سیول سروس امتحانات اور کشمیر
تعلیم یافتہ نوجوانوں میں شوق سے زیادہ ڈر کیوں!
حسب ِ حال
بلال احمد پرے
ہر ایک طالب علم کا اپنا ایک مقصد ہوتا ہے جسے وہ ایک خوبصورت خواب کی طرح سجاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ شب و روز بے انتہا محنت کر کے اس سے حقیقت میں بدل دے دیتا ہے۔ چونکہ بلند سوچ رکھنے کی تعلیم بھی خالق کائنات سے ملتی ہے۔ اسلام کا روح اور ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ دوسروں کو نفع پہنچایا جائے۔ یہ نفع چاہئے دینی ہو یا دنیوی، انفرادی سطح پہ ہو یا اجتماعی سطح پہ، سماجی، معاشی، تعلیمی، اخلاقی ہو یا سیاسی طرح کا ہو۔ ایک اچھے مسلمان کی خوبی بھی یہی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہو جائے۔
پڑھائی مکمل ہونے پر اچھی خاصی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ہر ایک طالب علم چاہتا ہے کہ اس سے بہترین روزگار مل جائے لیکن علاقائی اور قومی مسابقتی جیسے امتحانات کے لئے بہت کم طلباء و طالبات حصّہ لیتے ہیں۔ جس کے لئے ہمارے یہاں جموںوکشمیر پبلک سروس کمیشن (J&KPSC) اور ملکی سطح پر یو پی ایس سی (UPSC) ادارہ جات تقریباً ہر سال امتحانات منعقد کرتے ہیں۔دیکھا جائے تو ایسے امتحانات میں شریک ہونے والے خواہشمند امیدواروں کے اندر شوق سے زیادہ ڈر پایا جاتا ہے اور صرف ان خاندانوں کے بچے بے خوف ہوتے ہوئے شریک امتحان ہوتے ہیں جن کے گھر میں پہلے سے کوئی آفیسرہو جس نے جے کے پی ایس سی یا یو پی ایس سی امتحان پاس کیا ہو۔ کیونکہ اس طرح سے ایسے امیدواروں میں امتحان کے بارے میں ساری آگاہی، طریقہ کار، سلیبس، اہمیت، کیریئر و دیگر ضروری جانکاری گھر میں ہی ابتداء سے میسر ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں اکثر امیدواروں کو اس طرح کے مسابقتی امتحانات کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وادی کشمیر سے اس میں ایک قلیل تعداد حصّہ لینے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو جاتی ہے۔
آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہمارے یہاں جموںوکشمیر سروسز سلیکشن بورڈ(JKSSB) نوٹیفکیشن کو چند پوسٹس کی خاطر لاکھوں درخواستیں موصول ہوتی ہیں جب کہ سیول سروس امتحانات جس میں کے اے ایس (KAS) اور کے پی ایس (KPS) جیسی بہترین پوسٹس زیادہ تر مختص ہوتی ہے، کے لئے صرف چند درخواستیں موصول ہوتی ہے۔ اور کئی بار کمیشن کو آخری تاریخ میں مزید توسیع کرنا پڑتی ہے۔
پچھلے کئی دہائیوں سے دیکھا جائے، تو جے کے پی ایس سی کو کے اے ایس امتحانات کے لئے صوبہ جموں کے مقابلے میں وادیٔ کشمیر سے بہت ہی کم امیدواروں سے درخواستیں موصول ہوئی ہیں اور 2010ء میں جب ڈاکٹر شاہ فیصل نے آئی اے ایس امتحان ٹاپ کیا تھا، کے بعد ایک خاصی تعداد میں امیدواروں کے اندر اس طرح کے امتحانات کی طرف خاصی دلچسپی، شوق و ذوق اور لگن پیدا ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ ریاست کے باہر بھی کئی اْمیدواروں میں شرکت ہونے کی تحریک ملی تھی اور اس کے بعد وادیٔ کشمیر سے کئی امیدواروں نے آئی اے ایس (IAS) اور کے اے ایس امتحان میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ بھی کر کے دکھایا۔ حالانکہ ڈاکٹر شاہ فیصل کا کہنا ہے کہ اس سے ایم بی بی ایس کے تیسرے سیمسٹر تک آئی اے ایس جیسے ملکی سطح کے اعلیٰ امتحان کے بارے میں کوئی خاص جانکاری حاصل نہیں تھی۔ یہی حال آج بھی دیہی علاقوں میں لکھے پڑھے نوجوانوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
