شیخ ولی محمد
قومی تعلیمی پالیسی کو وجود میں لانے کا مقصد یہ ہے کہ دور حاضر اور مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کیا جائے ۔ گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران تعلیمی اداروں سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں تعلیم یافتہ بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کر نے کے باوجود روزگار کی تلاش میں اکثر و بیشتر بھٹکتے رہے ۔ کسی سکول ، کالج یانیورسٹی میں داخلہ لیتے وقت طالب علم کے ذہن میں یہی خیال آتاہے کہ مجھے تعلیمی ادارے سے فارغ ہونے کے بعد گورنمنٹ سیکٹر میں سروس کرنا مطلوب ہے ۔ تاہم جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹائزیشن اور دیگر وجوہات نے سرکاری محکموں میں انسانی و مسائل کے استعمال کو محدود کر کے رکھ دیا ہے ۔ جس محکمہ کے کسی دفتر میں 50ملازمین مختلف کاموں میں مصروف ہوتے تھے ۔وہی کام آج ٹیکنالوجی کی بدولت 2 یا 3 انجام دیتے ہیں ۔ ہر دفتر میں کئی چراسی آرڈرلی ہواکرتے تھے جن کا کام دفتری خطوط کو ایک دفتر سے دوسرے دفتر تک پہنچانا تھا لیکن آج ای ۔ آفس/ ای ۔ میل کی بدولت یہ کام ان کے بغیر ہی ہوتاہے ۔ ٹیکنالوجی انقلاب نے روز گار کو برُی طرح متاثر کیا ۔ ایسے میں مسائل کا حل ڈھونڈنا اور روزگار سے جڑے ہوئے سوالات کا جواب دینا ماہرین تعلیم اور محققین کا کام ہے ۔ کافی عرصہ کے بعد نئی تعلیمی پالسی کا نسخہ سامنے لایا گیا جس پر اگر تعلیمی ادارے عمل پیرا ہوں گے تو مستقبل میں ہمارے تعلیمی ادارے ، نوکری ڈھونڈنے والوں(Job Seekers) کے بجائے نوکری دلانے والے( Job Creaters/ Job Providers)پیدا کریں گے ۔ دورحاضر کا یہی تقاضا ہے کہ بچے ابتدائی کلاسوں سے ہی کسی فن (Art)یا Skillکی طرف مائل ہوجائیں اور آگے چل کر جب وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں قدم رکھیں تو وہاں پر انہیں پیشہ ورانہ کورسز(Professional Courses)کو پڑھنے میں کوئی مشکل یا قباحت محسوس نہ ہو ۔ جب پرائمری کلاسوں سے ہی بچوں کی دلچسپی(Skilled Based)مضامین کی طرف ہو تو وہ آگے چلکر خوشی اور مسرت سے اپنے اس من پسند فیلڈ کا انتخاب کرسکتے ہیں جن میں نہ صرف ان کا روزگار یقینی ہو بلکہ وہ دیگر افراد کو بھی روزگار دینے کے قابل ہوں ۔ اس پیشہ ورانہ جذبے کواُبھارنے کے لئے تعلیمی اداروں پر یہ فرض بنتا ہے کہ کتابوں اور کلاس روم کے ساتھ ساتھ ایسی سرگرمیاں انجام دیں جو عملی طور بچوں کو روز گار کے حوالے سے سوچنے پر مجبور کرسکیں ۔ اس حوالے سے ایک طرف ہم مقامی سطح پر لوکل آرٹ اور دستکاریوں کی طرف بچوں کو جڑا سکتے ہیں تودوسری طرف صنعتی مراکز کا سیر کراسکتے ہیں ۔
