عمارہ فردوس ۔مہاراشٹر
ماہ قرآن اللہ ربّ العالمین کی طرف سے اپنے بندوں کیلئے ایک خصوصی انتظام اور یاد دہانی ہے۔ یہ یاد دہانی ہے اس پیغام کی جسکا امت مسلمہ کو امین بنایا گیا اورخیر امت کے منصب پر فائز کیا گیا، تا کہ وہ اپنے فرض منصبی سے راہ فرار اختیار کرکے اس رنگین دنیا کا بے مقصد حصہ نہ بن جائے اور کہیں وہ جادہ حق کی مشکلات اور دشواریوں کو دیکھ کر آرام کوشی کو گلے نہ لگالے۔ بس اسی غرض سے ہمارے مالک نے ایک ماہ کا بہترین تربیتی پروگرام اپنے فرمانبرداروں کیلئے طے کیا ہے ،جسے قران رمضان کے نام سے موسوم کرتا ہے ۔قران کو تھام لینے والے،قران کے مطابق زندگیاں گذارنے والے قران کو اپنی زندگیوں میں برتنے والے قران کے سچّے امین و پاسبان ، قران کے نفاذ کے لئےمسلسل جدوجہد کرنے والے ہی اس ٹریننگ و ماہ مبارک کی سعادت و برکتوں سے مستفید ہوسکتے ہیں۔
دراصل ماہ مبارک کی ساعتیں اس طور سے زیادہ اہم ہوجاتی ہیں کہ اللہ رب العالمین نے ہمیں جس کتاب کا امین بنایا ہے، اسکی شرطِ ھدی للمتّقین کی تربیت کیلئے روزہ جیسی مخصوص عبادت کو فرض کردیاجو تقویٰ کو پروان چڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے ۔جسکا راست تعلق روحانیت سے ہے۔ چنانچہ پوشیدہ عبادتیں تقویٰ سے قریب کردیتی ہیں تاکہ بندہ کی عبادت کا مقصد اور ساری تگ ودو اپنے مالک کو خوش کرنے میں بسر ہوجائے، وہ بھوکا رہے تو اسکی خوشی کیلئے، افطار کرے تو اسکی رضا کیلئے ،قیام و سجود کرے تو اس سے قریب ہونے کیلئے، صدقات و خیرات کرے تو اس سے بھلائی چاہنے کیلئے، احتساب اور جائزہ لے تو اس کی باز پُرس سے ڈر کر ، جب سارے کاموں کا حقیقی محرک رضائے الٰہی بن جائے تو بقیہ گیارہ مہینوں میں اس نفس کی کیسی شرارت کہ مومن کے مذاق کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت دکھائے ۔
مختصراً یہ کہ ماہ رمضاں اللہ تعالی کا ایک بڑا احسان ہے ،جس کے ذریعہ ہماری جسمانی تربیت ، روحانی تربیت، صبر وتحمل، ضبطِ نفس ،قران سے تعلق کو مضبوط کرنے اور حقوق العباد جیسی ذمہ داریوں کو یاد دلانے کیلئے اس نے انتظام فرمایا ہے ۔ لیکن واقعی کیا ہر سال ہماری زندگیوں میں داخل ہونے والا رمضان ایک انقلاب کی صورت ابھرتا ہے ؟ کیا ماہ مبارک کے بعد پورے گیارہ مہینہ واقعی ہم اپنے نفس پر کنٹرول کرپاتے ہیں ۔کیا وجہ ہے کہ رمضان کے بعد عبادتوں کا جوش و ولولہ کچھ ماند سا پڑجاتا ہے ؟صدقات کی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے ؟ قران سے تعلق کچھ کمزور سا نظر آنے لگتا ہے؟ اسکی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ماہ قران سے حقیقی اور شعوری طور پر ہم استفادہ نہ کرسکیں۔
