محمد امین اللہ
وجود والدین سے ہے کائنات میں وجود انسانی کی بقا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پانچ مقامات پر اپنے حق کے ساتھ والدین کے حقوق کو بیان فرمایا ہے۔ سورہ البقرہ ، اسرائیل ، سورۃ لقمان۔ اور فرمایا۔ و با لوالدین احسانا۔ اپنے والدین کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرو۔ احسان دراصل یہ ہے کہ شریعت اور معاشرتی اعتبار سے جس چیز پر تمہارا کلی حق ہے اس کو دوسرے کو دیدینا۔ والدین اولاد کی پرورش میں اپنا سب کچھ نچھاور کر دیتے ہیں۔ لہٰذا اولاد کا بھی فرض بنتا ہے کہ اپنے والدین کو خوش رکھنے کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ نچھاور کرے۔ ذرا سوچئے کہ نو ماہ کی تکلیفوں کے بعد جیسے ہی اک بچہ ماں کی سکم سے باہر آتا ہے اور ماں بچے کی رونے کی آواز سنتی ہے وہ اپنا جان لیوا درد زہ بھول جاتی ہے اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ چھا جاتی ہے۔ باپ بیٹے یا بیٹی کی آمد سن کر مٹھائی تقسیم کرنے لگتا ہے۔ اور پھر اولاد کی پرورش میں والدین ایسے مگن ہوتے ہیں کہ اپنا سکھ چین سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ” ھل جزاء ا لاحسان الا الاحسان۔ احسان کا بدلہ احسان ہے۔
سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے” تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنا اور اپنے والدین کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرو۔ ضعیفی کی حالت میں دونوں یا ان میں سے کوئی اک ہوں تو ان سے اُف تک نہ کرنا ، نرمی سے پیش آتا جھڑک کر بات نہ کرنا اور انکے حق میں یہ دعا کرنا کہ اے میرے رب ان کے ساتھ ویسے ہی شفقت کا رویہ اختیار کریں جیسا کہ انہوں نے بچپن میں میرے ساتھ رکھا۔”
اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا ” جو لوگ اپنے والدین سے ناروا سلوک کرتے ہیں اللہ ان کو دنیا اور آخرت دونوں جگہ سزا دے گا۔” یہ بات سو فیصد مشاہدے میں ہے کہ جو لوگ اپنے والدین کے ساتھ جیسا سلوک کرتے ہیں انکی اولادیں بڑھاپے میں ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتی ہیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے اور باپ کی رضا میں اللہ کی رضا شامل ہے۔اس حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جو ماں باپ کو راضی نہ کر سکا وہ اللہ کی خوشنودی سے محروم ہو گیا۔ اور جو اللہ کی خوشنودی سے محروم ہوا وہ جنت سے محروم ہوا۔
اک صحابی نے رسول صلی اللہ علیہ سے پوچھا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم زندگی میں معلوم کر سکتے ہیں کہ اللہ ہم سے راضی ہے یا ناراض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں تو اپنے باپ کو دیکھ اگر وہ تم کو دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے تو سمجھ لے اللہ بھی تم سے خوش ہے۔ ورنہ ا للہ تم سے ناراض ہے۔اک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ممبر رسول پر خطبہ دینے کے لئے چڑھے جب پہلے زینے پر قدم رکھا تو بلند آواز سے آ مین کہا دوسرے اور تیسرے زینے پر بھی آپ نے بلند آواز سے آ مین کہا۔ خطبے کے اختتام پر صحابہ نے پوچھا یارسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم آپ نے غیر معمولی طور پر یہ کلمہ کیوں کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلے زینے پر جبرائیل آے اور کہا جس کو رمضان المبارک کے روزے میسر ہوں اور وہ بلا عذر شرعی ترک کر دے وہ ہلاک ہو تو میں نے آمین کہا۔ دوسرے پر جبرائیل نے فرمایا جس شخص کو بوڑھے والدین دونوں یا اک ملے اور وہ ان کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار نہ کرے وہ ہلاک ہو تو میں نے آمین کہا۔ تیسرے پر جبرائیل نے کہا جب کسی کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا جائے اور وہ آپ پر درود نہ بھیجے تو وہ ہلاک ہو تو میں نے آمین کہا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جبرائیل کی بشارت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آمین کہنا کتنی سخت وعید ہے۔
اک صحابی رسول صلی ا للہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا یا رسولؐ میں نے اپنے بوڑھے والدین کو کاندھوں پر بیٹھا کر اور لمبی مسافت طے کرکے فریضہ حج کرایا ہے کیا میں نے ان کا حق ادا کر دیا۔ آپؐنے فرمایا نہیں۔اک صحابی آپ ؐسے جہاد پر جانے کی اجازت لینے آئے آپ نے پوچھا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں انہوں نے کہا میری ضعیف والدہ زندہ ہیں۔ آپ ص نے فرمایا جاؤ انکی خدمت کرو۔
