اسد مرزا
روس کے صدر ولادیمیر پوتن کو جنگی جرائم کی گرفتاری کے خدشے کے پیش نظر اگلے ماہ جوہانسبرگ میں برکس (BRICS) سربراہی اجلاس میں شرکت کا منصوبہ منسوخ کرنا پڑا ہے۔ ماسکو نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر پوتن جوہانسبرگ میں سالانہ تقریب میں شرکت کرتے ہیں تو انہیں جنوبی افریقہ میں جنگی جرائم کے الزام میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے 2023 کے اوائل میں یوکرینی بچوں کے بڑے پیمانے پر اغوا اور اموات میں ان کے مبینہ کردار پر پوتن کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا۔ آئی سی سی کے دستخط کنندہ ملک کے طور پر، جنوبی افریقہ سے توقع کی جاتی تھی کہ اگر پوتن ملک میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔
پوتن کے سفری منصوبوں نے جنوبی افریقہ کو ایک سخت مشکل میں ڈال دیا تھا، گویا کہ جنوبی افریقہ ، روس کا پرانا اتحادی رہا ہے،لیکن دونوں کے درمیان تعلقات یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد سے سرد پڑ گئے ہیں۔ نیز جنوبی افریقہ نہیں چاہتا تھا کہ تعلقات پوتن کی جانسبرگ آمد سے مزید خراب ہوں۔
مہینوں تک، جنوبی افریقہ کے سفارت کاروں نے اس معاملے پر کریملن کے ساتھ ممکنہ سفارتی تصادم کو روکنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ جنوبی افریقی سیاست دانوں کے لیے بھی یہ معاملہ کافی پیچیدہ تھاکیونکہ کسی بھی غیر ضروری تنازعہ سے بچنے کے لیے، جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے مبینہ طور پر آئی سی سی سے استثنیٰ کی اجازت کی درخواست کی تھی تاکہ سربراہی اجلاس کے دوران پوتن کی گرفتاری سے بچا جا سکے۔ سربراہی اجلاس سے پہلے تناؤ بڑھنے کے ساتھ، جنوبی افریقہ کے نائب صدر پال ماشیٹائل نے 14 جولائی کو ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ پوتن کے لیے جنوبی افریقہ کا دورہ نہ کرنا زیادہ بہتر آپشن رہے گا۔ ’’اگرچہ روسی خوش نہیں ہیں، کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ آئیں۔‘‘ انھوںنے تذکرہ کیا۔
دراصل وہ روسی طاقتور شخصیت جس کی حکمرانی میں مغربی بلاک کے ساتھ روس کے تعلقات سرد جنگ کے بعد کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں، وہ برکس سربراہی اجلاس میں اپنی موجودگی کے ذریعے اپنے روسی سامعین کو دکھانا چاہتے تھے کہ روس عالمی سطح پر اب بھی اپنا وزن برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ مغربی اقوام کو یہ دکھانے کے ساتھ کہ روس ابھرتی ہوئی غیر مغربی طاقتوں کے ساتھ تعلقات قائم کرکے ان کی یعنی کہ مغربی ممالک کی ناراضگی سے بچ سکتا ہے۔
ان دونوں مقاصد کے حصول کے لیے روسی سفارت کار اپنے جنوبی افریقی ہم منصبوں پر دباؤ ڈالتے رہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے، گزشتہ ہفتے کے شروع میں ایک عدالتی حلف نامے میں، صدر رامافوسا نے دعویٰ کیا تھا کہ پوتن کو حراست میں لینے کی کوئی بھی کوشش روس اور جنوبی افریقہ کے درمیان جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’شفافیت کی خاطر مجھے اس بات پر روشنی ڈالنی چاہیے کہ جنوبی افریقہ کو صدر پوتن کو گرفتار کرنے اور ہتھیار ڈالنے کی درخواست پر عمل درآمد میں واضح مسائل ہیں،‘‘ انہوں نے کہا، “روس نے واضح کر دیا ہے کہ اس کے موجودہ صدر کو گرفتار کرنا اعلان جنگ ہو گا۔”
اگرچہ جنوبی افریقہ نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو بچا لیا ہے، لیکن درحقیقت پورا معاملہ روسی حکومت کے لیے یہ پوتن اور روسی طاقت کے بارے میں منفی تاثر ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اب عام روسی اس بات سے واقف ہے کہ پوتن ایک اعلان کردہ جنگی مجرم ہے، اور اگرچہ وہ ریاستی میڈیا کی مشینری کو استعمال کرتے ہوئے اس کے ایسا نہ ہونے کا جواز پیش کر سکتا ہے، لیکن نتیجہ واضح ہے کہ پوتن مغربی دنیا کو فوری طور پر یہ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے جو وہ فوری طور پر ثابت کرنا چاہتے تھے۔ آخر کار، روس قیاس آرائیوں کو ختم کرنے پر مجبور ہوا اور اعلان کیا کہ پوتن سربراہی اجلاس کے لیے جوہانسبرگ کا سفر نہیں کریں گے۔ اگرچہ بچاؤ کی کوششیں ابھی بھی جاری ہیں اور پوتن سربراہی اجلاس کے رہنماؤں سے زوم میٹنگ کے ذریعے خطاب کر سکتے ہیں۔
