ڈاکٹرامتیازعبدالقادر
شاعر ، ادیب، قلمکار اور نقاد، حالات کا جائزہ لے کر عوام و خواص کی سوچ کے ترجمان بنتے اور مستقبل کی نقشہ گری کا کردار ادا کرتے ہیں۔ قلم کی نوک سے قوموں کی سوچ پروان چڑھانے اور بدلنے میں اصحابِ سیاست سے کہیں اہم کردار ادیبوں اور شاعروں کا ہوتا ہے۔ انہی قلمکاروں اور ادیبوں میں ایک گم گشتہ نام مرحوم فضل الرّحمٰن ،معروف بہ نعیم صدیقیؔ کا ہے۔ نعیم صدیقی ؔ۶ جون ۱۹۱۶ء کوضلع جہلم خانپور،پاکستان میںپیداہوئے ۔ سکول کے زمانے میں شعرو سخن سے رغبت ہوئی۔ منشی فاضل کیا، عربی اور انگریزی سیکھی ، بعدازاں بطور معلم عملی زندگی کا آغاز کیا۔ ۱۹۳۸ء میں لاہور آئے اور کم و بیش سات برس تک فلسفۂ اردو ادب اور اسلامی نظام ِ حیات کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ ۱۹۴۱ء میں قائم ہونے والی تحریک جماعت اسلامی کے اساسی اراکین میں شامل ہوئے اور بزرگ صحافی ملک نصراللہ خاں عزیزؔ کے سہ روزہ’ مسلمان‘ کے ذریعہ میدانِ صحافت میں قدم رکھا ۔ قلم سے ان کا تعلق تا زیست رہا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور علامہ اقبالؔ ان کے لئے محترم ترین شخصیات تھیں۔ اپنی تمام زندگی وہ ان دونوں کے افکار کو آگے بڑھانے میں منہمک رہے۔
اردو ادب و شاعری میں نعیم صدیقیؔ کی حیثیت نظریہ ساز کی ہے۔ نعیم صدیقی ؔکی شاعری کے مختلف ادوار ہیں۔ ’’ شعلۂ خیال‘‘ ’’ خونِ آہنگ‘‘ ’’ باردو اور ایمان‘‘’’ پھر ایک کارواں لُٹا‘‘’’ نور کی ندیاں‘‘ اور ’’ شعاعِ جمال‘‘ ایسے مجموعے ہیں جنھیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ان کی شاعری کے حوالے سے حفیظ الرحمن احسن ؔکی رائے ہے کہ ’’ ان کی شاعری بہت سے فنی محاسن لیے ہوئے، وحدتِ فکر و خیال یا دوسرے لفظوں میں ایک مرکزی نظامِ فکر کے ساتھ وابستگی کا ایسا آب و رنگ رکھتی ہے ، جو اُردو کے بہت کم شاعروں کو نصیب ہوا۔‘‘ ( نعیم صدیقی ، علمی و ادبی خدمات۔ص ۱۱۱)
’’ شعلۂ خیال‘‘ میں زیادہ تر نظمیں اور غزلیں ۱۹۵۳ء میں لکھی گئی ہیں۔ یہ دور ِ ابتلاء تھااور خود نعیم صدیقی اسیر تھے۔ جیل کے اندر محبوس ایک شخص کے تصورات اس کے گھر سے متعلق ، وہ یوں تصویر کشی کرتے ہیں ؎
ہے ایک پیکرِ صدق و صفا تصور میں کسی سے جس نے غمِ دل نہیں کہا ہوگا
وہ جانے بوجھے سے اندازِ رازداری میں خود اپنے آپ سے کہنا کہ ’’ ہائے کیا ہوگا‘‘
وفاکارنگ توکچانہیں کہ اڑجائےحناکارنگ ہتھیلی سے اڑ گیاہوگا
گھڑی گھڑی جو لگی ہو گی آنسوئوں کی جھڑیتو چشمِ شوق کا کاجل تو بہہ گیا ہوگا
کبھی دعا کے لیے ہاتھ اُٹھے ہوئے ہوں گےکبھی سجو دمیں سر خاک پر دھرا ہوگا
جیل میں رہائی کے منتظر افراد کے لیے جب اسیری میں اضافہ کا حکم ملتا ہے ، تو نعیم صدیقی کیسی مضبوط اور محکم بات کہتے نظر آتے ہیں ؎
تمام عمر مجھے قیدمیں رکھو لیکنمجھے بتائو تو آخر میری خطا کیا ہے
ہے موت تک کی اسیری بھی پھر قبول مجھےپتہ تو دو کہ اسیری کا مدعا کیا ہے
اور
کسی جفا سے مرا دل دہل نہیں سکتا کسی عطا سے طبیعت بہل نہیں سکتی
میں قید یوسفِ کنعاں کی کھا رہا ہوں قسمیہ قید میرے عقیدے بدل نہیں سکتی
نعیم صدیقی ایک مقصدی شاعرہیں، جو بھی کہا با مقصد کہا۔ دوسرے شاعروں کی طرح یاوہ گوئی نہیں کرتے ۔ ان کا دل ایک دردمند دل ہے۔ خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں ؎
