سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے گزشتہ ہفتے 18 اگست کو ریاض، سعودی عرب میں ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان سے ملاقات کی۔ کئی سال کی تلخ دشمنی جس نے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کیا، وہ گزشتہ مارچ میں چین کی ثالثی میں ہونے والی مفاہمت کے بعد دونوں ملکوں میں تعلقات استوار ہونے کے بعد اعلیٰ سطحی مذاکرات کے سلسلے میں یہ دوسری ملاقات تھی۔
سعودی عرب نے 2016 میں ایران کے ساتھ تعلقات اس وقت منقطع کرلئے تھے، جب تہران میں سعودی سفارت خانے پر مظاہرین نے ریاض کی جانب سے ممتاز شیعہ عالم نمر ال نمر کو پھانسی دینے کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے حملہ کیا تھا۔
ایران کے انقلابی، شیعہ مسلم رہنماؤں اور سعودی عرب کے سنی حکمران خاندان کے درمیان دشمنی نے مشرق وسطیٰ کی علاقائی سیاست پر برسوں تک غلبہ قائم رکھا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی بالادستی کے لئے مختلف ممالک جیسے کہ عراق، شام، لبنان، یمن اور بحرین میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کیلئے ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں کی تھیں۔
حالیہ ملاقات کے بعد، ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی تسنیم نے رپورٹ کیا کہ عبداللہیان کے بقول محمد بن سلمان نے ان کی تہران کے دورے کی دعوت قبول کر لی ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ محمد بن سلمان نے کس طرح حالیہ برسوں میں امریکہ کے ساتھ تاریخی طور پر قریبی تعلقات میں مشکلات کے آثار کے درمیان سعودی خارجہ پالیسی کو نئے سرے سے ترتیب دینے پر زور دیا ہے۔
اس سے قبل سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل نے جون میں تہران کا دورہ کیا تھا اور کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ’مناسب وقت‘ پر سعودی مملکت کا دورہ کریں گے۔ دریں اثنا، سعودی وزیر دفاع کے معاون طلال العتیبی نے گزشتہ ہفتے ماسکو میں بین الاقوامی سلامتی سے متعلق 11ویں کانفرنس کے موقع پر ایران کی مسلح افواج کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف عزیز ناصر زادہ سے ملاقات کی۔ سعودی وزارت دفاع کے بقول دونوں ملکوں کے حکام نے دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ ان کو بہتر بنانے کے طریقوں کا جائزہ لیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمد بن سلمان مستقبل کے لئے دانشمندانہ انداز اپنا رہے ہیں اور اپنی تمام ترجیحات ایک ذریعے سے حاصل کرنے کے لیے کوشاں نہیں ہیں۔ اس کے بجائے وہ پرانے حریفوں کے ساتھ تعلقات میں نرمی لا کر خطے میں روس اور چین کے ساتھ مل کر امریکی بالادستی کو توڑنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔
بظاہر، برسوں کی دشمنی کے بعد، اور کچھ اہم علاقائی موضوعات پر گزشتہ کے مقابلے پچھلے برسوں میں دونوں ملکوں نے نرم رویہ بھی اختیا رکیا ہے ساتھ ہی دونوں فریقوں کے پاس حکمت عملی تبدیل کرنے کی وجہ بھی ہے۔
ایرانی حکام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای امریکہ کی طرف سے مسلط کردہ سیاسی اور اقتصادی پابندیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ نئے تعلقات کو ایسا کرنے کے لئے ایک طریقہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اس دوران سعودی عرب نے علاقائی سلامتی کے خدشات کو مشترکہ طور پر حل کرنے کے لئے امریکی حمایت پر اپنا اعتماد کم کردیا ہے اوراس درمیان میں وہ چین کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے میں زیادہ سرگرم رہا ہے، جس نے ایران کے ساتھ بھی اچھے تعلقات برقرار رکھے ہیں۔
ایران کو یہ بھی امید ہے کہ یمن میں حوتیوں کو نئے تعلقات سے قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی اور عراق، شام اور لبنان میں ایران کا کردار بڑھے گا۔ ایران بھی سعودی کے ساتھ مفاہمت کے ذریعے امریکہ اور اسرائیل کو کمزور کرنے کی امید رکھتا ہے۔ یہ حکمت عملی ایران میں کھلے عام بیان کی گئی ہے جہاں حکام خطے میں امریکی اثر و رسوخ میں کمی پر فخر کرتے ہیں۔
تاہم، صرف ایران ہی ایسا نہیں ہے جو یہ چاہتا ہے۔ سعودی عرب کا بھی ایک ایجنڈا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لئے اس نے خطے میں اپنی پالیسیوں کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی کوشش کی ہے۔