اگر جموںوکشمیر پبلک سروس کمیشن کی گزشتہ نوٹیفکیشن کا تجزیہ کریں جو 26 فروری 2021ء اور 19 اپریل 2022ء کو مشتہر کی گئی تھی تومعلوم ہوتا ہے کہ اس کے تحت صرف 20790 اور 23571 امیدوار پریلِمز (Prelims) میں بالترتیب شامل ہوئے تھے۔ جن میں سے کمیشن کے طے کردہ معیار کے مطابق 4462 اور 4944 امیدواروں کو مینز (Mains) کیلئے بالترتیب کامیاب قرار دیا گیا تھا۔ ان میں سے صرف 3916 اور 3891 امیدوار تمام پرچوں میں بالترتیب حاضر ہوئے تھے اور بعد میں سے صرف 648 اور 787 امیدواروں کو انٹرویو یا شخصیتی ٹیسٹ کیلئے بالترتیب اہل قرار دیا گیا تھا۔
چونکہ ہر ایک طالب علم کی ترجیحات مختلف ہو سکتی ہیں۔ وادی کشمیر میں مقیم امیدوار ایم بی بی ایس اور انجینئرنگ کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ چناب ویلی سول سروسز کو ترجیح دیتے ہیں جو اُس طرف سے زیادہ سے زیادہ انتخاب کرنے کی بنیادی وجہ بھی ہے۔ وادی کے موقر روزنامہ کے ایک نامہ نگار سے اپنے ایک خاص انٹرویو میں ریٹائر آئی اے ایس افسر اور گورنر کے سابق مشیر خورشید احمد گنائی صاحب کا کہنا تھا کہ “مساوی نمائندگی ہمیشہ مطلوب رہی ہے لیکن اس سے عملی طور پر حاصل کرنا مشکل ہے۔ مساوی نمائندگی کا فائدہ یہ ہے کہ عوام شاید زیادہ سکون کا احساس محسوس کر سکتی ہے جب وہ مقامی افسران اور اہلکاروں کو ان کی خدمت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ وہ ان تک آسانی سے ازالے کے لئے رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔”
اسی طرح سابق چیئرمین جے اینڈ کے پبلک سروس کمیشن لطیف الزمان دیوا صاحب کا کہنا ہے کہ ” روایتی طور پر1968ء سے ہی صوبہ جموں کے مقابلے میں صوبہ کشمیر سے سول سروس امتحانات میں حصّہ لینے والے امیدواروں کی تعداد بہت ہی کم رہی تھی۔ لہٰذا جب امتحان میں حصّہ لینے والے امیدواروں کی تعداد بہت کم ہے، انتخاب اتنا اچھا نہیں ہوگا۔ کشمیر کی جانب سے کم شرکت کی بنیادی وجہ دونوں صوبوں کے درمیان تصوراتی اختلافات کا ہے۔ کشمیر میں نوجوانوں اور خاندانوں کی ترجیحات میں مہارت حاصل کرنا یا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا رہا ہے۔ یہاں پہلی ترجیح ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی ہے اور اگر امیدواروں کو ان شعبوں میں داخلہ نہیں ملتا ہے تو وہ اعلیٰ تعلیم کا انتخاب کرتے ہیں۔”
ان کا کہنا ہے کہ ” گورننس کے نظام میں مقامی لوگوں کی موجودگی نہ صرف عوامی خدمات کی فراہمی کیلئے مطلوب ہے بلکہ اس سے عوام کو گورننس میں شرکت کا احساس بھی ملتا ہے۔ اگر آپ کے پاس انتظامیہ میں مقامی لوگ نہیں ہیں تو پالیسی سازی پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ چونکہ مقامی لوگوں کے پاس مقامی مسائل اور ترقیاتی مسائل کے بارے میں مقامی معلومات اور ادارہ جاتی میموری زیادہ ہوتی ہے، اس حد تک کم مقامی موجودگی اس فائدہ کو خارج کر دیتی ہے۔” انہوں نے کہا کہ ” ہمیں انتظامیہ میں مقامی رول ماڈلز کی بھی ضرورت ہے جن کی تقلید سول سروسز کے خواہشمند بھی کر سکتے ہیں۔”