لاہور سے رسالے کیا کیا نکل رہے ہیںہم بھی چلو نکالیں اخبار دردِ دل کا
اور یہ دردِ دل کیا ہے؟ مسلمانوں کی زبوں حالی، اسلام سے نفور، دلوں میں افتراق و انتشار اور مسلمانوں کی مرکزیت و وحدت کا ختم ہوجا نا ہے ؎
وحدت گئی تو کیوں گئی، قوت مٹی تو کیوں مٹیبکھرے ہیں کیوں اوراقِ دل، شیرازہ کیوں برہم ہوا
وہ بدترین حالات میں بھی مایوس نہیں کرتے بلکہ عزمِ تازہ پیدا کرتے ہیں ؎
شبِ تاریک زنداں کی سیاہی سے نہ گھبرائواسی کی گود میں فردا کے مہر و ماہ پلتے ہیں
اسلامی نظام برپا کرنے کی پاداش میں لوگ پابند سلاسل کیے جاتے ہیں ، مجرم قرار پاتے ہیں۔ نعیم صدیقی آواز بلند کرتے ہیں اور معرکۃ الآراء نظم ’’ ہم لوگ اقراری مجرم ہیں‘‘تخلیق کرتے ہیں ؎
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں، سن اے جباری مجرم ہیں حق گوئی بھی ہے جرم کوئی ، تو پھر ہم بھاری مجرم ہیں
نعیم صدیقی کی رزمیہ شاعری اُن کو زندہ جاوید رکھنے کے لئے کافی ہے، وہ لکھتے ہیں ؎
تم انقلاب کی لہروں کو روکتے رہوکہ اس طرح تو یہاں انقلاب اُبھریںگے
گر اک چراغِ حقیقت کو غل کیا تم نےتو موجِ دُود سے صد آفتاب اُبھریں گے
حریت ِ فکر و نظر ، آزادیٔ اظہار و خیال اور صداقت کی تمنا بغیر قربانیوں کے ممکن نہیں ۔ بہت سے شاعروں نے طرح طرح سے اس مضمون کو باندھا ہے۔ نعیم صدیقی بھی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ اگر آزادی چاہتے ہو ، صداقت مطلوب ہے، تو اپنے لیے زنجیریں خود اُٹھا کے چلو ؎
گر حریت کے گیت ہی گانے کا ہو جنون زنجیرِ قید اپنے لیے خود اُٹھا کے چلو
اسی طرح مظاہر قدرت اور معرفت ِکردگارسے متعلق اُن کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں ؎
نہیں ملتا ہے کیوں اُن سے سراغِ منزلِ جاناںوہی دورِ براہیمی ؑ کے سورج ، چاند ، تارے ہیں
نعیم صدیقی کے اسلوب کے حوالے سے ڈاکٹر عبد اللہ شاہ ہاشمی رقم طراز ہیں:
’’ نعیم صدیقی ایک پختہ فکر صاحبِ اسلوب ادیب ہیں۔اُنھوں نے شبلی، حالی، محمد حسین آزاد، علامہ اقبال او ر سید مودودی کے اثرات قبول کرنے کے باوجود اپنے وسیع مطالعہ کے زور پر زبان پر عبور حاصل کیا اور ایک منفرد اسٹائل بنانے میں کامیاب ہوئے جوصرف اُن ہی کے ساتھ خاص ہے اور اُن کی شخصیت کا نمائندہ ہے‘‘ ( ایضاً ۔ ص ۲۹۳)
نعیم صدیقی کی شاعری ہمہ جہت ہے ، انھوں نے زندگی کے تمام بنیادی معاملات پر اپنے کلام میں اظہار خیال کیا ہے ۔ چادر، چہار دیواری اور ملک میں اسلامی اقدار کی بے حرمتی پر انھوں نے ایک نظم میں اپنا خونِ دل یوں نچوڑا ہے ؎
چوپال ، مکتب ، دانش کے مَعدن محراب و منبر ، روحوں کے مامن
بازار ، منڈی ، دولت کے مخزن تہذیب ساری شعلہ بد امن
سنتے ہو چیخیں ، فریاد و شیون جاگو نگر میں آگ لگی ہے
