ڈاکٹر عریف جامعی
استاد کو حکماء اور دانشوروں نے معاشرے کا معمار کہا ہے۔ ظاہر ہے کہ معمار کے ذمہ تعمیر ہوتی ہے، اس لئے استاد کے ذمہ بھی دراصل تعمیر ہی ہے۔ البتہ استاد کے ذریعے ہونے والی تعمیر کا وسیلہ تعلیم ہوتی ہے۔ لسانی اعتبار سے لفظ “تعمیر” اور “تعلیم” پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں الفاظ ایسے اعمال (کام) کو ظاہر کرتے ہیں جن میں تواتر، تسلسل اور استمرار کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی نہ تو راتوں رات تعمیر کا کام ہوسکتا ہے اور نہ ہی تعلیم کے بار گراں کو بغیر کسی واضح منصوبہ بندی کے سر انجام دیا جاسکتا ہے۔ مادی تعمیر کی طرح اگر تعلیم کی پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھی جائے، تو تعلیم کی پوری عمارت نہ صرف یہ کہ ٹیڑھی ہوجائے گی بلکہ اس کے دھڑام سے گرنے کا ہمیشہ خطرہ لاحق رہے گا۔ شاید اسی لئے کہا گیا ہے:
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
اس لئے اس بات کی ہمیشہ توقع رکھی جاتی ہے کہ استاد اپنے پیشے (پروفیشن) میں ایسا والہانہ تعمیری جذبہ (پیشن) شامل کرنے کی سعی کرتا رہے گا کہ معاشرے کی تعمیر صحیح خطوط پر ہوسکے۔عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ تعلیم انسانی “رویے اور برتاؤ میں تبدیلی” (ماڈفکیشن آف بہیوئر) کا نام ہے۔ اگرچہ یہ ایک ثابت شدہ امر ہے، تاہم برتاؤ میں تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ تعلیم پاکر انسان اس قابل ہوجائے کہ وہ معاشرے کی مجموعی ترقی میں ایک حوصلہ مند طریقے سے شریک ہوسکے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں تعلیم کا مطمع نظر جو روزگار (جاب) اور وہ بھی سرکاری ملازمت کو بنایا گیا ہے، وہ ایک سطحی نظریہ ہے۔ اگرچہ دوران تعلیم یا صحیح تر الفاظ میں تعلیم کی تکمیل پر ایک تعلیم یافتہ انسان کے ذہن میں سرکاری ملازمت کی آرزو پیدا ہونا کوئی بری بات نہیں ہے، تاہم اسی ایک آرزو میں اپنی تمام آرزوؤں کا خون کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ کیونکہ تعلیم، بحیثیت ایک تعمیری عمل انسان کے فکر کی پرواز کو اتنا بلند کرتی ہے کہ وہ ایک مخصوص قسم کی ملازمت نہ پاکر بھی اپنی ایک الگ دنیا تعمیر کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
اگرچہ فکری اور نظری اعتبار سے تعلیم پاکر انسان کئی علوم پر عبور حاصل کرسکتا ہے، یعنی وہ “پالی ماتھ” بن سکتا ہے، لیکن تعلیم اصلاً انسان کو ایک مخصوص کام ایک ماہرانہ طریقے پر انجام دینا سکھاتی ہے۔ اس طرح تعلیم کے ذریعے انسان کا “ہر فن مولا” بننا ضروری نہیں، تاہم تعلیم پاکر انسان ایک فن (کام) کا ماہر ضرور بن جاتا ہے۔ اور جب معاشرے کو تعلیم کے ذریعے مختلف فنون کے ماہر دستیاب ہوجاتے ہیں تو معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتا ہے۔ یعنی جس طرح ایک چمن میں مختلف قسم کے پھول کھل کر بہار آجاتی ہے، بالکل اسی طرح تعلیم انسان میں چھپے جوہر کو سامنے لاکر معاشرے کی رنگا رنگی کا باعث بنتی ہے۔ اس سے اس بات کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ رب تعالی نے ہر انسان میں ایک الگ قسم کی صلاحیت ودیعت کی ہے اور تعلیم اور معلم کا کام یہ ہے کہ وہ اس صلاحیت کو نکھار کر باہر لانے میں معاون بنتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تعلیم انسان کے اندر بالفعل موجود جوہر (پوٹینشل) کے بالعمل اظہار کا سامان کرتی ہے۔
