عارف شفیع وانی
کبھی صاف شفاف پانی کیلئے مشہور سری نگر کی آنچار جھیل معدومیت کے دہانے پر ہے۔ یہ جھیل کئی دہائیوں سے سرکاری بے حسی اور بے ضمیر لوگوں کی لالچ کا شکار رہی ہے۔آنچار جھیل اپنے پانی کا بڑا حصہ ڈل جھیل سے نالہ امیر خان کے راستے گلسر اور خوشحالسر جھیلوں سے لیتی ہے۔ نالہ سندھ کے ٹھنڈے پانی کے نہروں کا ایک نیٹ ورک جھیل کے مغربی کنارے سے اس میں داخل ہو کر ڈیلٹا بناتا ہے۔ جھیل کو اس کے اندر اورآس پاس موجود چشموں سے بھی پانی ملتا ہے۔ یہ آخر کار سنگم کے مقام پر جہلم کے ساتھ مل جاتا ہے۔
آنچار کا آب گیری علاقہ تقریباً 66 مربع کلومیٹر ہے جس میں شمال مغرب میں بلندی والی زمین کے طویل حصے شامل ہیں، جو کہ زرعی کھیتوں سمیت مختلف اقسام کی پودوں کی پرورش کیلئے استعمال ہوتے ہیںتاہم، بے لگام آلودگی،ترسیب یا گندگی اور بڑے پیمانے پر تجاوزات نے اس کے نباتات اور جمادات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ایک صدی پہلے 19.54 مربع کلومیٹر سے، جھیل کم ہو کر 6 مربع کلومیٹر رہ گئی ہے جس میں سے 3.6 مربع کلومیٹر دلدل ہے۔
آنچار ایک نیم شہری آبی پناہ گاہ بھی ہے جو مقامی اور ہجرت کرنے والے پرندوں کے مسکن کا حصہ ہے۔ جھیل کے مضافاتی علاقوں کے بڑے حصے، خاص طور پر اس کے مشرقی کناروں پر لینڈ مافیا نے اسے بھر کر اور زرعی کھیتوں میں تبدیل کر کے اس پر قبضہ کر رکھا ہے۔ حکام کی جانب سے ضابطے کی عدم موجودگی میں اس حصے پر سینکڑوں تعمیرات کھڑی ہو چکی ہیں۔
نکاسی آب کے غلط نظام، آب گیرہ او ر جھیل کے اندر کی بستیوں سے نکلنے والی غلاظت براہ راست اس میں بہتی ہے جس کے نتیجے میں ناقابل بحالی ماحولیاتی تبدیلیاں آئی ہیں۔ آبی پرندوں کی آبادی، دونوں رہائشی اور نقل مکانی کرنے والے پرندے بھی متاثر ہوئے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کی خوراک کی فراہمی کافی حد تک کم ہو گئی ہے۔
لکڑی کی ٹوکریاں بنانے کیلئے جھیل میں سیلکس (بیدمجنوں) کی وسیع پیمانے پر کاشت جھیل میںکھلے پانی کی سطح کو خطرناک حد تک کم کرنے کا باعث بنی ہے۔ ندرو (کمل کا تنا) جس کیلئے آنچار جانا جاتا تھا، کی پیداوار میں زبردست کمی آئی ہے۔ زیادہ آلودگی کے بوجھ کی وجہ سے آنچار میں کسانوں میں جلد کی بیماریوں سمیت صحت کی پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں۔
آنچار کو درپیش اہم مسائل میں سے ایک ترسیب یا گندگی ہے۔ اسے گاندربل میں دریائے سندھ سے اس کے مغربی کنارے کی طرف آنے والے نہروںکے نیٹ ورک سے پانی ملتا ہے۔ یہ نہریں اپنے ساتھ ٹنوں کے حساب سے مٹی سے بھرے پانی کو لاتی ہیں جو جھیل میں پھر تہہ در تہہ بیٹح جاتی ہے ۔ نتیجہ کے طورپر جھیل کا ایک بڑا حصہ خشکی میںتبدیل ہو گیا ہے جسے دھان کی کاشت کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جھیل کو تازہ پانی فراہم کرنے والے بہت سے چشمے پختہ تعمیرات کے نیچے دب چکے ہیں۔
کشمیر یونیورسٹی کے ذریعہ کی گئی تحقیق بعنوان ’’لینڈ سکیپ ٹرانسفارمیشنز، مارفومیٹری اینڈ ٹرافک سٹیٹس آف آنچار ویٹ لینڈ ان کشمیر ہمالیہ‘‘کے مطالعہ کے مطابق آنچار نے 1980 سے 93 ہیکٹر کا رقبہ کھو دیا ہے، زمین کی تبدیلی بشکل تجاوزات، بستیوں کی آبادکاری اور غیر منصوبہ بند ترقیاتی سرگرمیوں کے نتیجہ میںاس آبی پناہ گاہ کا قدرتی رقبہ نمایاں طور پر کم ہوگیا ہے۔
آبی پناہ گاہ کے قریبی علاقے میں زمین کے احاطہ کی تبدیلیوں کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ تعمیر ات میں (223فیصد) اور سڑکوں میں(95فیصد) میں اضافہ ہوا ہے۔ مارفومیٹرک تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ جھیل کی زیادہ سے زیادہ لمبائی میں 775 میٹر کی کمی واقع ہوئی ہے، جب کہ چوڑائی میں معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔ بیتھی میٹرک تجزیہ یا عمق پیمائی سے پتہ چلتا ہے کہ آبی پناہ گاہ کی گہرائی 25 سے 246 سینٹی میٹر کے درمیان ہے، جس کی اوسط گہرائی 101.6 سینٹی میٹر ہے۔ کارلسن کا ٹرافک سٹیٹ انڈیکس (TSI) 71 اور 80.4 کے درمیان تھا، جو کہ آبی پناہ گاہ میںغذائیات اور معدنیات کی موجودگی کی نوعیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ آبی پناہ گاہ کے پانی کے معیار کے اعداد و شمار کاپچھلے مطالعات کے ساتھ موازنہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ گہرائی میں 29 سینٹی میٹر کی کمی واقع ہوئی ہے۔اعداد و شمار کے تجزیے کی بنیاد پر تحقیق میں اس ثقافتی اور ماحولیاتی طور پر جھیل وآبی پناہ گاہ کی حفاظت اور دوبارہ بازیابی کرنے کیلئے فوری پالیسی مداخلت کی سفارش کی گئی ہے۔