نعیم صدیقی بلاریب قادرالکلام شاعرہیں۔ان کی شاعری حمدیہ بھی ہے،نعتیہ بھی،حزنیہ بھی اوررجزیہ بھی۔شعروشاعری کے علاوہ موصوف کی بیشترنثری تصانیف بھی علمی وادبی دنیا میںاپنالوہامنواچکی ہیں۔عورت معرض کشمکش میں،اقبالؔ کاشعلہ نوا،معرکہ دین وسیاست،ذہنی زلزلے،معروف ومنکر،انواروآثار،تعلیم کاتہذیبی نظریہ،حق وباطل،بنیادپرستی،افشاں،کمیونزم یااسلام،المودودی،تحریکی شعور،رسول اورسنت رسولﷺاورسیرت طیبہ پر ان کی شاہکاروضخیم کتاب’’محسنِ انسانیتﷺــ‘‘ ان کی قابل قدرعلمی وادبی کاوشیںہیں۔پاکستان کامعروف ادبی ماھنامہ ’’سیارہ‘‘ بھی آپ کی ایک اہم یادگارہے۔’ محسن انسانیت‘ کے حوالے سے ممتازادیب وشاعرماہرالقادری کتاب میں’تقریظ‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
’’محسنِ انسانیت میں نعیم صدیقی کے قلم کی طہارت،فکرکی پاکیزگی،دل کاسوزاوردینی شغف پوری طاقت کے ساتھ ابھرتاہوادکھائی دیتاہے۔ایک ایک سطرمیںمحبت رسولﷺکی خوشبوبسی ہوئی اورایک ایک ورق پرعقیدت کے لعل وگُہرجگ مگ کرتے ہوئے۔۔۔یہ کتاب نعیم صدیقیؔ کے ادب وانشاء اسلوبِ نگارش،اندازِفکر،دینی رجحان،مئورخانہ بصیرت اورذوقِ انتخاب کانہایت حسین تعارف ہے۔‘‘ (ص۔۱۷)
نعیم صدیقی کی قلم کی روانی،انشاء پردازی کا عروج اورجاذبیت کواس اقتباس میں محسوس کیجئے:
’’محمدﷺ کی سیرت ایک فرد کی سیرت نہیں ہے بلکہ وہ ایک تاریخی طاقت کی داستان ہے،جوایک انسانی پیکرمیںجلوہ گرہوئی۔وہ زندگی سے کٹے ہوئے ایک درویش کی سرگزشت نہیں ہے،جوکنارے بیٹھ کرمحض اپنی انفرادی تعمیرمیںمصروف رہاہوبلکہ وہ ایک ایسی ہستی کی آپ بیتی ہے،جوایک اجتماعی تحریک کی روحِ رواںتھی۔وہ محض ایک انسان کی نہیںبلکہ ایک انسان سازکی رودادہے۔وہ عالمِ نوکے معمارکے کارنامے پرمشتمل ہے۔ایک پوری جماعت،ایک انقلابی تحریک اورایک ہیئتِ اجتماعیہ اس کارنامے کی تفصیل اپنے اندرلیے ہوئے ہے۔سرورعالمﷺکی سیرت غارحراسے لے کرغارثورتک،حرمِ کعبہ سے لے کرطائف کے بازارتک،امہات المئومنین کے حجروںسے لے کرمیدان ہائے جنگ تک چاروںطرف پھیلی ہوئی ہے۔اس کے نقوش بے شمارافرادکی کتابِ حیات کے اوراقِ زینت ہیں۔۔۔۔ایک چمن کاچمن ہے،کہ جس کے لالہ وگل اورنرگِس ونسترن کی ایک ایک پتّی پراس چمن کے مالی کی زندگی مرقوم ہے۔وہ قافلئہ بہاری وقت کی جس سرزمین سے گزرااس کے ذرے ذرے پرنکہت کی مہریںثبت کرگیاہے۔‘‘ (ص۔۵۹)
مائل خیرآبادیؔ مرحوم اکثرکہاکرتے تھے کہ’ نعیم صدیقیؔ آدمی نہیںکچھ اورہیں۔ہرصنف میںاورہراندازمیںلکھناسب کے بس کی بات نہیں۔جب یہ ترجمان القرآن کے اشارات لکھتے ہیں،توایسالگتاہے کہ نعیم صدیقی نہیں،مولانامودودی کالکھا ہواہے۔یہی حال دوسرے مضامین کاہے،جس موضوع اورجس عنوان پرکہو،لکھ دیں گے۔‘
نعیم صدیقیؔ بطورشاعر،بطورنقاد،بطورسیرت نگار،بطوراقبال شناس اوربطورافسانہ نگار، ایسے ابواب ہیں،جن پرتحقیقی مقالات مرتب کیے جاسکتے ہیں۔ان کے فن پاروں کامطالعہ اوران کے افکارکاملخّص،سنجیدگی کاطالب ہے۔ان کی خاکہ نگاری،ڈرامہ نویسی،طنزومزاح نگاری،ادبی نثر،انشائیہ نگاری اوربطورصحافی کچھ اورابعاد ہیں۔نعیم صدیقیؔ مختلف الجہات شخصیت ہیں۔مگرصدافسوس برصغیرہندوپاک میںاردوزبان وادب کے’علمبرداروں‘ نے ان عظیم ہستیوںکوطاقِ نسیاںکی ’زینت‘ بنایاہے۔میرؔ،غالبؔ،مومنؔ،سرسیدؔ،حالیؔ اوراقبالؔ وغیرہم پربہت کام ہوچکاہے اورسچ پوچھیں توکافی کام ہواہے۔ ضرورت ہے تونعیم صدیقیؔ جیسے گُم گشتہ ستاروںکومنظرعام پرلانے کی،مختلف الجہات اشخاص کوموضوع بنانے کی۔
پتہ۔بارہمولہ کشمیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