تھا ۔ پگڑی ہاتھ میں تھی ۔ وہ لہو لہان ہو چُکا تھا۔ جگہ جگہ زخم تھے ۔ اُس کی سکوٹی کھڑے نوکیلے پتھروں سے ٹکرا کر، قابو سے باہر ہو کر گر گئی تھی ۔منگو کا پاپا بھی گر کر بُری طرح زخمی ہو چکا تھا ۔ اُس نے شہر سے منگو کے لئے جو لکڑیٍ کا بیٹ لایا تھا وہ بھی ٹوٹ گیا تھا ! یہ سب دیکھ کر منگو زور زور سے رونے لگا۔ وہ اب اپنےکئے پر پچھتا رہا تھا ۔
���
پہلگام۔ اننت ناگ،موبائل نمبر؛7006803106