زمانہ ٔ جدید کی بھاگ دوڑ والی زندگی میں اکثر والدین کے ذہن پر یہ فکر سوار رہتی ہے کہ بچہ جلد سے جلد تعلیم کے مختلف درجات طے کرکے کوئی کام کرنے کے قابل ہوجائے۔ اگرچہ یہ تعجیل (جلد بازی) ایک خاص انداز میں انسان کی فطرت میں موجود ہے، تاہم معاشرے کی مختلف سطحوں پر پیدا ہونے والا دباؤ اس جلد بازی کو انتہا پر پہنچا دیتا ہے۔ دوست و احباب، اعزہ و اقرباء، آس پڑوس کے لوگ اور رشتہ دار اس دباؤ کو اس حد تک پہنچا دیتے ہیں کہ والدین اور طلب علم، دونوں کے تعلیم کے تئیں رجحانات حوصلہ افزا نہیں رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی لوگوں، جس میں ظاہر ہے کہ والدین اور بچے دونوں شامل ہیں، کے لئے پھر تعلیم ایک بوجھ بن جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ والدین اور ان کی اولاد کے درمیان تعلیم کے سلسلے میں تال میل اور تعاون کی فضا برقرار نہیں رہتی، جس کی وجہ سے کئی طالب علم بیچ میں ہی تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ تعیلم چھوڑنے کی غرض و غایت کبھی کبھار یہ بھی ہوتی ہے کہ بچے والدین کا مختلف کاموں میں ساتھ نبھائیں، لیکن تعلیم کی ڈور ہاتھ سے چھوٹتے ہی ایسے بچوں کی زندگی کا توازن ہی بگڑ جاتا ہے۔ اس کے بعد ان میں سے کئی ایک بچے پہلے پہل نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد اس چکر سے نکلنے کے لئے منشیات کے عادی ہوجاتے ہیں۔ بہت جلد نوبت یہاں تک پہچتی ہے کہ ان بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کی زندگی بھی اجیرن ہوجاتی ہے۔
تعلیم کے تئیں اس مایوس کن رجحان کو فرو کرنے کے لئے اکیلے والدین کچھ کرسکتے ہیں اور نہ ہی طالبعلم (یا بچے) اس رجحان سے خود کو چھٹکارا دلا سکتے ہیں۔ تاہم تعلیم کی باپت والدین، متعلم (شاگرد) اور معلم (اساتذہ) کی مثلث (ٹرائینگل) مل کر ہی کوئی خاطر خواہ کام انجام دے سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین اور اساتذہ شاگرد کے دو سروں پر کھڑے ہوتے ہیں جو اس کو معاشرے کی روایات اور رجحانات کے ساتھ ملادیتے ہیں۔ اس طرح اگر طالبعلم کو ان دو سروں سے مستقبل کے بارے میں تخویف (خوف) اور ترہیب (ہیبت) کے بجائے علم کے لئے ایک تشویق (شوق) ملتی رہے تو شاگرد، جو قوم و ملت کے مستقبل کا اصل سرمایہ ہوتا ہے، تعلیم کو ایک مسلسل قائم رہنے والا عمل سمجھ کر اس کے لئے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لائے گا۔ اس طرح مختلف منازل طے کرتے ہوئے طالبعلم اپنی صلاحیتوں میں کچھ اس طرح کا نکھار پیدا کرے گا کہ وہ زندگی کے کسی خاص شعبے میں اپنا نام بھی پیدا کرے گا اور اس میں اپنا لوہا بھی منواکر رہے گا۔
تعلیم کے اس تسلسل اور تواتر کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی بھی شعبے کا ماہر اپنی مہارت کو اسی وقت بنائے رکھ سکتا ہے جب وہ اپنے آپ کو ہر حال میں ایک طالبعلم کی سطح پر رکھے۔ ماہرین تعلیم کے مطابق جس طرح ایک چراغ صرف اسی صورت میں دوسرے چراغ کو روشن کرسکتا ہے جب وہ اپنی لو مسلسل روشن رکھ سکے، اسی طرح ایک استاد صرف اسی وقت تک استاد کہلایا جاسکتا ہے جب وہ ہر آن سیکھنے کے عمل کو جاری رکھ سکے۔ اس بات کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک کنویں کا پانی اسی وقت تک قابل استعمال رہ سکتا ہے جب تک اس سے پانی مسلسل نکالا جاتا رہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کنویں سے پانی نکالنے کے عمل کے رکنے کی دیر ہے کہ نہ صرف نیا پانی آنا بند ہوجائے گا، بلکہ کنویں میں موجود پانی عفونت کا شکار ہوکر ناقابل استعمال ہوجائے گا۔ اس لئے بہت ضروری ہے کہ استاد نئی معلومات اور نئے خیالات سے اپنے آپ کو ہر آن تازہ دم کرتا رہے تاکہ میدان علم میں پیدا ہونے والے تغیرات سے وہ نہ صرف خود باخبر رہے بلکہ شاگرد کے خیالات کی ڈور کو بھی زمانے کے ساتھ باندھے رکھے۔
