ماسٹر محمد یوسف بٹ
مالک حقیقی ، خالق کائنات، اللہ رب العزت نے جس انداز سے ارض وسماء کو تخلیق فرمایا ،انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو بچھا یا اور اسکی لرزتی ہوئی حرکت کو روکنے کے لئے پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے کلام پاک میں پہاڑوں کے بارے میں فرمایا ہے ،(ولجبال اوتادا)،ترجمہ : (اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا)۔ پہاڑ اپنی اونچائی اور شان وشوکت سے زمین کو رونق بخشتے ہیں۔اگر پہاڑ نہ ہوتے تو یہ آبشار بھی نہ ہوتے، نہ درے ہوتے اور نہ ہی دنیا اس قدر حسین مناظر پیش کر رہی ہوتی۔
جہاں اللہ تعالیٰ نے پورے روئے زمین پر پہاڑ جمادئے تو وہی اللہ تعالیٰ نے ہمارے ضلع رام بن کو بھی بلند وبالا فلک بوس پہاڑوں سے گھیرا ہے۔ ضلع رام بن ، سب ڈویژنن بانہال کی تحصیل کھڑی میں وادی مہو و بزلہ کے متصل ایک اونچی فلک بوس پہاڑی چوٹی موجود ہے۔جس کے بارے میں ہم اپنے بزرگوں سے کہانیاں سنتے آرہے ہیں کہ اس بلند چوٹی پر تقریباً ایک صدی پہلے انگریز دور حکومت میں ایک مہم جو انگریز نے ایک سیمنٹیڈ چبوترہ بنایا ہے جو “انگریز تھم” کے نام سے جانا جاتا ہے۔زبانی کلامی کہانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کاتب الحروف کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے انگریز تھم کو سر کرنے کا موقع ملا۔ راقم 12ستمبر 2023ء کو پتہالن اور ریلاڑ تک ہم پیشہ ساتھیوں اور طلبہ کے ہمراہ پکنک کے لئے گیا۔ رات کا قیام ریلاڑ میں ہوا۔ اچانک ہی دل نے چاہا کہ اپنے بزرگوں سے سنی سنائی انگریز تھم کی کہانی کی سچائی کی تصدیق کے لئے انگریز تھم کو سر کیا جائے۔اپنے ساتھیوں کے ساتھ انگریز تھم کی چوٹی کو سر کرنے کا فیصلہ ہوا۔ چند ساتھی جن میں ماسٹر محمد رفیق نایک ،عبدالمجید پاچھو ، مدثراور عاشق طلباء کے ساتھ ریلاڑ میں کھیل کود میں مصروف ہو گئے جبکہ میرے ایک قریبی ساتھی ماسٹر عبدالرحیم بٹ اور ایک ہونہار نوجوان محمد رمضان نایک(باورچی ہائی سکول بزلہ) نے انگریز تھم کو سر کرنے کا ارادہ کیا۔ ماسٹر عبدالرحیم بٹ پہلے بھی ایک مرتبہ انگریز تھم چوٹی کو سر کر کے آئے تھے۔ہم تینوں ساتھی 13ستمبر 2023ء کو صبح ساڑھے 6بجے ریلاڑ سے انگریز تھم کی اور روانہ ہوئے۔قریب ڈیڑھ گھنٹے تک ریلاڑ کے وسیع وعریض سر سبز و شاداب میدانوں سے ہوتے ہوئے ناؤن کے وسیع میدان میں پہنچے جو کہ انگریز تھم کے دامن میں واقع ہے اور اس میدان کے مخالف سمت میں جنوب مغرب کی طرف آرم نکھ کا علاقہ ہے جہاں7 فروری 1966ء میں انڈین ائیر لائینز کا مسافر طیارہ ،جو سرینگر سے جموں، امرتسر سے ہوتا ہوا دہلی کی طرف جارہاتھا اور آرم نکھ و انگریز تھم کے متصل ٹینگ درائےپہاڑی سے ٹکرا کر حادثے کاشکار ہواتھا۔تیارے میں سوار 37افراد بشمول ڈائریکٹر میڈم سکول ایجوکیشن کشمیر( جوکہ سننے میں آیا ہے) اور 4افراد جہازعملہ اپنی جانیں گنواں بیٹھے۔