خواتین اکثر ماہ مبارک کے قیمتی اوقات میں پکوان و لوازمات کی تیاریوں میں مشغول ہوکر عبادات کے بہترین لمحات سے محروم ہوجاتی ہیں۔ حالانکہ خواتین کی ایک بڑی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت میں اس ماہ سے جڑی ہوئی ساری عبادتوں اور تقاضوں کو عملی طور پر پیش کریں، خصوصاً خواتین کی کوشش اس ضمن میں یوں ہونا چاہیے:
❄ ماہ نزول قران کے اس جشن کی اہمیت کو اپنے بچوں پر واضح کریں اور حفظ و تلاوت کی طرف راغب کروایں۔اپنے بچوں میں ماہ صیام کے حقیقی مقصد اور روزہ کی حکمت و اہمیت واضح کرکے ابتداءمیں آدھا دن کی بھوک برداشت کرنے سے اسکی شروعات کروائیں اور سحرو افطار کے اوقات میں انہیں برابر شریک رکھیں۔ ماہ مواسات کی اہمیت سے واقف کرواکر صدقہ و خیرات اور غریبوں سے ہمدردی کیلئے بچوں کے ننھے ہاتھوں سے پڑوسیوں تک کھانا پہنچانے اور غریبوں تک صدقات و خیرات پہنچانے کا کام لیا جانا چاہیے۔ یہ ماہ فرقان بھی ہے ، اس نکتہ کو خواتین اپنے بچوں پر واضح کریں اور دین کیلئے کی جانے والی انتھک کوششوں کے نتائج اور اللہ کے انعامات و بشارتوں کوبیان کریں ۔
سماعت قران کی محفلیں جسکی اصل غرض قران کو مع ترجمہ و تفسیر سننے اور سنانے کی ہوتی ہیں بالعموم اس میں بھی مطمح نظر یہی ہوتا ہے کہ رمضان کے گذرنے سے پہلے ہی قران کو مکمل کیا جائے۔اور اسی تناظر میں یہ محفلیں ایک رسم کی صورت اختیار کرگئیں ہیں۔
درحقیقت ایک مومن کیلئے قران صرف پڑھ لینے کی کتاب نہیں ہے بلکہ زندگی میں برتنے اور اس کسوٹی میں اپنے آپ کو پرکھنے اور اس سانچے میں زندگی کو ڈھال دینے کیلئے یہ قران اس ماہ مبارک میں نازل کیا گیا ۔اب اسکی محفل سماعت بھی اسی غرض کیلئے ہوتو ہم رمضان ،قران ، اورصیام کے حقیقی مقصد کو پاسکتے ہیں ۔
سید قطب ؒ نے اپنی کتاب جادہ و منزل میں یہ بات تحریر کی ہے کہ روئے زمین پر صحابہ جیسی لاثانی جمیعت دوبارہ کیوں وجود میں نہ آسکی؟ اسکی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ خود صاحب کتاب یوں بیان کرتے ہیں کہ جس چشمہ صافی سے صحابہ کرام نے اکتساب فہم و تربیت حاصل کی ،اسکے طریقہ کار میں بعد کے ادوار میں تغیر واقع ہوچکا ہے ،اس جماعت کا کوئی بھی فرد قران کی تلاوت اور اس میں تدبر اس غرض کیلئے نہیں کرتا کہ وہ اپنی معلومات عامہ کا دائرہ وسیع کرنا چاہتا ہے یا کسی بھی پہلو سے اپنی علمی کسر کو پورا کرنا چاہتا ہے ۔ بلکہ وہ قران کی طرف اس لئے رجوع کرتے تھے کہ وہ معلوم کرے کہ اسکی انفرادی زندگی کے بارے میں مالک الملک نے کیا ہدایات دی ہیں ؟ جس معاشرہ میں وہ سانس لے رہا ہے اسکی اجتماعی زندگی کے لیے کیا احکام ہیں ؟ اور پھر سرعتِ عمل کی یہ کیفیت کہ اس برگزیدہ جماعت کا ہر فرد ایک سپاہی کیطرح احکام موصول ہوتے ہی ان پر بلا چوں و چراکار بند ہوجاتا تھا۔ چوں کہ ماہ رمضان قران سے استفادہ کے بھرپور مواقع فراہم کرتا ہے ۔لہٰذا اس چشمہ صافی سے سیراب ہونے کیلئے اس شعور و احساس کا باقی رہنا بھی ضروری ہےکہ تلاوت و سماعت قران کے ساتھ قران کا مطلوب و مقصودمومن عملاً نظر آئے۔