حالانکہ سیول سروسز جیسے مشکل ترین مسابقتی امتحانات میں زیادہ تر ڈاکٹر و انجینئر جیسی پیشہ ورانہ ڈگریاں حاصل کرنے والے افراد کامیاب ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کے اندر کامیابی کے امکانات اسّی فیصدی سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے اندر ذہنی صلاحیت بے حد تیز اور فہم ادراک غیر معمولی ہوتا ہے۔ ایسے اشخاص مطالعہ کرتے وقت اپنے اندر یاداشت کی صلاحیت اور اس سے محفوظ کرنے کا ڈھنگ خوب رکھتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر شاہ فیصل، ڈاکٹر راگھو لنگر، ڈاکٹر شوکت پرے، ڈاکٹر سید عابد رشید شاہ، انجینئر محمد اعجاز اسد، ڈاکٹر سحرش اصغر جیسی اہم شخصیات ہمارے سامنے موجود ہیں۔
ایسے افراد تعلیم کے ابتدائی مراحل سے ہی محنت کے عادی ہوتے ہیں جو مطالعہ کو اپنا بہترین مشغلہ بنا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال سیول سروس امتحان میں کامیاب ہونے والوں میں سے ڈاکٹر اور انجینئرنگ سے وابستہ افراد کی تعداد زیادہ ہوتی ہے لیکن ان میں سے بہت کم تعداد سیول سروسز کی طرف آتی ہے کیونکہ ان کو ڈگری حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے شعبے میں ہی کیریئر بنانے کا شوق و زوق، لگن، دلچسپی اور فکر لاحق ہو جاتی ہے اور جو معمولی سی تعداد اس طرف آتی ہے وہ خاموشی سے کامیاب ہو جاتی ہے۔
اس کے برعکس آرٹس، کامرس، سائنس و دیگر غیر پیشہ ورانہ مضامین میں گریجویٹ امیدواروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے لیکن بہت کم افراد اس میں سے کامیاب ہو جاتے ہیں کیونکہ اْنہیں بڑی دلچسپی، گہری مطالعہ اور سنجیدہ پڑھائی سے کچھ زیادہ لگاؤ نہیں ہوتا اور ہمیشہ آسانی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جونہی ایسے افراد کو سیول سروسز میں سخت محنت سے پڑھائی کا سامنا کرنا پڑھتا ہے تو یہ لوگ کبھی پریلمز (Prelims)، کبھی مینز (Mains)، کبھی پرسنیلٹی ٹیسٹ (Interview) میں ناکام ہو جاتے ہیں۔خواہشمند امیدواروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ کامیابی ایک قابل رسائی ہدف ہے، اگر کوئی عزم کر لے اور ہدف کو حاصل کرنے کیلئے بہت محنت کرے، تو اس کے لئے یہ ناممکن نہیں ہے۔ اس طرح کے امتحانات میں مستقل مزاجی کے ساتھ کم از کم ہر روز بارہ سے اٹھارہ گھنٹے پڑھنا پڑھتے ہیں۔چونکہ ہر ایک انسان کے اندر کچھ بڑا کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے اور ہر ایک شخص کے اندر کوئی نہ کوئی ٹیلنٹ ضرور چھپا ہوتا ہے، جسے اپنے اندر تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ جنیفر ینگ نے کیا خوب کہا ہے کہ’’ توقف کریں اور یاد رکھیں، آہستہ اور مستحکم طریقہ آپ کو وہیں پہنچائے گا جہاں آپ جانا چاہتے ہوں۔ اگر آپ بہت جلد نتائج دیکھنے کے لیے خود پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں، تو آپ بہت جلدی ہار جائیں گے‘‘۔
کلاس فورتھ سوسائٹی سے بہتر ہے کہ اعلیٰ سوچ اور روشنی خیالی کے علمبردار بن کر اْبھر جائے اور کوئی اچھی خاصی نوکری حاصل کرکے سماج کو اپنی انمول خدمات سے فائدہ پہنچائے۔ 2020ء میں جے کے ایس ایس بی (JKSSB) نے کلاس فورتھ کی سب سے بڑی ریکروٹمنٹ کی ہیں جس میں تقریباً آٹھ ہزار بے روزگار نوجوانوں کو میرٹ کی بنیاد پر مختلف محکموں میں روزگار ملا جو انتظامیہ کی طرف خوش آئند اقدام تھا۔ اس میں ایسے ذہین بچے بھی منتخب ہوئے۔ جن میں کے اے ایس یا آئی اے ایس امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ جس کی ایک تازہ مثال نادیہ شمیم ہے۔ نادیہ نے ابتداء میں جے کے جی اے ڈی میں کلاس فورتھ نوکری حاصل کی تھی اور بعد میں اس کے اندر کے اے ایس امتحان پاس کرنے کا شوق و زوق پیدا ہوا۔ بالآخر اس ہونہار بیٹی نے سیول سروس 2021کے امتحان میں 80 واں رینک پا کر شاندار کامیابی حاصل کیں ہے اور وہ آج اعلٰی سطح پر اپنی ذمہ داری انجام دے رہی ہیں۔ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال ؎
