حمید اللہ حمیدـؔ
کوئی کشمیرعی شاعر اپنی حیات میں اتنی مقبولیت حاصل نہ کرسکا جتنی شہرت اور مقبولیت پیر زادہ غلام احمد مہجورؔ نے حاصل کی۔یہ ان کی شخصیت کی عظمت تھی کہ ان کی قابلیت کی داد ان کو زندگی میں ہی ملی۔مہجور ؔ کی شاعری زبان زد عام ہوگئی کہ وہ کشمیری زبان کے عہد ساز شاعر مانے گئے۔مہجورؔ کی شاعری جہاں رومانوی فطری ماحول اور کشمیری رعنائوں کی عکاسی کرتا ہے ۔ان میں انقلابی گیت اور وطن کی محبت کے نغمے دورو دیورا سے ٹکراتے ہیں۔ان کی شاعری جاگیردارانہ نظام کے خلاف گونجی آوراز ہے اور آزادی انسانیت کا پیغام دیتی ہے۔ان کے گیوتوں میں جوش ،ولولہ،اضطراب ،جنون اور نشاط ہے۔مہجورؔ نے اپنی شاعری میں کشمیریت کی بھر پور ترجمانی کی ہے اس لئے وہ قومی شاعر کی حثیت سے تسلیم کئے گئے اور انہیں ’’شاعر کشمیر‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔
کشمیری زبان شعر و ادب میں غلام احمد مہجور ؔ کی انفرادیت ،عظمت اور فن کااعتراف رہے گا کہ وہ قومی شاعر ہیں ۔ان کی پر جوش اور ولولہ انگیز شاعری پریشانی اور مایوسی میں دوبے ہوئے انسان کو حوصلہ اور ہمت بخش دیتی ہے۔انہوں نے یگانیت اور رواداری کے گیتوں کے ذریعے آپسی محبت کا درس دیا ،تحریک آزادی کی ترجمانی کی۔؎
نیائے تراوِو مائے تھاوِو پانہ وأنی
(جھگڑے چھوڑ دو آپس میں میل ملاپ و محبت رکھو)
پؤز محبت بأگراوِو پانہ وأنی
(سچی محبت کو آپس میں بانٹ دو)
مہجورؔ نے شاعری میں مروجہ لب و لہجہ کو اختیارکیا ۔انسانیت ،مردانگی ،لطافت ،نزاکت ،نیاز مندی اور انکساری کے ساتھ ساتھ ولولہ انگیزی ،خود داری اور جوشیلے پن کو اپنے گیتوں میں اس طرح پیش کیا کہ ہر طرف ان کے نغمے گونج اٹھے۔
ولوہا باغوانو نو بہارک شان پیدا کر
(آجا اے) باغبان (باغ کے رکھوالے) نئے بہار کا شان پیدا کر)
پھولن گُل گتھ کَرن بُلبل تِتھی سامان پیدا کر
(کھِل اُٹھے پھول کہ رقص کریں بُلبل ایسے سامان پیدا کر)
مہجورؔکی ایک مشہور پیاری نظم ’’گریس کور‘‘(کسان کی بیٹی) ہے۔کھیتوں میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرنے والی سیدھی سادی محنت کش کرداری کی صورت میں لڑکی کو خوبصورت انداز میں پیش کرکے کشمیری نظم میں شاعری کو نئی وسعت بخش دی ہے۔؎
پوشہ ونہِ باغچ پوشہِ گوندرے
(پھولوں کے جنگل کے باغ کی گلدستہ)
گریٰس کو‘ر نازنین سوندریے
(کسان کی بیٹی نازنین سندر (خوبصورت ہو)
کشمیر کے نظاروں،کوہساروں ،برف پوش پہاڑوں ،باغوں ،مرغزاروں اور اچھلتی کودتی ندیوں ،آبشاروں و چشموں کو اپنے گانوں میں پیش کرکے مہجورؔ نے وطن عزیز کی خوبصورت انداز میں منظر کشی کی ہے۔
خوش گفتار ،خوش پوس ،خوش مزاج اور خوشنویس غلام احمد مہجور کے شعرہ آہ و فغان کیساتھ کونوں میں راس گھولتے ہیں ،دل کو چھونے والے نغمے تراوت بخشتے ہیں ۔؎