اگر کشمیر کی اقتصادیات کی بات کی جائے تو یہاں پر 65 فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے ۔ دیہی آبادی ایگریکلچر کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہونے کی بنیاد پر ان کا روزگار اسی سے وابستہ ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت ہر سیکٹر میں انقلاب برپا ہوا ۔ زراعت اور اسے منسلک شعبوں میں ترقی اور بہتری کی خاطر اس وقت زرعی یونیورسٹی SKUASTسرگرم عمل ہے ۔ اس لحاظ سے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلباء اگر اس یونیورسٹی کی سیر پر جائیں تویہ مستقبل میں ان کے کیرئر کیلئے سود مند ثابت ہوسکتا ہے۔ شیر کشمیر یونیورسٹی آف ایگری کلچرل سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی اگست1982میں قائم ہوئی ۔ یہ یونیورسٹی اینڈین کونسل آف ایگری کلچرل ریسرچICARسے منسلک ہے ۔ اس وقت درجہ بندی کے لحاظ سے ملک کی چھٹی بہترین اگری کلچرل یونیورسٹی ہے۔شہر سرینگر کے مشرقی جانب مشہور جھیل ڈل کے کنارے پر شالیما رمیں وسیع و عریض ایریاء پر سکاسٹ کا کیمپس واقع ہے ۔ اس کے علاوہ واڈورہ سوپور ، شہامہ گاندربل علاقے میں یو نیورسٹی کے کئی شعبہ جات قائم ہیں ۔ وادی کے سبھی اضلاع میں یونیورسٹی سے منسلک کرشی وگیان کیندرKVK’sکام کررہے ہیں ۔ یو نیو رسٹی کی فیکلیٹزاس طرح ہیں:۔
1: Faculty of Agriculture Wadura Baramulla
2: Faculty of Horticulture Shalimar Srinagar
3: Faculty of Veterinary Sciences & Animal Husbandry Shuhama Ganderbal
4: Faculty of Fisheries Rengal Gandrbal
5: Faculty of Forestry Benhama Ganderbal
6: Faculty of Sericulture , Mirgund Pattan
7: College of Agriculture Engineering and Technology Shalimar Srinagar
زرعی یونیورسٹی کے قیام کی غرض و غایت سائنسی بنیادوں پر ایگریکلچرل تعلیم ، ریسرچ اور یونیورسٹی سے باہر لوگوں تک نئی تحقیق اور ٹیکنالوجی پہنچانا ہے ۔ اس وقت یونیورسٹی میں مختلف شعبوں اور مضامین میں گریجویٹ ، پوسٹ گریجویٹ اور ڈاکٹریل ( ریسرچ ) کے کورسز چل رہے ہیں ۔ اس اعلیٰ سطحی زرعی ادارے کے تمام شعبہ جات/ڈویژن لائبریری ، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، ہوسٹل سہولیات اور جدید لیبارٹرز سے لیس ہیں ۔ ہر ایک ڈیپارٹمنٹ میں طالب علموں کو ایگریکلچر اور اسے منسلک سیکٹر کے حوالے سے ضروری آگاہی اور جانکاری سائنسی بنیادوں پر دی جاتی ہے۔ جیسے اعلیٰ معیاری بھیجوں( HYV Seeds)کی کاشت، سائنسی طرز پر فصلوں اور سبزیوں کی کاشت ، روایتی باغبانی کا تحفظ اور ہائی ڈنسٹی پلانٹیشن(High Density Plantation)کو متعارف کرنا ،معیاری میو ہ جات پودوںکی کاشت ،جڑی بوٹیاں، پشو پالن اور بھیڑ پالن ، ڈائری اور شیپ فارموں کو عمل میں لانا ، ابریشم کی صنعت کی نئے سرے سے بحالی ،ماہی گیری کے تحت اعلیٰ قسم کی مچھلی کے پیداوار میں اضافہ کرنا ۔کیمیائی کے بجائے نامیاتی طرز پر میوہ جات کی کاشت ، سبزیوں ، فصلوں کی کاشت ، مشروم ، شہداور پھولبانی کو فروغ دینا وغیرہ ۔
