درخشاں پر وین
نثری اصناف میں انشائیہ کو ایک اہم مقام حاصل ہے ۔بیشتر ناقدین کی نظرمیں افسانے اور ناول کی طرح یہ صنف بھی مغربی ادب کا تحفہ ہے۔ اس کے اسلوب اور اندازِ تحریر کے بعض نمونے ہمارے قدیم ادب میں بھی دستیاب ہیں ۔ سر سید احمد خان نے انگریزی اِ سیز کو اپنے سماجی اصلاح کے موقف کی تشریح و تعبیر کے لیے استعمال کیا تھا ۔ ان کے پیش ِ نظر انگریزی انشائیہ نگار ایڈیسن اور اسٹیل کی نگارشات تھیں جو سرسید ہی کی طرح معاشرتی تبدیلیوں کے خواہاں تھے ۔ سر سید کی سماجی سر گر میوں کی طرح ان کی ادبی کاوشوں کو بھی فروغ دینے والے افراد سامنے آ ئے اور اس طرح عہد سر سید انشائیہ نگاری کے لیے بار آ ور ثابت ہوا ۔
یوں تو فرانسیسی ادیب مونتین کو انشائیہ کا موجد تسلیم کیاجاتا ہے مگر اس کااصل گہوارہ انگلینڈ تھا جہاں بیکن ،ابراہم کائولیء ، ہزلٹ اور چالس لیمب جیسے عظیم انشائیہ نگاروں نے اس صنف کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے سنوارا اور اسے عالمی ادب میں ایک مقام عطا کیا۔ اردو میں ڈاکٹر وزیر آ غا نے اس صنف کوتخلیقی اور تنقیدی سطح پر متعارف کروایا ۔ وہ خود بھی ایک اچھے انشائیہ نگار تھے ۔ انھوں نے ا س نوخیز صنف کو فروغ دینے کی امکان بھر کوششیں کیں ۔ان کے رسالے ماہنامہ اوراق ، لاہور میں نئے اور پرانے ادیبوں نے اس صنف کو اپنی بہترین تخلیقی صلاحیتوں سے نوازااور ا س طرح انشائیہ نگاروں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد سامنے آ ئی ۔ انگریزی اِ سیز کے طرز پر لکھی گئی ان تحریروں نے انشائیہ کے خد و خال کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
بھارت میں طنزیہ و مزاحیہ مضامین کی وہ روایت جس کی اصل اودھ پنچ کی تحریریں تھیں ، انھیں بھی انشائیہ سے منسوب کیا گیا جب کہ انگریزی انشائیہ اس اسلوب سے مختلف تحریروں سے پہچانا جاتا ہے ۔ انشائیہ کے متعلق ان دونوں مختلف بلکہ متضاد نظریات نے انشائیہ کی بحثوں کو جنم دیا۔ بعض لوگوں کے نزدیک انشائیہ طنز و مزاح کی طرح ایک اسلوب ِ نگار ش ہے اور فریقِ ثانی اسے ایک صنف تسلیم کرتا ہے ۔ ان مباحث نے انشائیہ کو تحقیق کا موضوع بنادیا ۔ بھارت میں جن ادیبوں نے وزیر آ غا کی انشائیہ نگاری کی تحریک میں شامل ہوکر اس صنف میں طبع آ زمائی کی ان میں محمد اسد اللہ ایک اہم نام ہے ۔ انھوں نے اوراق میں تواتر کے ساتھ انشائیے لکھے ،اس صنف کو تحقیق کا موضوع بنایا او ر اسے فروغ دینے کی خاطر ،’ انشائیہ کی روایت مشرق و مغرب کے تناظر میں ‘ ،’یہ ہے انشائیہ‘ ،’ڈبل رول‘ اور ’انشائیہ شناسی ‘جیسی کتابیںشائع کیں ۔
’انشائیہ شناسی‘ ان کی نئی کتاب ہے جس میں اس صنف سے متعلق تنقیدی مضامین اور ایک مذاکرہ شامل ہے ۔ اس میں درج ذیل ادیبوں اور ناقدین کی نگارشات ہیں۔
پروفیسر احتشام حسین ،ڈاکٹر وزیر آ غا، ڈاکٹر انور سدید ،ٖڈاکٹر سید محمد حسنین ،ڈاکٹر آدم شیخ ،مشکور حسین یاد ،ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش ، جمیل آذر،راجہ محمد ریاض ، اکبر حمیدی ،ڈاکٹر محمد اسد اللہ ،اور ڈاکٹر بشیر سیفی ۔
