بلال کلو
ایک ماں کو اس کے بیٹے نے چھرا مارا ہے۔ ہولناک! ہر وقت کوئی نہ کوئی شرمناک واقعہ سرخیوں میں آتا ہے۔ مجرمانہ کارروائیوں کا خطرناک پھیلاؤ ایک بیمار معاشرے کی علامت ہے۔ عصمت دری، قتل، چوری، جسمانی اور زبانی حملوں کے متواتر واقعات نے کشمیر کے مقدس سماجی منظرنامے کو متاثر کیا ہے۔
جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح ایک سنگین مسئلہ ہے۔ جرائم کا بھنور ہر کسی کو اپنے مہلک جال میں گھسیٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جرم کو سانحہ اور متاثرہ کے صدمے تک محدود تصور کرنا غلط فہمی ہے۔ اس طرح کی پریشان کن کارروائیوں کے شکنجے سماجی زندگی کے وسیع تر حصے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جرائم کی دخول سماجی ماحول کو آلودہ کرتا ہے اور اس طرح عدم تحفظ اور بے یقینی کا عنصر داخل کرتا ہے۔ خدشات بڑھتے ہیں اور پریشانیوں کو متحرک کرتے ہیں۔
جرائم کے قافلے کے سامنے معاشرے کا عاجزانہ ہتھیار ڈالنا قابل مذمت ہے۔ معاشرہ نے جیسے بھیڑیاں پہنی ہیں اور زبان بندی کی ہے۔معاشرتی انحطاط کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا خاندان ناکام ہو رہا ہے؟ کیا والدین کا مقصد بچوں کے مطالبات ماننا ہے؟ حقیقی تعلیم کیا ہے – تعلیم جو روزگار پیدا کرتی ہے یا تعلیم جو انسان سازی کرتی ہے؟ جب پردے اٹھتے ہیں تو حقیقت کھل جاتی ہے۔ تمام ادارے جانچ پڑتال کے ریڈار پر آتے ہیں۔ بے راہ روی کو روکنے والے اہم ادارے مجرمانہ رجحانات کو روکنے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
خاندان…بنیادی ادارے کے طور پرخاندان کو نوجوان اراکین کو مثبت رویوں اور صحت مند نقطہ نظر کی طرف راغب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ کیا والدین اپنے بچوں کی نفسیاتی و سماجی نشونما کی نگرانی کرنے کی ذمہ داری میں ناکام ہو رہے ہیں؟ کیا اخلاقی فروغ ہس منظر میں چلاگیاہے اور والدین کی ذمہ داری سے مستثنیٰ ہے؟ خاندان میں ٹوٹے ہوئے بندھن اس کی سالمیت کو کمزور کر دیتے ہیں۔ اخلاقی اقدار، سماجی اخلاقیات اور شہری احساس کی قیمت پر مادی فلاح و بہبود کیلئے بہت زیادہ غور کرنا جرم کے بیجوں کو اگنے اور بڑھنے کیلئے ایک زرخیز زمین فراہم کرتا ہے۔
ہمسائیگی مر گئی ہے۔ انفرادی زندگی اور فلاح و بہبود کا خیال منفی ثابت ہوتا ہے۔ ایک مثالی ہمسائیگی میں انفرادی اعمال ہمیشہ غیر رسمی نگرانی کے دائرے میں رہتے تھے۔ پڑوسیوں کی طرف سے پیدا ہونے والا اثر و رسوخ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن انفرادی طرز زندگی نے محلے کے ادارے کو ختم کر دیا ہے اور اسے غیر فعال کر دیا ہے۔
منشیات کا خطرہ رویے میں بے ترتیب تبدیلیاں لاتا ہے۔ ایک منشیات کا عادی شخص صحیح یا غلط کے بارے میں غور و فکر سے عاری ہو جاتا ہے۔ نشے کی حالت میںمہذب طرز عمل کی خلاف ورزی تمام سماجی اور اخلاقی حدود کو پامال کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی معاشرہ کبھی بھی اپنے آپ کو منشیات کی لعنت کی وجہ سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔یہی وجہ ہے کہ برائی کو پیدا ہوتے ہی دبانا لازمی ہے اور اس کا جڑ سے خاتمہ ناگزیر ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال صارف کو فوائد کے بجائے بہت سے خطرات سے دوچار کرتا ہے۔ نوجوان فحش اور قابل اعتراض مواد کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ کنٹرول شدہ نگرانی میں محدود استعمال منفی نتائج کو کم کر سکتا ہے۔
بڑھتے ہوئے جرائم کا علاج کیا ہے؟
بنیادی باتوں پر واپس جائیں۔ والدین کی نگرانی یا پیرنٹنگ کو آؤٹ سورس نہیں کیا جا سکتا۔ والدین کو چاہیے کہ وہ چھوٹے بچوں میں انسانی اقدار کو فروغ دیں۔ معاون خاندانی ماحول کا مطلب مادی ضروریات اور تقاضوں کو پورا کرنے سے کہیں زیادہ ہے۔ محبت، گرمجوشی، اعتماد، ہمدردی، دیکھ بھال، تعاون، صبر، باہمی احساس، اور شکر گزاری وغیرہ وہ حقیقی اجزاء ہیں جو اچھی زندگی بسر کرنے کیلئے لازمی عوامل ہیں۔ ان فضائل کا چشمہ ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ اگر خاندان اور تعلیم بحیثیت ادارہ دیوالیہ ہو جائے تو خامیاں شخصیت کو کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ کمزوری کا اظہار کئی شکلوں میں ہوتا ہے جس میں سماجی مخالف رویے اور مجرمانہ کارروائیاں شامل ہیں۔
سکڑتی ہوئی سماجی جگہوں اور مسدود مواصلاتی چینلوں کی مرمت کی ضرورت ہے۔ سائنسی آلات اور ورچوئل دنیا انسانوں کے سماجی ہونے کی فطری جستجو کی تلافی نہیں کر سکتے۔ سائنسی آلات کی قیمت ہے، لیکن ان میںکوئی ہمدردی نہیں۔ آلات مہنگے ہیں لیکن ہمدردی سے خالی ہیں۔ بے جان اشیاء متاثر کر سکتی ہیں، لیکن کسی کی صحیح سمت میں رہنمائی نہیں کر سکتیں۔
ہمیں اپنی سماجی زندگی کے کھوئے ہوئے انسانی ماحول کو دوبارہ حاصل کرنا ہے۔ مادیت کی حویلی میں انسانیت خود کولالچ کے بھوت سے ستائی ہوئی محسوس کررہی ہے۔ یہ وقت گہرائی سے اپنا محاسبہ کرنے کا ہے۔ جرائم کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنا ہوگا ورنہ معاشرے کا زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔
(بلال کلوکشمیر یونیورسٹی کے شمالی کیمپس کے شعبہ ٹیچر ایجوکیشن میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔مضمون میںظاہر کی گئی آراء ان کی خالصتاً اپنی ہیں اور ان کو کشمیر عظمی سے منسوب نہیںکیاجاناچاہئے۔)