ہا گلُو توہہ مَا سہ وُچھہ وُن یار میو‘ن
(اے پھولو تونے تو میرے یار کومت دیکھا)
بُلبلو توہی ژھانڈتون دِلدار میو‘ن
(بلبلو تم ہی ڈھونڈو تو میرے دِلدار کو)
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیری شاعری کا موجودہ دور جو بیسوی صدی سے شروع ہوتا ہے ،پیرزادہ غلام احمد مہجورؔ کی شاعری سے ہی شورع ہوتا ہے۔اس شاعر نے کشمیر ی شاعری کو روایتی تشبییات اورمحاورات سے آزاد کرکے آسان کشمیری اصل کشمیری خیال کا ہمنواہ بنادیا ۔اس نے صوفی شعراء سے ہٹ کر شاعری کرکے اسے حقایق اور زندگی کی اصل صورت میں پیش کیا۔اس نے نظموں میں نہ صرف ترقی پسند خیالات کو پیش کیا ہبلکہ فطرت کی رعنائیوں اور جلوہ گری کی خوشنما عکاسی کی ۔؎
باغ، نشاطِ کے گُلو، نَاز کراَن کراَن ولو
(نشاط باغ کے پھولو۔ ناز کرتے کرتے آجائو)
باغ نشاطِ کے گلو۔ سبق پراَن پراَن
(نشاط باغ کے پھولو۔ سبق پڑھتے پڑھتے آئو)
(نشاط باغ کے پھولو۔ سبق پڑھتے پڑھتے آئو)
1947کو شخصی حکومت سے نجات کے بعد عوامی دور اور آزادی سے لوگوں کو یہ امیدیں وابستہ تھیں کہ ان کو راحت اور سہولیات میسر ہونگیں مگر کہیں کہیں ناانصافی دیکھنے کو ملی تو مہجورؔ نے طنزیہ شاعری سے دل کی بھڑاس نکالی ۔؎
یہ آزأدی چھیٔ کو کراہ جان۔ سونہ سندی ٹھو‘ل کیہنہ تراوان
(یہ آزادی اچھی مرغی ہے۔ سونے کے چند انڈے دیتی ہے)
تمے کیہنہ ٹھول ہیتھ وونی پیٹھ مژبیئہ پرایہ آزادی
دوہی کچھ انڈے لے کر اب چھُپ گھپ کر کے آزادی بیٹھ گئی ہے
مہجور ؔ ہی وہ پہلے شاعر تھے جن کے گیت عام لوگگاتے ،کھیت کھلیانوں ،شادی بیاہ اور اہم تقاریب پر ٹولیوں کی سورت میں ساز اور آواز کے ساتھ نغمے گونج اٹھتے ۔اس کا کلام 1930ء سے پہلے شائع ہوتا رہا۔گرامو فون پر ریکارڈ ہوتا رہا ۔سینکروں کی تعداد میں کتابیں چھپیں کہ دوسرے کشمیری شاعر کا کلام اتنی بار اور اتنے ایڈیشنوں میں نہیں چھپا۔ہونہار ،محقیق اور انقلابی شاعر عبدالاحد آزادؔ نے 1948ء سے پہلے لکھی کتاب ’’کشمیری زبان اور شاعری ‘‘ میں غلام احمد مہجورؔ کی زندگی اور شاعری پر سب سے پہلے تفصیل سے روشنی ڈالی جو 1961ء میں منظر عام پر آگئی۔
جامع شخصیت کے مالک مہجورؔ نے نہ صرف حس بند شاعر تھے ،بلکہ مورخ ،سخن قلم ،صحافی اور خوشنویس بھی۔اپنے زمانے کی اہم شخسیات سے اس کا تعلق رہا۔ڈاکٹر سر محمد اقبال سے وہ تاریخ ادبیات کشمیر کے متعلق خط و کتابت کرتے رہے۔رابند ناتھ ٹیگور کی فرمایش پر حبہ خاتون کی زندگی کے حالات اور گیت بھیجتے رہے۔پروفیسر مجیب کو حبہ خاتون ڈرامہ کیلئے مسودہ فراہم کرتے ہرے ،محمد امین فوق ؔ کو تاریخ اقوام کشمیر کتاب کے سلسلے میں معلومات فراہم کیں ۔کشمیر کے معروف عوامی رہنائوں کے ساتھ قربت رہی جو اس کے فن اور شاعری سے بے حد متاثر تھے۔ہمعصر سعرا و ادباء کے ساتھ گہرے تعلقات تھے ،فلم ایکٹر بلاج ساہنی اور دیوندرتیارتھی اسکے گرویدہ تھے۔مہجورؔ صاحب کو کشمیری مرتب کرنے اور مخطوطات جمع کرنے کا بڑا شوق تھا۔ان کے فلمی سنخوں میں تاریض کشمیر کا اردو ترجمہ پایا گیاکہ ان کی تاریخ سے گہری دلچسپی معلوم ہوئی ۔
