زاہد ابن نبی،یاری پورہ
نوجوان نسل کسی بھی ملک کی معاشی،تعلیمی، اقتصادی اور سماجی فلاح و بہبود و ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔کہتے ہیں کہ جوانی وہ عرصہ حیات ہے، جس میں ِانسان کے قو یٰ مضبوط اور حوصلے ْبلند ہوتے ہیں۔ایک باہمت جوان پہاڑوں سے ٹکرانے،طوفانوں کا رخ موڑنے اور آندھیوں سے مقابلہ کرنے کا عزم رکھتا ہے۔اسی لئے شاعر مشرق علامہ اقبال سمیت متعدد شعراء نے نئی نسل کو اپنی توقعات کا محور بنایا ہے اور بہ راہ راست ان سے خطاب کرتے ہوئے اْن کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا ہے۔ایک موقع پراقبال ؒمرحوم یوں دعا کرتے ہیں۔
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرانور بصیرت عام کردے
ہم اگر ماضی پر نظر دوڑائیں تو اندازہ ہوگا کہ ایک زمانہ تھا، جب سکولوں، کالجوں میں کھیل کے میدان ہوتے تھے، جہاں کھیلوں کے مقابلے منعقد کیے جاتے تھے، اس میں ہر طبقے کے بچے شامل ہوتے تھے، ان کھیلوں کے ذریعے صبر وبرداشت،دوڑ دھوپ اورمقابلہ کرنے کے جذبات پیدا ہوتے تھے،مگر افسوس کہ آج ہمارے نوجوان جہد و عمل سے کوسوں دوراِنٹرنیٹ اور منشیات کے خوف ناک حصار میں جکڑے ہوئے ہیں،انھیں اپنے تابناک مستقبل کی کوئی فکر نہیں،وہ اپنی متاع ِحیات سے بے پرواہ ہوکر تیزی کے ساتھ منشیات جیسے زہر ہلاہل کو قند سمجھ رہے ہیں اور ہلاکت و بربادی کے گھاٹ اْتررہے ہیں۔اب تو سگریٹ وشراب نوشی کی وجہ مجبوری یا ڈپریشن نہیں رہی ہے بلکہ ہم عصروں اور دوستوں کو دیکھ کر دل میں انگڑائی لینے والا جذبۂ شوق ہے،جو نوجوانوں کی زندگی کو تاریک اور ان کی جوانی کو کھوکھلا کرتاجارہا ہے۔
دوسروں کی دیکھا دیکھی میںایک دو بارنشہ استعمال کرنے والا فرد کچھ عرصے بعد یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اسے ہر حال میں نشہ استعمال کرنا ہے، پھر وہ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اس کی تلاش، خریداری اور استعمال میں صَرف کردیتا ہے اور چاہ کر بھی اس عمل کو روک نہیں سکتا۔ جس کے نتیجے میںاس کی زندگی کے تمام معاملات میں خسارہ ہوجاتاہے۔ بلا شبہ منشیات ایک ایسا میٹھا زہر ہے جوانسان کو دنیا و مافیہا سے بیگانہ کر دیتا ہے،وہ حقیقت سے فرار حاصل کرتا ہے اور خیالوں کے بدمست دنیا میں مست الست کا راگ الاپتا رہتا ہے۔ظاہر ہے کہ منشیات اپنے شکار کو اپنے شکنجیمیں کچھ اس طرح لیتی ہے کہ پہلے پہل اس کو تفریح کا احساس دلاتی ہے جو بعد میں اْس کی ضرورت بن جاتی ہے،پھر یہی ضرورت منشیات استعمال کرنے والے کے لئے نشے کی تلاش،زندہ رہنے کی جستجواور مقصد حیات بن جاتی ہے اور پھرمنشیات کا عادی لمحہ لمحہ درد ناک کرب میں مرکھپ جاتا ہے۔ اس کی موت صرف اس کی اپنی موت نہیں ہوتی بلکہ اسکی خواہشات بھی اس کے ساتھ دفن ہو جاتی ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس المیہ میں ہمارا کردار بھی شامل تو نہیں ہے؟ بغور دیکھا جائے توایک نارمل شخص اگر منشیات کا استعمال شروع کرتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ کوئی نہ کوئی واقعہ، سانحہ،تلخی، مایوسی ، محرومی یا ناکامی کا پہلو ضرور ہوتا ہے۔حدیث نبو یؐ ہے کہ تم میں سے وہ مسلمان نہیں ہو سکتاجو اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے۔ اگر ہم اس حدیث مبارکہ پر عمل پیرا ہوں تویقینامعاشرے سے بْرائیوں کاخاتمہ ہو جائے۔