اب جہاں تک کائنات میں مختلف سطحوں پر ہونے والے تغیرات کا تعلق ہے تو یہ ہر آن جاری و ساری رہتے ہیں۔ یہ تغیرات ایک طرف دنیائے رنگ و بو کی رنگا رنگی کو قائم رکھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف ان ہی کے دم سے دنیا کے مختلف عوامل کو ثبات حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی مختلف اکائیوں میں موجود تحریک کے قوانین کو سمجھ کر ہی انسان ان پر اثر انداز ہوتا ہے اور ان عوامل کو اپنے لئے مسخر کرتا ہے۔ انسانیت کی تاریخ میں رونما ہونے والے انقلابات، جو اصل میں وسیع سطح پر ہونے والے تغیرات ہی ہوتے ہیں، پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف قوانین فطرت کو جان کر (یعنی ان کا علم حاصل کرکے) ہی انسان نے یہ انقلاب برپا کرکے دنیا کو خوب سے خوب تر بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ظاہر ہے کہ ان انقلابات کی تاریخ کافی طویل ہے، لیکن آگ کی دریافت، پہیے کی ایجاد، اسٹیم انجن کا معرض وجود میں آنا، صنعتی انقلاب، کمپیوٹر کے بعد سپر کمپیوٹر سے آنے والا انقلاب عظیم، انٹرنیٹ اور اب آرٹفشل انٹیلی جنس کے ساتھ ساتھ کانٹم کاونٹنگ کا انسانیت کے عقلی افق پر دستک دینا، یہ سب انقلابات دراصل انسان کے جاننے کے عمل یعنی علم کے ہی شاہکار ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علم سے صرف انسان کے دماغ کے دریچے ہی نہیں کھلتے بلکہ علم سے کارخانہ? حیات میں موجزن قوانین حرکت انسان کی دسترس میں آجاتے ہیں۔ اور جس انداز میں انسان قوانین فطرت کو کھولتا جاتا ہے، اسی طرح انسانی زندگی کے مختلف دائرے متحرک ہوتے جاتے ہیں۔ واضح ہوا کہ علم ہر قسم کے جمود کو توڑنے کا واحد ذریعہ ہے، یعنی علم سے ہی بظاہر منجمد اشیاء کی تحریک آشکار ہوتی ہے اور علم انسان کو دستیاب وقت کو “امروز و فردا” کے چکر سے اوپر اٹھاکر ایک خاص معنی و مفہوم عطا کرتا ہے۔ظاہر ہے کہ تعلیم ہی وہ عمل ہے جو ایک تحریک بن کر علم کو معاشرے کی مختلف سطحوں تک پہنچانے کا کام کرتی ہے۔ یعنی اول یہ کہ تعلیم اپنی ذات میں ایک تحریک کا نام ہے اور دوم تعلیم انسانی ذہن میں ایک تحریک پیدا کرکے فرد کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کو متحرک کرتی ہے۔ یعنی تعلیم بذات خود ایک کام بلکہ ایک “کار مسلسل” ہے جو کام کے نت نئے مواقع، جنہیں ہم روزگار کے مواقع بھی کہتے ہیں، پیدا کرتی ہے۔ اگرچہ ہم لوگ آجکل روزگار سے سرکاری ملازمت ہی مراد لیتے ہیں، تاہم تعلیم اصل میں انسان کو کوئی خاص کام یا کئی ایک کام ڈھنگ کے ساتھ انجام دینا سکھاتی ہے۔ اس طرح تعلیم مجموعی طور پر انسان کے اندر نظم و ضبط اور ترتیب و تنظیم پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ نتیجتاً معاشرے میں ایک خاص قسم کی مسابقت پیدا ہوجاتی ہے جس سے ہر فرد اپنے لئے ایک خاص راہ کا انتخاب کرتا ہے اور بہت حد تک خود کفیل بند جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہر شخص آپ اپنی کفالت کرنا شروع کرتا ہے تو معاشرے کا جمود بھی ختم ہوجاتا ہے اور معاشرے کی یک رنگی بھی ختم ہوجاتی ہے۔
اس لئے “تعلیم برائے علم” ایک ایسا تصور ہے جو بحیثیت ایک عمل معاشرے کو جہالت کے گھپ اندھیرے سے نکال کر علم کی تجلّی سے منور کرتا ہے۔ یہ عمل سب سے پہلے فرد کے ذہن کو روشن کرتا ہے۔ یہ روشنی فرد کے پورے وجود میں جوش و جذبے کی ایک لہر پیدا کرتی ہے اور اسے ایک پر عزم اور حوصلہ مند زندگی گزارنے کے قابل بناتی ہے۔ ایسے افراد ہر حال میں اور ہر سطح پر معاشرے کی فلاح کو اپنا مقصد بنالیتے ہیں۔ چونکہ ایسے افراد کا مطمع نظر صرف سرکاری ملازمت نہیں ہوتی، اس لئے ایسے لوگ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے “ملازمت سے سبکدوشی” کا انتظار نہیں کرتے، بلکہ وہ ہر دم مختلف شعبہ ہائے زندگی کو خوب سے خوب تر بنانے کے لئے تگ و دو کرتے رہتے ہیں، کیونکہ تعلیم مسلسل تعمیر کا نام ہے!
(مضمون نگار محکمہ اعلی تعلیم میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
ای میل۔ [email protected]
(نوٹ۔ مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیا جاناچاہئے۔)