غلام احمد مہجورؔ نے اپنے آبائی پیشہ کی بجائے سرکاری ملازمت کو اس لئے اختیار کیا تاکہ مشقت سے روزگار کما سکے۔پٹواری ملازمت کے دوران اسے کئی بار معطل ہوناپڑا اور لداخ کے دشوار گذار دور افتادہ علاقہ میں دو سال تبدیل ہونا پڑا۔اسے اسلئے ترقی نہیں دی گئی کہ اس نے حق گوئی اختیار کی ۔اس نے قلم کو مزدوروں ،غریب کسانوں کیلئے وقف رکھا۔
کشمیر کے پہلے شاعر مہجورؔ ہی ہیں جنہیں حکومت نے وظیفی حسن خدمت منظور کیا اور وفات سے ایک روز قبل اسکی پہلی قسط وصول کی۔9اپریل 1952ء کو متری گام پلوامہ میں رحلت کے بعد اگرچہ انہیں مدفون کیا گیا مگر راتوں رات متری گام سے پلوامہ تک کچی سڑک تعمیر کرکے قبر سے جسد خاکی نکال کر 11اپریل کو خانقاہ معلی سرینگر میں نماز جنازہ ادا کی گئی ۔پھر سرکاری اعزاز کے ساتھ اتھواجن برلب سرینگر جموں شاہراہ پر سپرد خاک کیا گیا۔
شاعر کشمیر مہجورؔ نام کی کشمیری اور اردو فیچر فلمیں تیار کی گئیں جو اگست 1970ء میں پہلی بار سرینگر اور سوپور کے سینما ہالوں میں پیش کی گئیں ۔کشمیر کے اس عظیم شاعرکی مختلف شعری تخلیقات کی اردو ،ہندی ،بنگالی ،پنجابی اور انگریزی میں ترجمہ ہوا ہے۔اس کے گیت ہندوستان اور پاکستان میں مقبول عام ہیں ۔مہجور ؔ کشمیر کے پہلے وہ شاعر ہیں جنکی شعر و ادب پر زیادہ تعداد میں دانشوروں ،ادبا ء ،شعراء ،محققوں اور نقادوں نے مظامین لکھے۔کئی اخبارات اور رسائل نے ان کے یاد گاری نمبر نکالے ۔اس شاعر کی بڑی عظمت ہے کہ اس کے نام پر ’’مہجور پل‘‘،مہجور نگر،مہجور میموریل ہائر سکنڈری سکول پلوامہ ،کئی نجی تجارتی ادارے اور شیر کشمیر میڈیکل انسٹی چیوٹ صورہ میں مہجور وارڈ قائم ہیں ۔اس بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر کے نام پر بھارت نے 2013ء میں ڈاک ٹکٹ بھی جاری کی۔
بے باک ،نڈر ہوکر شاعری کرنے والے مہجور’ کو شاعر کشمیر کا خطاب دیا گیا ہے ۔قومی شاعر کے طور پر تسلیم کئے گئے ۔اس شاعر نے کشمیریوں کے جذبات ،قومی شناخت اور وطن کی خوبصورتی کو شاندار طریقے سے ترجمانی کی ۔انہوں نے کشمیر زبان ،ادب ،شاعری اور تاریخ کی بے لوث خدمت انجام دی جوبڑا قومی سرمایہ ہے۔اللہ انہیں جوار رحمت میں جگہ دے(آمین)
(حمید اللہ حمیدؔ ـؔمحکمہ اطلاعات کے سابق آفیسر اور محفل بہار ادب شاہورہ پلوامہ کے صدر ہیں )
huhamidshah@gmail.com