کتاب کے ابتدائی صفحات میں ایک مذاکرہ ہے جس میں انشائیہ سے متعلق اہم سوالات کے جوابات دئے گئے ہیں ۔ اس مذاکرے کے شرکاء ہیں ۔سلیم شہزاد،سلام بن رزاق، ڈاکٹر شرف الدین ساحل ،ڈاکٹر صفدر ،ڈاکٹر یحییٰ نشیط اور شکیل اعجاز ۔اس مذاکرے میں انشائیہ کے اولین نقوش،انشائیہ بحیثیت ایک صنف ادب ،انشائیہ اور طنز و مزاح، اس کی امتیازی خصوصیات اور اس صنف کے فروغ کے امکانات پر ان مشہور ادیبوں نے کھل کر اظہار ِ خیال کیا ہے جس میں اس صنف کے متعلق بہت سے اہم پہلوئوں کی وضاحت موجود ہے اور یہ مذاکرہ انشائیہ کے متعلق تحقیق کر نے والوں اور طلبا کے لئے مفید ہے ۔
اس مذاکرہ میں ایک سوال کے جواب میں مشہور تنقید نگار سلیم شہزاد لکھتے ہیں :
ہمارے صحیح غلط انشائیہ نگار اور بھلے برے ناقدین طنز و مزاح کو انشائیے سے بے سبب جوڑتے ہیں ۔طنز و مزاح بیانیہ نثر و نظم کا ایک اسلوب؍طرزِ تحریر ضرور ہے لیکن انشائیہ ( وہ جو کچھ بھی ہے) غیر تخیلی بیانیہ ہر گز نہیں ہے ۔یہ افسانوی بیانیے کی طرح تخلیقی چیز ہے اس لیے طنز و مزاح کا ( وہ چاہے افسانے ہی کا اسلوب ہوجائے) انشائیے سے تعلق نہیں آ ئے گا ۔جن نام نہاد انشائیوں میں ناقدین طنز ومزاح کے عوامل موجودبتاتے ہیں،وہ طنزیہ ومزاحیہ مضامین توہوسکتے ہیں، انشائیے نہیں ہوسکتے ۔
انشائیہ شناسی کے مرتب نے اس کتاب میں انشائیہ سے متعلق کسی ایک رجحان سے وابستہ ادیبوں یا ناقدین کے مضامین جمع کرنے کے بجائے اس صنف پر متضاد خیالات کی نمائندگی کر نے والی تحریروں کوجگہ دی ہے تاکہ قارئین ان کے مطالعہ سے اس بحث کے دونوں پہلوئوں کو سمجھ کر رائے قائم کر سکیں ۔اس صورتِ حال پر مشہور ادیب احمد جمال پاشا کا یہ تبصرہ بڑا معنی خیز ہے :
’’عملی تنقید کی عدم صلاحیت ، اسلوبی مطالعے اور تحریر کی انفرادیت کی شناخت کی عدم قوت کے نتیجے میں سنجیدہ مضامین ، طنزیہ و مزاحیہ مضامین اور نصابی ضروریات پوری کر نے والے ہر قسم کے مضامین کو انشائیہ کا نام سے یاد کیا جاتاہے ۔‘‘
اس میں ایسے مضامین بھی شامل ہیںجو ان مباحث کے اہم نکات کو اجاگر کر تے ہیں مگر وہ بھارت کے کسی رسالے یا انتخاب میں اس سے پہلے شائع نہیں ہوئے ۔ اس لحاظ سے یہ کتاب اس صنف پر بھارت میںشائع ہونے والی کتب میں اہمیت کی حامل ہے ۔ امید ہے اس کتاب کا مطالعہ قارئین کے لیے انشائیہ کی شناخت میں معاون ثابت ہوگا۔
انشائیہ شناسی کے پیش لفظ میں معروف ناقد،کے کے کھلرنے لکھا ہے کہ انشائیہ کی شناخت کے لیے ، انشائیہ کیا ہے یہ بیان کر نے بجائے یہ فیصلہ کر نا ضروری ہے کہ انشائیہ کیا نہیں ہے ۔ مجموعی طور پر یہ کتاب عام قاری سے زیادہ محقیقین اور اساتذہ و طلبہ کے لیے مفید ہے ۔ اس میں شامل مضامین انشائیہ کے متعلق اہم نکات کا احاطہ کرتے ہیں ۔ اسی سلسلے کا ایک مضمون ڈاکٹر بشیر سیفی کا ’ کتابیاتِ انشائیہ‘ ہے جو ان کے تحقیقی مقالے کا حصہ ہے ا س میں ۱۹۸۶ تک انشائیہ سے متعلق تحقیقی کا م، کتابوں اور مضامین کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں جو اس سلسلے کے کام کی پیش رفت کا منظر نامہ ہے ۔
قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کے مالی تعاون سے شائع ہونے والی اس۲۴۰ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی طباعت اور کمپوزنگ معیاری ہے اور قیمت ( ۱۳۳؍ روپئے) بھی مناسب ہے ۔
پتہ ۔بیگم عزیز النساء ہوسٹل، روم نمبر ۶۰ا، نزد گلستانِ سر سید ، علی گڑھ، پن کوڈ ۔202002