سال 2023 اب تک پوتن پر مہربان نہیں رہا۔ سب سے پہلے مارچ میں آئی سی سی کا فیصلہ آیا کہ پوتن پر جنگی جرائم کا الزام عائد کیا جائے، جس کے نتیجے میں ان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے، پھر چند ہفتوں بعد پوتن کو بغیر کوئی وجہ بتائے ماسکو اور روس کے اطراف میں یوم مئی کی روایتی فوجی پریڈ کو منسوخ کرنے کا اعلان کرنا پڑا،جس کی ایک بڑی وجہ یوکرائن کی جنگ میں فوجیوں کی ہلاکت اور دیگر ملٹری ہارڈ ویئر کا ضائع ہونابھی تھا۔ ساتھ ہی اس سے یہ بھی ظاہر ہورہا تھا کہ وہ اب اپنے ملک پر اپنے اختیار اور کنٹرول کو برقرار رکھنے میںناکام ہورہے ہیں۔
بعد ازاں جون میں، روسی فوج کی مالی اعانت سے چلنے والے نجی نیم فوجی گروپ – ویگنر کے یونٹس نے پوتن کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا، کیونکہ مغربی میڈیا میں بغاوت اور فوجی کنٹرول پر ویگنر کے فوجیوں کے کنٹرول کی خبریں سامنے آنے لگی تھیں۔ اگرچہ اس نام نہاد ’بغاوت‘ کو دبا دیا گیا تھا لیکن اس سے پہلے تمام دنیا نے بغاوت کرنے والے فوجیوں کو روس کے بڑے شہروں پر کنٹرول کرتے ہوئے اور ماسکو سے صرف 200 کلومیٹر کے فاصلے پر مارچ کرتے ہوئے دیکھا۔ جس سے کہ مغربی دنیا اور روسی شہریوں کو یہ شک ہوا کہ شاید پوتن روسی فوج پر اپنا کنٹرول کھو رہے ہیں۔ساتھ ہی ان تصاویر نے جس میں روسی عوام بغاوت کرنے والوں کی مقبول حمایت کرتے نظر آرہے ہیں اس نے بھی ایک منفی ماحول قائم کیا۔
اس وقت پوتن اپنے 23 سالوں کے صدارتی دور کے سب سے کمزور موڑ پر کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ شاید ان واقعات نے انھیں جنوبی افریقہ کے سفر کے منصوبوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا ہو گا، کیونکہ ان کے بین الاقوامی وقار کو بحال کرنے کے لیے ان کا دورہ ملک سے باہر جانے کے سبب انھیں کافی مہنگا پڑ سکتا تھا۔ جیسا کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے، زیادہ تر بغاوتیں اس وقت ہوتی ہیں جب زیادہ تر آمر اپنے ملک کے ساحلوں سے دور نکل جاتے ہیں۔
اس پورے واقعہ نے کریملن کو تلخ حقائق کا سامنا کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اور عالمی سطح پر پوتن اور روس کی شبیہ کو بحال کرنے کے لیے مزید سخت اقدامات کی ضرورت ہے، جو کہ 2023 کے دوران یقینی طور پر ختم نہیں ہوئے ہیں۔
روسی ترجمان دمتری پیسکوف کے الفاظ میں بے چینی واضح ہے، جنہوں نے پوتن کے جنوبی افریقہ کا سفر نہ کرنے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے بہت سخت الفاظ کا استعمال کیا: ’’اس دنیا میں، یہ بات بالکل واضح ہے کہ روسیوں کے سر پر قبضہ کرنے کی مغربی کوششیں کیا ہیں ، اس کا اصل مقصد طاقت ہے۔ اس لیے یہاں کسی کو کچھ سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
بے شک یہ سخت الفاظ تھے، لیکن ایک عالمی طاقت کے طور پر اپنی ذاتی شبیہ اور اپنے ملک کی شبیہ اور طاقت کو بحال کرنے کے لیے، پوتن کو کچھ فوری اور سخت اقدامات کا سہارا لینا پڑ سکتا ہے۔ صرف تشویش یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں وہ یوکرینیوں کے خلاف کسی دھماکے کا ارتکاب نہ کر دیں۔ آنے والے دن درحقیقت پوتن کے لیے زیادہ مشکل ثابت ہو سکتے ہیں، حتیٰ کہ ان کی بقا کو بھی داؤ پر لگا یا جا سکتا ہے۔
مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ رواں سال پوتن کے لیے ابھی تک اچھا ثابت نہیں ہوا ہے لیکن جس طریقے سے انھوں نے گزشتہ تیئس سال سے روس پر اپنی حکمرانی قائم رکھی ہے، اس کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ جلد ہی ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہیں اور یہ توقع بھی کی جاسکتی ہے کہ کہ وہ ایسا کوئی نیا حربہ استعمال کریں جس سے کہ مغربی طاقتیں ششدر ہو جائیں اور پوتن کی حکمرانی برقرار رہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے۔www.asadmirza.in)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