اسی پہاڑی سلسلے کو لیکر وادی مہو کے شمال مغرب میں ضلع کولگام کشمیر کی طرف ایک اور طیارہ ہون ہنگ کی چوٹی سے ٹکراکر حادثے کا شکار ہوا تھا جسکی صحیح تاریخ معلوم نہ ہو سکی۔ناون ریلاڑ سے سیدھا ہی اونچی پہاڑی کا رخ اختیار کیااور مزید ڈیڑھ گھنٹے کا سفر طے کرتے ہوئے ایک ایسے گہرے نالے میں پہنچے جہاں ایک بہت بڑا گلیشیئر دیکھنے کو ملا جس پر چلنا تو کیا پاؤں رکھنا بھی دشوار تھا۔ یہاں پرچند ایک منٹ قیام کیا۔کچھ بادام،بسکوٹ وغیرہ تناول کئے اور برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا پانی پیا۔کچھ پانی کی بوتلیں ساتھ اٹھا کر اگلی منزل کی طرف چل پڑے۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد ایک اور گلیشیئر کے پاس پہنچے۔یہاں پر ہم تینوں ساتھی چند ساعتیں سانسوں کو بحال کرنے کے لئے پھر رکے اور پھر سیدھا انگریز تھم چوٹی کی جانب سفر شروع کیا، جو نہایت ہی کٹھن اور دشوار ہی نہیں بلکہ خطرے سے کم نہیں تھا۔ راستے کا کہیں نام و نشان ہی نہیں بلکہ سیدھا ہی 90 ڈگری کے زاویہ کی چڑھائی، تیز نو کیلے پتھروں اور چٹانوں کے بیچ چلتے چلتے مزید تین گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد دن کے ایک بجے بحفاظت انگریز تھم کے اوپر اپنے قدم رکھے۔
انگریز تھم کی چوٹی تمام دوسری چوٹیوں سے اونچی ہے، اسی لیے اسکی کنٹور لائن کسی دوسری چوٹی سے نہیں ملتی بلکہ ایک کون جیسی شکل کی ہے۔اس چوٹی پر ایک چبوترہ تقریباً 8فٹ چورس دائرے کی شکل میں اور 4 فٹ اونچا سیمنٹ کا بنایا ہوا ہے۔ انگریز تھم سطح سمندر سے 4600 میٹر یعنی 14000فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔اسکا طول البلد ‘75.01233 اور عرض البلد ‘33.4132864 ہے۔انگریز تھم پر ماہ ستمبر میں بھی اچھی خاصی دھوپ اور گرمی تھی۔تقریباً 25 ڈگری کے قریب درجہ حرارت تھا۔ انگریز تھم وادی مہو کے جنوب مغرب،بزلہ گاؤں کے شمال مغرب کی طرف واقع ہے۔انگریز تھم کے شمال مغرب میں ضلع کولگام ، عین مغرب میں گول گلاب گڑھ ،شمال مشرق میں وادی مہو کی گڈ بیر،دبدلو، خوبصورت اچھن کی چوٹی ، واو مال ، مشرق میں حسنہ پنڈ،جنوب مغرب میں سر سبز میدان اور سر کینٹھا مال واقع ہے۔ انگریز تھم کے بارے میں ہم نے جواپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور اس کے بارے میں پرانے بزرگوں سے اب تک جو کچھ سنکریہی سمجھا کہ ان انگریزوں نے اسے قلعہ نما کو سب سے اونچی جگہ پر اس لیے بنایا تھا تاکہ سیاسی ، فوجی مقاصد اور انٹیلی جنس کے لئے استعمال کیا جائے اور اس کی حد درجہ اونچائی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں سے دونوں صوبوں کشمیر اور جموں پر نظر رکھی جاسکے یعنی اسے Dog Watch کے مقام جیسی حیثیت ہوتی جو کام آج راڈارسے لیا جاتا ہے۔