مزید برآں ریاض کی آزاد پالیسی میں اب چین اور روس تک رسائی اور خطے اور بیرون ملک اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کی کوشش بھی شامل ہے۔ لیکن یہ قدم ممکنہ اسرائیل۔سعودی تعلقات میں مثبت ترقی کے بارے میں بڑھتی ہوئی اطلاعات کے درمیان آتا ہے اور شاید ایران کا یہ ماننا ہے کہ اگر وہ سعودی عرب کے قریب آتا ہے تو پھر وہ اسے اسرائیل سے دور کرسکتا ہے۔
ایران کی ریاض میں دوستانہ کوششیں نہ صرف تہران کے فائدے کیلئے ہیں بلکہ سعودی عرب نے بھی یہ دیکھا ہے کہ ایران اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں توازن کس طرح مغرب میں اس کا اثر و رسوخ بڑھا سکتا ہے۔ یہ وہی طریقہ ہے جسے قطر اور ترکی ماضی میں استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس لیے ایران اور سعودی عرب، دونوں کے لئے توقعات سے زیادہ فائدہ اٹھانا ممکن نظر آرہا ہے۔
دریں اثنا، عرب نیوز کے مطابق، کویت کے وزیر خارجہ شیخ سالم عبداللہ الجابر الصباح نے ایرانی دورے کی تعریف کی ہے۔کویت نے پچھلی دہائیوں کے دوران خطے کے مختلف واقعات کے بارے میں انتہائی محتاط رویہ اپنائے رکھا ہے ، اور شاید اسی ریاض اور تہران کے درمیان تناؤ کو دور سے دیکھتا رہا اور ان کے درمیان ثالثی کی کبھی کوشش نہیں کی۔ اس لئے کویت اس نئی مفاہمت کو خلیج کے لئے ایک بڑے ممکنہ فائدے کے طور پر دیکھتا ہے۔
دریں اثناء شام کی خبر رساں ایجنسی ال مانیٹر کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ عراق کے القائم سے ہو کر فرات کے کنارے البوکمال تک جانے والی ایرانی راہداری کو محدود کرنے کے لئے کارروائی نہیں کرے گا، اور ایران کو لبنان اور شام میں ہتھیار منتقل کرنے کے قابل بنائے گا۔ عراق میں ایران کی ملیشیاؤں کی پشت پناہی امریکہ کیلئے خطرہ ہے اور کردستان کے خود مختار علاقے کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔ یمن میں اگرچہ کچھ مسائل حل ہو گئے ہیں لیکن ملک میں تقسیم کا مجموعی مسئلہ بدستور موجود ہے۔
تاہم، تازہ ترین پیش رفت پر اسرائیل کے نقطہ نظر کوبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یروشلم پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اخبار نے رائے ظاہر کی ہے کہ ایران- سعودی مفاہمت صرف اسی حد تک آگے جا سکتی ہے۔ خطے میں بہت سے مختلف مسائل ہیں اور متعدد ممالک میں ایران کا کردار ان ممالک کو عدم استحکام کا شکار بنا رہا ہے۔ ایران دوسروں کو اسرائیل کے خلاف بھڑکانے اور فلسطینی اسلامی جہاد جیسے گروپوں کو استعمال کرکے مغربی کنارے میں کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اس رپورٹ سے صاف ظاہر ہے کہ ایران۔ سعودی عرب کے درمیان تعلقات استوار ہونے کو اسرائیل کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ دونوں بڑی طاقتیں ایک ہوجاتی ہیں تو پھر وہ اسرائیل کے خلاف متحدہ قدم اٹھانے کے لیے بھی کام کرسکتی ہیں۔
مجموعی طور پر اعلیٰ قیادت اور دفاعی حکام کے درمیان ہونے والی گزشتہ ہفتے کی ملاقاتوں سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ دونوں پرانے علاقائی حریفوں کے درمیان مستقبل قریب میں معاملات تیز رفتاری سے آگے بڑھ سکتے ہیں، لیکن وہ ایک دوسرے کے مخالف ہونے کے بجائے زیادہ ہم آہنگ ہوں گے، اور اس میں سب سے زیادہ نقصان خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو ہو سکتا ہے۔ حالیہ عرصے میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ امریکی سفارتی پالیسی کے تحت اس کی موجودہ ترجیحات چین کے اثرورسوخ کو کم کرنے پر زیادہ مرکوز ہیں اور شاید اسی وجہ سے امریکہ کی جانب سے ابھی تک کسی بھی طریقے کا ردِّ عمل سامنے نہیں آیا ہے جبکہ امریکی پالیسی ساز اس خطرے کو نظرانداز نہیں کرسکتے ہیں کہ اگر خطے میں یہ دونوں شیعہ سنی طاقتیں مل جاتی ہیں تو پھر امریکہ کا وہاں قابلِ قدر کردار ختم ہوسکتا ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)
بغلی سرخی
’’ایران اور سعودی عرب کے درمیان 2016 میںمنقطع ہونے والے سفارتی اور حکومتی تعلقات دوبارہ بحال کرنے کے لیے دونوں ملکوں نے محتاط طریقے سے سفارتی تبادلوں کا ایک نیا باب شروع کیا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