بعض اوقات تو غلط صحبت کا اثر ایک اچھے بھلے فرد کو لے ڈوبتا ہے۔کبھی کبھی مسائل سے چشم پوشی اور حقیقت سے فرار حاصل کرنے کیلئے بھی نشہ کا سہارا لیاجاتاہے۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ نوجوان نسل فیشن کے طور پر سگریٹ، تمباکو وغیرہ جیسی نشیلی چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ماہرین کے نزدیک تمباکو وغیرہ میں زہریلے اجزاء نکوٹین(nicotine)، فیرفورال(furfural) پاسٹریڈن(pastridon) وغیرہ ہوتے ہیں۔ یہ زہریلے اجزا انسانی جسم پربْری طرح اثر انداز ہوتے ہیں ، فاسدمادے پیدا کرتے ہیں، خون کا رنگ متاثر ہوتا ہے، خون زردی مائل اور پتلا ہو جاتا ہے۔
دہلی کے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(AIIMS) کے نیشنل ڈرگ ڈیپنڈ نس ٹریٹمنٹ سینٹرکے ذریعے حال ہی میں کرائے گئے ایک سروے کے مطابق جموں و کشمیر میں نشے کے عادی افراد کی تعداد تقریباً 10 لاکھ ہے ،ا س کی کْل ایک کروڑ 36 لاکھ آبادی کا سات اعشاریہ 35 فی صد ہے۔جموں و کشمیر کی علاقائی جماعت نیشنل کانفرنس کے رکن جسٹس (ر) حسنین مسعودی کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزار تِ انصاف و تفویض اختیارات نے نئی دہلی میں لوک سبھا میں بتایا تھا کہ علاقے میں ایک لاکھ آٹھ ہزار مرد اور سات ہزار خواتین بھنگ کااستعمال کرتی ہیں جب کہ پانچ لاکھ 34 مرد اور آٹھ ہزار خواتین افیون اور ایک لاکھ 60 ہزار مرد اور آٹھ ہزار خواتین مختلف اقسام کی نشہ آور اشیا کے استعمال کے عادی بن گئے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جمو ں و کشمیر کی 36 ہزار سے زیادہ خواتین نوجوان اور ادھیڑ عمر کے لوگ بھنگ کے عادی ہیں۔ منشیات کی لعنت نے وادی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہیاور تواتر کے ساتھ بیشتر نوجوان نشے کی لت میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ مرکزی حکومت کے مطابق جموں و کشمیر میں تقریبا دس لاکھ لوگ منشیات کے عادی ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ لاکھ مرد بھنگ استعمال کرتے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد ہیروئن، سانس لینے والی ادویات کے عادی ہو چکی ہیں، ایک لاکھ آٹھ ہزار مرد اور سات ہزار خواتین بھنگ کااستعمال کرتی ہیں جب کہ پانچ لاکھ 34 مرد اور آٹھ ہزارخواتین افیون اور ایک لاکھ 60 ہزار مرد اور آٹھ ہزار خواتین مختلف اقسام کی نشہ آور اشیا ء کے استعمال کے عادی بن گئے ہیں۔
سروے میں ایک لاکھ 27 ہزار مردوں اور سات ہزار خواتین کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ دَم کش ادویات لیتے ہیں اور ان میں بڑی تعداد کوکین اور اعصابی نظام کو متحرک کرنے والی ایمفٹامین( amphetamine) قسم کی ادویات اور ہیلو سینوجنز(hallucinogen) کی کیمیائی ْمرکبات استعمال کرتے ہیں۔ منشیات کے ڈیلر کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کے لئے قوم کے لئے تباہی کے گڑھے کھود رہے ہیں۔ ایسے افراد جو قوم کو نشے کی لت لگاتے ہیں، ملک و ملت کے ہی نہیں انسانیت کے بھی دشمن ہیںبلکہ ایسے لوگوں کا وجود معاشروںکی فلاح و بھلائی اور ملک وقوم کی ترقی کی راہ میں بڑی روکاوٹ ہے۔ کیونکہ نشہ باز شخص بہنوں کا اچھا بھائی ثابت نہیں ہوتا،بیوی ایسے شوہر سے نفرت کرنے لگتی ہے، والدین ایسے نا خلف ناہنجار کے ہاتھوں مجبور اور بے بس ہوتے ہیں۔ نشیلے کی اولاد صحیح خطوط پر تعلیم و تربیت سے محروم رہتی ہے، یار دوست بھی نشے کے عادی شخص سے دور ہوجاتے ہیں،ایسا فرد تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے،پھرسسک سسک کر مرنا اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ چونکہ خاندانوں کے ملاپ کو معاشرہ کہتے ہیں اور معاشروں سے قومیں بنتی ہیں، نتیجہ یہ کہ ایک نشہ باز ساری قوم کے لیے وبالِ جان بن جاتا ہے۔
سوچنا یہ ہے کہ نشئی اپنی ہلاکت کا ذمہ دار خود ہے یا پورا معاشرہ؟عوام کو چاہیے کہ جہاں کہیں بھی منشیات کا اڈہ ہو، اس کی نشاندہی کریں اور پولیس کے ساتھ مل کر اس کا صفایا کریں، گلی محلوں میں منشیات کے زہر کے خلاف انجمنیں معرض وجود میںآنی چاہیں جو منشیات فروشوں اور کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کریں، نیز عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر گواہی دیکر ان کو کیفرِ کردار تک پہنچا کر دم لیں۔ پولیس اکیلی کچھ بھی نہیں کر سکتی، عوام کا تعاون بہرحال ضروری ہے۔اگرپولیس اور عوام منشیات کے خلاف ایک ساتھ میدان عمل میں آئیں تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ منشیات فروشوں اورنشہ بازوں کا ٹھکانہ صرف جیل ہوگا۔ آج بحیثیت انسان کی ذمہ داری ہے کہ ہم معصوم بچوں اور نوجوان نسل کو نشے کی لعنت سے بچائیں۔ تمام مذہبی ادارے،سکول و کالج، سماج سدھار تنظیمیں،این جی او اور حکومتی سطح پر بھی یہ کام سر انجام دیا جانا چاہیے اور اس کے لئے ہم سب کو متحد ہوکر ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا تاکہ معاشرے کو اس لعنت سے روک سکیں۔
یاد رہے کہ جب تک منشیات کیاستعمال کے کو رواج اور بڑھا وادینے والے اسباب ومحرکات کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا،اس کے سد باب کی سنجیدہ کوشش نہیں کی جائے گی اس وقت تک اس مسئلے کو کنڑول نہیں کیا جا سکتا اور جب تک زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ذمہ داران بالخصوص علمائے کرام وغیرہم منبرومحراب سے منشیات کی روک تھام کے لئے سنجیدہ کردار ادا نہیں کریںگے، اس وقت تک اس سنگین صورت حال پر قابو پانا مشکل ہے۔
یہ کس درجہ افسوس ناک بات ہے کہ سگریٹ سازی کی صنعت کو باقاعدہ قانونی حیثیت حاصل ہے،لیکن یہ کس قدر مضحکہ خیزامر ہے کہ سگریٹ کی ڈبیہ پر’’خبردار!تمبا کو نوشی صحت کے لئے مضرہے‘‘جیساوعظ رقم کیا جاتا ہے،لیکن اس سگریٹ سازی کی صنعت کو روکنے یا اس کی خریدوفروخت کے حوالے سے کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ تمباکو نوشی،شراب نوشی،گانجے اور چرس کے خلاف صرف ایک دن نہیںبلکہ برس کے بارہ مہینے مہم چلائی جائے اورتمام طبقات بالخصوص میڈیا اور منبرومحراب منشیات کے سد باب کے حوالے سے اپناکردار ادا کریں۔
ای میل۔[email protected]