اسکے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ جموں صوبہ کو کشمیر صوبہ سے الگ کرنے کا سرحدی نشان لگانے کے لئے بنایا گیا تھا۔ ماسٹر عبدالرحیم بٹ کی دی گئی جانکاری کے مطابق محمد اسماعیل کاؤنہ(عمر 98 برس) کا قول ہے کہ تقریبا ًسوا سو (120 سال) سے بھی پہلے اس کی تعمیر ہوئی تھی تو اس وقت کھڑی بانہال ضلع ادھم پور ایڈمنسٹریشن کے زیر اہتمام یہ کام ہوا کرتا تھا اور اس چوٹی کے بنانے میں ریلاڑ ناون میں ایک کیمپ لگوایاتھا۔اس مقام پر سامان لانے کے لئے خچروں اور بڑی خچر (رسالہ نامی خچروں) سے ادھم پور رام بن سے براستہ کھڑی سامان سٹور کیا جاتا تھا، جس میں اس عملہ کے لیے ضروری اشیاء اور سیمنٹ خصوصی طور شامل تھا۔ پتہالن دریا سے ریت اور باجری نکال کر وہاں پہنچائی جاتی تھی۔ یہ عملہ 35-30 افراد پر مشتمل تھا جن میں چار پانچ انگریز، ایک سرکاری آفیسر اورایک ترجمان شامل تھے۔
یہ آفیسران مع انگریزوں کے اس وقت کی تحصیل کھڑی کے تمام چوکیداروں اور سرپنچ جیسے پوسٹ پر رکھے گئے سرکاری مشینری کے علاوہ مقامی لوگوں کو بلا معاوضہ جبری کام کرواتے اور اسکے علاوہ جہاں تک ان کی پہنچ تھی طرح طرح کے مظالم سادہ لوح عوام پر ڈھاتے تھے۔اسی وجہ سے اس وقت کے کھڑی کے محمد ایوب لمبردار کے دادا نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی تو تمام ذمہ داروں کو اس انگریز کے ماتحت آفیسرنے جن کا نام بقول محمد اسماعیل پیارا سنگ تھا ،ریلاڑا بلایا اور اسی دوران سب کو جب وجہ بتاؤ نوٹس کا سامنا کرنا پڑا تو ان انگریز نیز دیگر حکام کی نظر میں یہ شخص آگیا اور ان انگریزوں نے جو آپسی گفت وشنید کی تو یہ چونکہ آسمان تلے زمین پر نیچے دامن کی طرف تھے اور ان کی شوٹ آواز لفظ سے کچھ شوٹ ہیم سمجھ گئے اور وہاں سے بھاگتے ہوے رام بن یا ادھم پور پہنچ کر تار دے کر مقدمہ درج کروا کے اس عملے کا دو ہفتے تک عدالتی نوٹس پہنچایا جسے یہ سارا کام بند ہوکر رک گیا اور سارا عملہ واپس روانہ ہوا۔انگریز تھم کے گول چبوترے میں سوا سو سال پہلے کا سیمنٹ اور اوپر سے چونا استعمال ہوا ہے۔اس پر تیز طوفانی ہواؤں برف اور بارش سے Weathering ہونے کے باوجودآج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔
ہم نے 45 منٹ کے لئے انگریز تھم پر قیام کیا اور وہاں پر ہی نماز ظہر ادا کی۔بعد ازاں ہم تینوں ساتھی واپس روانہ ہوئے اور تقریباً ساڑھے 5 بجے ناون گرونڈ ریلاڑ پہنچے جہاں پر ہمارے کچھ ساتھیوں نے ہمارے لیے ایک خانہ بدوش گھر میں کھانا رکھا تھا اور خود طلباء کے ساتھ پتہالن کے لئے روانہ ہوئے تھے۔ نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا تو پہلے نماز عصر ادا کی۔ اسکے بعد کھانا نوش فرمایا اور ریلاڑ کی طرف چل پڑے۔ ریلاڑ اور ہوکھسر سے ہوتے ہوئے تقریباً ساڑھے 9 بجے پتہالن پہنچے۔ اس بیچ نماز مغرب اور نماز عشاء راستے میں ہی ادا کی۔رات کا قیام پتہالن میں ہمارے ایک ہمراہ ساتھی محمد رمضان نا یک کے ادوارے پر کیا۔ اگلے دن صبحِ سویرے بزلہ کے لئے روانہ ہوئے اور صبح ساڑھے نو بجے ہم تمام ساتھی بشمول طلباء اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بحفاظت،صحت وسلامت سے واپس بزلہ پہنچے۔اسطرح سے بزرگوں کی سنی سنائی انگریز تھم کہانی سچی ثابت ہوئی کہ واقعی انگریز تھم انگریز دور حکومت میں بنایا گیا اور ابھی بھی موجود ہے۔
پتہ۔ مہو بانہال، ضلع رام بن، جموں و کشمیر
رابطہ نمبر۔9596948793
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)