ماہرین ماحولیات آنچار کی بگڑتی ہوئی حالت پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے آ رہے ہیں۔معروف ماہر ماحولیات اور ہائیڈرولک انجینئر اعجاز رسول کہتے ہیں’’جھیل زبردست انسانی دباؤ میں ہے جس کے نتیجے میں اس کے پانی کا معیار خراب ہو گیا ہے۔ جھیل کے ساتھ بالائی علاقوں میں انسانی بستیوں سے سارا مائع اور ٹھوس فضلہ جھیل میںچلاجاتا ہے۔یہاں تک کہ مذکورہ علاقے کے زرعی فضلے کو بھی اس میں ٹھکانے لگایا جاتا ہے‘‘۔
پانی کا معیار اس حد تک گر گیا ہے کہ پانی میں گھومنا صحت کیلئے خطرہ بن گیا ہے اور حیاتیاتی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔اعجاز رسول کہتے ہیں’’آنچار جھیل آج تک حکومت کی جانب سے مکمل غفلت اور بے حسی کا شکار رہی ہے۔ ہمارے پاس جھیل کیلئے کوئی منظور شدہ تحفظ اور انتظامی ایکشن پلان نہیں ہے اور اس کے نتیجے میں اس کی دیکھ بھال کیلئے حکام کی جانب سے کوئی فنڈنگ نہیں ہے۔لہٰذا یہ ضروری ہے کہ حکومت اپنے آبی ماحولیات کو متاثر کرنے والی بیماریوں کے تدارک کیلئے ایک جامع تحفظ کاری اور انتظامی ایکشن پلان تشکیل دینے کیلئے کارروائی کرے‘‘۔
وہ مزید کہتے ہیں’’جتناجلدی اس منصوبے کوبنا کر زمینی سطح پر نافذ کیا جاتا ہے، صرف یہی ایک ہی طریقہ ہے کہ کوئی آنچار کے زندہ رہنے اور دوبارہ بحال ہونے کی امید کر سکتا ہے۔ اس مقصد کو یقینی بنانے کیلئے نئی بنائی گئی جموںوکشمیرویٹ لینڈ اتھارٹی کا ایک اہم کردار ہے‘‘ ۔
اس جھیل کی عظمت اور شان و شوکت اس قدر تھی کہ حکام نے کئی دہائیاں قبل شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز صورہ کے پیچھے ہاؤس بوٹس میں میڈیکل ٹورازم شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس منصوبے میںشیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز صورہ کے آنچار جھیل میں ہاؤس بوٹس رکھنے اور انہیں غیر ملکیوں کے لئے پانی میں تیرتے ہوئے وارڈز میں تبدیل کرنے کا تصور کیا گیا تھا۔ لیکن منصوبہ ٹھپ ہو گیا۔ اب پانی کا وسیع و عریض علاقہ زرعی کھیتوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ آنچار پانی کا تالاب نہیں بلکہ کشمیر کے ماحولیاتی نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ سری نگر میں آبی ذخائر کے باہم مربوط ہائیڈروولوجیکل نظام کا حصہ ہے۔ اس کی بقاء ڈل جھیل اور سندھ کیلئے ناگزیر ہے۔ آنچار کے تحفظ کو نو تشکیل شدہ لیک کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ اتھارٹی (LCMA) کے تحت ڈالنے کی ضرورت ہے جسے پہلے LAWDAیعنی لیکس اینڈ واٹر ویز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کہاجاتاتھا جس کے پاس اس کی بحالی شروع کرنے کیلئے مہارت اور مشینری موجود ہے۔مزید تجاوزات کو روکنے کیلئے آنچار کی حد بندی اور باڑبندی کی ضرورت ہے۔ جھیل میں بہنے والے نالیوں کو فوری طور پر بند کیا جانا چاہئے۔ آنچار کے ارد گرد نئے سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس بنائے جائیں۔ سندھ سے جھیل میں ترسیب یا مٹی کی آمد کو روکنے کیلئے تلچھٹ کے جمنے والے طاس ضروری ہیں تاکہ جھیل میں داخل ہونے سے پہلے پانی میں شامل سب ترسیب یا گارا پہلے ہی کہیں بیٹھ جائے۔
یہ حکومت اور عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ آنچار کی رونق بحال کرنے کیلئے ہاتھ ملائیں کیونکہ دونوں ہی اس کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ماحول کو ہونے والا نقصان ناقابل تلافی ہے او ر کسی بھی طور یا کسی بھی صورت میں ا سکی تلافی نہیں ہوسکتی ہے ہم صرف مزید نقصان کو روکنے اور جو کچھ بچا ہے، اسے بچانے کیلئے اقدامات کر سکتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم فطرت کواپنالیں کیونکہ ہمارا وجود اور بقاء اس پر منحصر ہے۔
(مضمون نگارانگریزی روزنامہ ’’گریٹر کشمیر‘‘کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر ہیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