تو شاہین ہے، پرواز ہے کام تیر ا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ امتحان صرف پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے والے افراد ہی پاس (Qualify) کر سکتے ہیں ؟ کیا یہ ہر کسی شخص کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ اس سے پاس (Crack) کر سکتے ہیں ؟
قارئین کرام کو عموماً اور خواہشمند امیدواروں کو خصوصاً اس بات کا بخوبی علم ہونا چاہیے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس امتحان کو عام گریجویٹ امیدوار بھی پاس کر سکتے ہیں۔ جو افراد سیول سروس امتحان پاس کرتے ہیں وہ بھی تو ہم میں سے ہی ہوتے ہیں۔ بس فرق صرف اتنی سی ہے کہ ان کے اندر محنت اور لگن کا جذبہ ہم سے زیادہ ہوتا ہے۔ وہ اس سے پاس کرنے پر ہی دم لیتے ہیں۔ ان کے اندر دیوانہ پن جیسی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔ اور ناکام ہونے کے باوجود بھی ان کے اندر حوصلہ و یقین (determination) اور گہری دلچسپی (consistency) موجود رہتی ہے۔ اگر کوئی اپنے اندر وہ جوش و جذبہ، دلچسپی، سخت محنت اور گہری مطالعہ کا زوق پیدا کر پائیں تو یقینا وہ بھی سیول سروس امتحان میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ اور آگے جا کر وہ بھی اپنے ملک کیلئے ایک اچھا اور موثر آفیسر بن سکتا ہے۔ جو اپنے ملک کی ترقی کیلئے نت نئے منصوبے بنا سکتا ہے۔ اس کی تابناک مثال ہمارے سامنے شاہد چودھری (IAS)، رئیس احمد بٹ (IPS)، آیوشی سدن (IAS) اور وسیم احمد بٹ (IAS) جیسے قابل اور ہونہار آفیسر کی صورت میں موجود ہیں۔ بقول فیض احمد فیض ؎
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
لہٰذا خواہشمند امیدواروں کو چاہئے کہ اپنے اندر اس طرح کی لگن، محنت، شوق اور دلچسپی کو ابتدا سے ہی پیدا کریں۔ اور اْنہیں اپنے اندر موجود ڈر کو دور کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں تعلیمی اداروں کا اہم کردار بنتا ہے کہ وہ اپنے اداروں میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کے اندر اس طرح کی آگاہی ابتدا سے ہی پھیلانے کی کوشش کریں، تاکہ گریجویشن مکمل ہوتے ہی ایسے سبھی طلباء و طالبات سیول سروس جیسے اعلیٰ امتحان میں بنا کسی ڈر کے شرکت کر سکیں۔ معروف ترین کونسلنگ اور کوچنگ سینٹرز برائے سیول سروسز کو شہر، قصبہ و بلاک سطح پہ آگاہی پروگرام منعقد کرنے چاہیے اور ہر سب ڈویژن، بلاک و ضلعی سطح پر مامور آئی اے ایس، آئی پی ایس، کے اے ایس اور کے پی ایس جیسے افسران کو مخلص اور ہمدرد بن کر اپنا کلیدی کردار ادا کرنے کے لئے آگے آنا چاہئے۔ تاکہ مستقبل قریب میں ہماری نئی نسل اپنی غیر معمولی ذہانت اور فیصلہ جات سے ملک کے لئے عوام دوست پالیسیاں مرتب کریں اور ملک کی ترقی کو مزید وسعت اور مضبوطی دے کر اس سے امن و شانتی کا گلستان بنا سکیں۔
رابطہ۔ہاری پاری گام ترال فون نمبر۔ 9858109109
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیںا ور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)