بلال احمد پرے
یہ واقعی خوش آئند اقدام ہے کہ ایل جی انتظامیہ کی طرف سے ڈیجیٹل ہفتہ منانے کا حکم نامہ جاری ہوگیا ہے اور اب سے بڑی خوشی کی بات ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ بدعْنوانی سے پاک جموںوکشمیر ہفتہ بھی منانے کا حکم نامہ جاری کر دیا گیا ہے۔یہ ہفتہ 4 سے 10 ستمبر تک یو ٹی، ضلعی، تحصیل اور پنچایت سطح پر بڑے ہی جوش و خروش سے منایا جائے گا جس کے دوران عوامی دلچسپی کے مسائل کو بروقت حل کیا جائے گا۔ جی اے ڈی کی جانب سے صادر کردہ حکم نامہ میں خصوصی ہدایت دی گئی ہے کہ محکمہ مال، بجلی، جل شکتی، خوراک، بجلی کے متعلق عوام کے مسائل کو پربھاری آفیسرموقع پر ہی گرام سبھا میں حل کریں گے۔ اس دوران تحصیل اور بلاک سطح پر موصول شدہ سبھی شکایتیں متعلقہ اضلاع کو روانہ کی جائے گی۔ جہاں سے وہ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کو ازالہ کے لئے بھیج دی جائے گی۔
بدعْنوانی سے پاک ہفتہ منانے کا اصل مقصد یہی ہے کہ رشوت لینے اور دینے کی صدیوں سے چل پڑی رسم کو جڑ سے ختم کیا جائے اور اس کے بدلے صاف و شفافیت اور احتسابی گورننس لائی جائے تاکہ انتظامیہ اور عوام کے رشتہ کو بلا رشوت کے پاک و صاف ماحول میں مزید استوار کیا جائے۔ حالانکہ یہ سب تب ہی ممکن ہے جب ایک انسان کو عموماً اور سرکاری ملازموں کے اندر خصوصاً درج ذیل خصوصیات کا پیدا ہونا لازمی بن جائے۔ جس سے بدعنوانی جیسے ناسور کو کافی حد تک قابو کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ سچائی کا پیکر: سب سے پہلے ایک عہدیدار کے اندر سچائی اور صداقت کوٹ کوٹ کر بھری ہو۔ وہ اپنے امور کی انجام دہی کے لئے جھوٹ کے بجائے سچائی کو اختیار کرتا ہو۔ ہر وقت اپنے سینئر افسران کو سچائی پر مبنی رپورٹ پیش کرے۔ اپنے ماتحت یا ہم منصب کے خلاف ہمیشہ جھوٹ بولنے سے پرہیز کرے۔ عوامی سطح پر لوگوں کو جھوٹے وعدے دینے کے بجائے سچائی اور صداقت پر مبنی وعدے دے جس سے ان کے دل کو جیتا جا سکتا ہے۔
۲۔عدل و انصاف: کسی بھی عہدہ پر فائض ہوتے وقت عدل و انصاف کے تقاضے پورا کرے۔ اپنی ذمہ داری نبھاتے وقت رشتہ داروں اور دوستوں کی حمایت کرنے سے گریز کرے اور ہر وقت غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کرے۔ سرکار کی جانب سے عطا کردہ اختیارات (powers) کو کبھی بھی ناجائز طریقے سے استعمال نہ کرے بلکہ ہمیشہ قانون کی پابندی اور پاسداری کرے۔ عوام کے کام کاج میں بلا وجہ کبھی بھی تاخیر نہ کرے ۔ نہیں تو لوگ رشوت دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔
۳۔ بے لوث خدمت گار: ایک سرکاری ملازم کے اندر یہ شرف بھی موجود ہو کہ وہ بلا لالچ کے اپنی ذمہ داری بحسن خوبی انجام دے۔ ہمیشہ اپنے تنخواہ پر ہی اکتفا کرے، ورنہ مال کی خواہش حیوان سے بھی بدتر بنا دیتی ہے۔ جس کے بعد اس سے کبھی حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے درمیان امتیاز کرنے کی بصیرت موجود نہیں رہتی۔ جو کچھ اللہ پاک نے عطا کیا ہو اس پر قناعت اور شکر گزاری کرنا چاہئے۔
۴۔حْب الوطنی:سرکاری عہدیدار کے اندر حب الوطنی کا جذبہ بھی موجود ہو۔ اس طرح کے جذبہ کے فقدان پر وہ اپنے وطن سے بے وفائی برت سکتا ہے۔ جس کے لئے اس نے نوکری حاصل کرتے وقت وفا شعاری کا حلف نامہ بھی لیا ہوتا ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کو جرأت مندانہ طریقے اور دلیری سے انجام دینا چاہئے۔ اور دوران ڈیوٹی سبھی چیلینجز کو بہادری سے سامنا کرنا چاہئے۔
۵۔ جذبۂ ایثار: سرکاری عہدیدار کے اندر لوگوں کے تئیں جذبۂ ایثار کا وصف موجود ہوتاکہ وہ عوام کے مشکلات کا دْکھ و درد بہ آسانی سمجھ سکے۔ وہ اپنے علاقے یا ڈومین کے اندر آنے والی ذمہ داریوں کو ترجیحی بنیادوں پر نبھانا جانتا ہو۔ اور اس سے خود کو عوام دوست بنانے کا گْن موجود ہو۔ عوام کے تئیں اپنے آپ کو ہر وقت دستیاب اور ان کی کال پر پہلا Responder ہو۔
۶۔ خوفِ خدا: سرکاری عہدیدار کو ہمیشہ خدا کا خوف دل میں بٹھائے رکھنا چاہئے تاکہ کبھی بھی اس کے ہاتھوں سے کوئی غیر قانونی و غیر اخلاقی کام سرزد نہ ہو سکے۔ اس سے اس بات کا احساس ہو کہ یہاں کی چند روزہ زندگی کے بعد اس سے اپنے خالق و مالک کے سامنے جواب دہ ہونا ہے۔ وہ اپنے آپ کو خدا کی طرف سے آزمائش میں ڈالا گیا بندہ تصور کرے۔ جس سے عوام کی خدمات کے لئے منتخب کیا گیا ہے اور اس سے ان ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دینا ہوگا جس کے لئے اس سے ماہانہ سرکاری تنخواہ ملتا ہے۔
الغرض سماج میں ہر ایک ذمہ دار شخص کے اندر درج بالا خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔ تاکہ بدعْنوانی سے ملک کی معیشت کو پہنچے ہوئے نقصان کی بھرپائی کی جا سکیں۔ اس کے علاوہ اس میں دیگر اوصاف بھی موجود ہو جو سماج پر مثبت اثرات مرتب کر سکیں۔ ایسے اشخاص سماج کے لئے مشعلِ راہ بن جاتے ہیں۔ اس طرح سے رشوت ستانی، جو ایک مْہلک معاشرتی ناسور ہے، کو جڑ سے ختم کیا جا سکے اور رشوت سے پاک ماحول پیدا کرنے میں اپنا کلیدی کردار بھی ادا کیا جائے۔
پتہ۔ہاری پاری گام ترال،کشمیر
رابطہ۔ 9858109109
ای میل۔ [email protected]
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)