ایک طرف زرعی یونیورسٹی جدید طرز پر زراعتی تعلیم و تربیت کو لوگوں تک پہنچانے میں سر گرم عمل ہے تو دوسری طرف وزارت زراعت وبہبودِکسان کے تحت مرکزی اور ریاستی /یوٹی سطح کی معاونت سکیموں کے تحت زراعت اور اسے منسلک سیکٹروں میں آمدن بخش یونٹوں کیلئے بہت سارے مراعات دیئے جاتے ہیں۔ ان نفع بخش سکیموں میں سے کچھ اس طرح ہیں ؛
راشٹر یہ کرشی وکاس یوجنا
1: Rashtriya Krishi Vikas Yojna ( RKVY)
2: Sub-Mission on Agriculture Mechanzation ( SMAM)
3: Mission for intergrated Development of Horticulture (MIDH)
4: National Mission on Agriculture Extension and Technology ( NMAET)
5: Agriculture Technology Management Agency ( ATMA)
6: National Mission for Sustainable Agriculture (NMSA)
7: Pradhan Mantri Krishi Sinchayee Yojna ( PMKSY)
8: Dairy Entrepreneurship Development Scheme ( DEDS)
9: Integrated Dairy Development Scheme ( IDDS)
10: National Mission for Protien Supplement ( NMPS)
11: Rural Back yard Polutry Development ( RBPD)
12: Back Yard Sheep Farming
13: Mini Sheep Farming
14: Blue Revelution
ان نفع بخش سکیموں کے علاوہ زراعت اور اسے جڑے ہوئے دیگر سیکٹروں میں روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنے کے لئے مرکزی سرکار نے جموں و کشمیر یوٹی کیلئے حال ہی میں زرعی ہمہ جہتی ترقیاتی پروگرام( Agriculture Holistic Development Progremme )شروع کیا ہے ۔ چنانچہ رواں مالی سال2023-24کے آغاز میں ہی اس بڑے پروجیکٹ کی آگاہی و بیداری کیلئے مختلف ڈیپارٹمنٹوں ( ایگر یکلچر ،ہارٹی کلچر ، سری کلچر ، اینمل ہسبنڈری ، شپ ہسبنڈری ، فلوری کلچر اور فشریز ) نے مشترکہ طور پر بہت سارے پروگرام منعقد کئے ۔ اس بڑے ترقیاتی زرعی گرام کے تحت جموں وکشمیر کے لوگوں کیلئے زراعت کے میدان میں روزگار کے کافی مواقع موجود ہیں ۔ روزگار کے ان خوابوں کوشرمندہ تعبیر کرنے میںسکاسٹ اہم رول ادا کر سکتی ہے۔ حالانکہ اسے قبل بھی یہاں کے بہت سارے نوجوانوں اور خواتین نے زرعی سیکٹر میں مختلف یونٹوں کو قائم کرکے کامیابی کی کہانیاں رقم کی ہیں ۔ نئی تعلیمی پالسی کی پکار یہی ہے کہ تعلیم کو روزگار کے ساتھ جوڑا جائے اور علم اور عمل کا رشتہ مظبوط کیا جائے جس کے لئے شیر کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچر ل سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کے درواز ے کھلے ہیں ۔ اس یونیورسٹی کی سیر کسی بھی تعلیمی ادارے کے بچوں کے لئے روزگار کے سفر کے حوالے سے ایک سنگ میل ثابت ہوسکتی ہے ۔ اسی طرح دیگر پیشہ ورانہ اور ٹیکنکل ادارے جیسے انڈسٹرئیل ٹراننگ انسٹی چیوٹ پالی ٹیکنیک کالجز،انٹرپر ینیورشپ ڈیولپمنٹ انسٹی چیوٹ وغیرہ کا مشاہدہ کرنا تعلیم کو روزگار سے جوڑنے کا ایک وسیلہ ثابت ہوسکتا ہے ۔