اللہ تعالیٰ کائنات کا حقیقی خالق ہے اور والدین انسان کی پیدائش کے ظاہر اسباب ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنی تعظیم کے ساتھ ساتھ والدین کی تعظیم کو اولیت بخشی ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آپؐ نے فرمایا کہ میں نے معراج کی رات جنت میں تلاوت قرآن کی آواز سنی میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون ہے جبرائیل نے کہا یہ نعمان بن حارثہ ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ احسان ہے یہ احسان ہے یعنی ماں باپ سے حسن سلوک کی جزا ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی نے فرمایا کہ اک صحابی نے پوچھا یارسول اللّٰہؐ میرے بہتر سلوک کا مستحق کون ہے۔ آپ ؐنے فرمایا تمہاری ماں آپ ص نے یہ بات تین بار فرماء اور چوتھی بار کہا تیرا باپ۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ؐنے فرمایا اپنے والد کے فوت ہونے جانے کے بعد اس کے دوستوں سے حسن سلوک کرو۔ والدین کے حق میں نیکی یہ ہے کہ اپنی نمازوں اور روزوں میں ان کا بھی حق ادا کرو یعنی انکے حق میں نوافل نماز اور روزے رکھا کرو۔ یوں تو والدین کے حقوق اور فرائض کے متعلق قرآن اور حدیث میں فضیلت کے ساتھ ساتھ وعید بھی ہے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ جو اولاد اپنے والدین کا احترام اور خدمت نہیں کرتی اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی خود غرض نہیں ہو سکتا۔
اک طویل حدیث ہے کہ اک نوجوان صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ ؐ میرے والد میری اجازت کے بغیر میرا مال خرچ کردیتے ہیں۔ آپ ؐنے ان کے والد کو بلوایا۔ جب وہ صحابی گھر سے چلے تو راستے میں اشعار کی زبان میں بچے کی پیدائش کی آرزو سے لے محبت و شفقت اور پرورش کی دقتوں کو پڑھتے جا رہے تھے۔ اسی دوران جبرائیل نے آکراللہ کے رسول ؐ سے فرمایا کہ آپ نے جن کو بلوایا ہے پہلے ان سے راستے میں جو پڑھتے آرہے ہیں وہ سن لیجئے گا۔ جب وہ صحابی آئے تو آپ ؐ نے کہا پہلے وہ کچھ سنایئے جو آپ پڑھتے آرہے تھے صحابی نے بڑی گلو گیر آواز میں وہ سب کچھ سنایا وہ سناتے جا رہے تھے اور آپ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ آپؐ نے سخت ناراضگی سے نوجوان صحابی کو کہا جو کچھ تیرا ہے وہ سب تیرے باپ کا ہے۔
آج کل کی اولاد ضعیف ماں باپ کو home age Old میں داخل کروا کر یا پھر ناروا سلوک کر کے جہنم کا سزاوار بن رہی ہے اور یہ سب یورپ کی خود غرضانہ جدیدیت کا کرشمہ ہے اور سال کے کسی مخصوص تاریخ کو day mother’s اور day Father’sپر ملاقات کرکے کچھ تحفے تحائف دے کر بری الزمہ ہو جاتی ہے۔
ماں باپ جتنے بھی ضعیف ہو جائیں گھر میں اک سایہ دار شجر کے مانند ہوتے ہیں۔ والد تو گھر کی چھت کی مانند ہوتے ہیں۔اس بچے سے پوچھو جو یتیم ہیں اور جو والدین کے سائے سے محروم ہیں۔ اللہ کے رسولؐ یتیم تھے ۔سفر کے دوران آپ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہ آپ سے بچھڑیں ۔یہ غم آپ ؐ زندگی بھر نہیں بھولے۔ آپ اپنی رضاء ماں حضرت داعی حلیمہ کا بے حد احترام کرتے اور اپنی رضاء بہن حضرت سعدیہ کے لیے اپنی چادر بچھا دیتے اور تحائف دے کر رخصت کرتے۔ میرے پیارے نوجوانوں اگر دنیا میں جنت کا سودا پکہ کرنا ہے تو اپنے والدین کی خدمت اور اطاعت کرو۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی سے روایت ہے کہ ا للہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ا للہ کی اطاعت والد کے اطاعت کے بغیر ممکن نہیں۔دو میاں بیوی تکلیف اٹھا کر چار پانچ بچوں کی پرورش کر دیتے ہیں مگر جب یہ ضعیف ہو جاتے ہیں تو یہ بچے ان کی ذمہ داری اٹھانے سے کتراتے ہیں۔
اگرمعاشرے کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات مشاہدے میں آتی ہے کہ لوگوں میں والدین کے حوالے سے بے توجہی پائی جاتی ہے مگرکچھ لسانی اکائیوں اور قبائلی معاشرے میں آج بھی بڑے بوڑھوں کی عزت و تکریم زیادہ ہے۔ آج لڑکے اور لڑکیاں باغی ہوچکے ہیں۔ ہر شخص اپنی جوانی اپنی اولاد کے لئے اس امید پر قربان کرتا ہے کہ اس کی اولاد بوڑھاپے میں اس کے لئے لاٹھی کا سہارا بنے گی مگر آج یہی اولاد بوڑھے والدین کے سر پر لاٹھی بن کر برس رہی ہے۔
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)