ڈاکٹر عریف جامعی
حق کی ترویج، اشاعت اور تبلیغ کے لئے انبیاء کرام، صدیقین، شہداء اور صالحین نے عرفان نفس اور ادراک ذات کو اتنی اہمیت دی کہ تزکیہ نفس کا سفر انفرادی سطح سے شروع ہوکر اجتماعی طور پر پورے معاشرے کی اخلاقیات کو پروان چڑھانے کا کام کرتا رہا۔ اس طرح ان برگزیدہ ہستیوں نے اگرچہ حیات انسانی کے عقلی، نفسیاتی اور جمالیاتی پہلوؤں کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا، تاہم ان کے ذریعے انسان اور انسانیت کی اخلاقی جہت کو مرکزی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ سیدنا آدم سے لیکر سیدنا مسیح تک تمام پیغمبران کرام نے انسانیت کے اسی قصر اخلاق کی تعمیر کی اور اس کی اپنے اپنے زمانے کے اعتبار سے تزئین کی۔ اس طرح پیغمبران کرام ہی دراصل انسانی تہذیب و تمدن کے حقیقی معمار ہیں۔ یہ ایک ثابت شدہ بات ہے کہ کوئی بھی معمار بنیادی طور پر استاد ہوتا ہے، اس لئے پیغمبران کرام انسانیت کے اصلی استاد ٹھہرے۔ پیغمبران کرام کی اسی حیثیت کو سیدالانبیاء ؐنے اس طرح بیان فرمایا ہے: “میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا؛ اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے کی ایک اینٹ چھوڑ دی۔ پس لوگ جوق در جوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں (کہ) یہ اینٹ کیوں نہیں لگا دی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء (کرام) کا خاتم ہوں۔ (صحیح بخاری، 3534-3535) قصر اخلاق کی تکمیل کے بارے میں نبی ؐنے اپنے آپ کو نہ صرف “استاذ” (بعثت معلماً) قرار دیا، بلکہ آپ نے اپنی بعثت کا یہی مقصد بیان فرمایا ہے کہ آپ ہی سے “مکارم اخلاق کی تکمیل ہونا تھی!” (بعثت لاتم مکارم الاخلاق)
جہاں تک صدیقین کا تعلق ہے تو بنی آدم کے یہ گل ہائے سرسبد انبیاء کرام کی طرف سے پیش کیے جانے والے حقائق کی نہ صرف تصدیق (مصدر ‘صدق’ یعنی سچائی) کرتے آئے ہیں، بلکہ یہ لوگ انبیاء کرام کے اعوان و انصار بن کر ان کے پیغام حق کی خون دل سے آبیاری کرتے آئے ہیں۔ رب تعالی نے چونکہ کائنات کا نظام حق (یعنی صدق) پر قائم فرمایا ہے، اس لئے اس نظام کی پائیداری کے لئے صدیقین کی ایک اچھی خاصی تعداد کا روئے زمین پر موجود ہونا لازمی ہوتا ہے۔ انہی صدیقین کی بدولت زمین کا نظام نہ صرف عدل و قسط پر استوار ہوتا ہے بلکہ انہی کی وجہ سے یہ نظام قائم و دائم رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ صدیقین کو باطل کے ہر “تیر کے سامنے اپنا جگر” آزمانا پڑتا ہے، اس لئے ان کا ذکر ایک طرف دنیا میں حق کے اصلی علمبرداروں، یعنی انبیاء کرام کے ساتھ ہوتا ہے تو دوسری طرف ان کو آخرت میں اپنے صدق کا پورا پورا صلہ دیا جاتا ہے۔ روئے زمین پر دنیا کے “صدیق اکبر” یعنی سیدنا ابوبکر کا قرآن میں سیدالانبیاء ؐکے ساتھ کچھ اس طرح سے کیا گیا ہے: “اگر تم اللہ کے رسول کی مدد نہ کروگے تو کوئی پروا نہیں، اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس کی جبکہ اسے کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ غار میں تھے۔” (التوبہ، 40) اور مجموعی طور پر صدیقین کو آخرت میں اجر عظیم سے نوازے جانے کا مڑدہ کچھ اس انداز سے سنایا گیا ہے: “اللہ ارشاد فرمائے گا کہ یہ وہ دن ہے کہ جو لوگ سچے تھے ان کا سچا ہونا ان کے کام آئے گا۔” (المائدہ،119)
ظاہر ہے کہ دنیا میں انسانوں کی اکثریت صدیقین کی صف میں شامل نہیں ہوسکتی، اس لئے مومنین کا معتدبہ حصہ صالحین پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔ اب جہاں تک صالحیت کا تعلق ہے، تو یہ کوئی پر اسرار کیفیت کا نام ہے اور نہ ہی یہ کسی ناقابل تصور صلاحیت سے معرض وجود میں آتی ہے۔ صالحین دراصل خدائے واحد کے وہ “دلنواز بندے” ہوتے ہیں جو دنیا میں “صلاح” کے عام فہم کام کرتے ہیں۔ یہی کام انہیں خدا کے فضل و کرم سے ابدی “فلاح” سے ہمکنار کرتے ہیں: “یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کرلی۔” (المومنون، ۱) خدائے رحمان کے یہ بندے “عیار درویشی” سے واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں “عیار سلطانی” سے رغبت ہوتی ہے۔ ان کی امیدیں فقط خدائے رحیم و کریم کے دامن رحمت سے وابستہ ہوتی ہیں:
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری
تاہم یہ صالحین جب درویش بن جاتے ہیں تو ان کی درویشی عیاری سے مبرا ہوتی ہے، اور جب یہ سلطانی (اقتدار) کی باگیں اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو یہ زمیں سے شر اور فساد کو دور کرتے ہیں: “یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جمادیں تو یہ۔۔۔۔۔ اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔” (الحج، 41)
رب تعالی کے برگزیدہ بندوں میں سے جمعیت شہدا ء انبیاء کرام، صدیقین اور صالحین کی کاوشوں، کارگزاریوں اور محنتوں کی امین ہوتی ہے۔ کلمہ حق کی شہادت دینے کے ساتھ ہی یہ لوگ اس شاہراہ عظیم کے راہی بن جاتے ہیں جس کی منزل مقصود “مال غنیمت” ہوتی ہے اور نا ہی “کشور کشائی!” اس گہہ الفت کے ہر مسافر کو ابتدائے آفرینش سے پھولوں کی سیج کی بجائے کانٹوں بھری راہوں کا انتخاب کرنا پڑا ہے۔ ذرا غور کریں کہ کس طرح اصحاب کہف کو طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ یہ اصحاب غار میں پناہ نا لیتے تو ان کے خلاف قوم کوئی بھی انتہا درجے کی کاروائی کرتی۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: “جبکہ تم ان سے اور اللہ کے سوا ان کے اور معبودوں سے کنارہ کش ہوگئے تو اب تم کسی غار میں جا بیٹھو۔” (لکہف، 61) خیر، اصحاب کہف تو رب کائنات کے ایک خاص منصوبے کے تحت قوم کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہے، ریے لیکن “اصحاب اخدود” (گڑھے کھودنے والوں) نے تو اہل حق کو انسانیت سوز اذیتیں دیکر اور تڑپا تڑپا کر شہید کیا۔ قرآن کے الفاظ میں: “(کہ) خندق والے ہلاک کیے گئے۔ وہ ایک آگ تھی ایندھن والی۔ جبکہ وہ لوگ اس کے آس پاس بیٹھے تھے۔ اور مو?منوں کے ساتھ جو وہ کررہے تھے، اس پر خود شاہد تھے۔” (البروج، ۵-۷) یعنی:
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
سیدنا حسین ؓ نے اپنے لئے اسی شاہراہ عزیمت کا انتخاب فرمایا۔ آپ کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ عدل و قسط کا اہتمام مسلم معاشرے کے فقط نجی دائرہ کار کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اس تصور کی تکمیل صرف اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب عدل و قسط کو سیاسی طور پر معاشرے کے پورے ڈھانچے پر قائم کیا جائے۔ اس طرح حکمران وقت کے خلاف آپ کا اقدام ایک طرف مسلم معاشرے کے ایک ذمہ دار فرد ہونے کی حیثیت سے انجام پارہا تھا تو دوسری طرف مسلم نظام حکمرانی (خلافت) میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں، جو خلافت کی بنیادوں کو ہلارہی تھیں، کے خلاف بند باندھنے کی ایک جدوجہد تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، دائرہ کار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، جس کا باضابطہ حکم رب کائنات نے دیا ہے۔ (آل عمران،110) اسی طرح ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ برائی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی (ہاتھ، زبان یا دل کے اردے سے) ذمہ داری، استطاعت کی شرط کے ساتھ، ہر مسلمان کو سونپی گئی ہے۔ (صحیح مسلم) اور ظالم و جابر حکمران کے سامنے اعلان حق کرنے کو کار عزیمت قرار دیا گیا ہے۔ (ترمذی)
ظاہر ہے کہ سیدنا حسین ؓکی شخصیت جس مرتبے اور شان کی حامل تھی، اس کے لئے یہ ناممکن تھا کہ وہ کسی اعتبار سے مسلم ضابطہ حکمرانی میں کی جانے والی تبدیلیوں پر چپ رہتے۔ کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی حکومت کے بنیادی ڈھانچے یا بالفاظ دیگر اسلامی حکومت کے دستور میں ہی تبدیلیاں کی جارہی تھیں۔ سب سے پہلی تبدیلی یہ کی جارہی تھی کہ حکمران کا انتخاب لوگوں کی صوابدید یا آزادانہ رضامندی، جو طریقہ خلفاء راشدین سے چلا آرہا تھا، سے نہیں کیا جارہا تھا۔ اس کے برعکس اب اقتدار کے بل بوتے پر لوگوں سے بیعت لی جارہی تھی۔ نتیجتاً شورائی نظام کو خیرباد کہا جارہا تھا اور منظور نظر افراد ہی قابل اعتماد سمجھے جاتے تھے۔ ایک قدم آگے بڑھ کر آزادی اظہار رائے، جس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا راز چھپا تھا، کی نفی کی جارہی تھی۔ اسی کے لازمی نتیجے کے طور پر اب حکمران خدا اور خلق کے سامنے مسئولیت سے آزاد ہورہا تھا۔ جوابدہی کا احساس ختم ہوتے ہی خدا اور خلق خدا کی امانت یعنی بیت المال اب حکمران کا ذاتی خزانہ بن رہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ قانون (دستور) کی حکمرانی ختم ہورہی تھی اور نہ صرف لوگوں کے حقوق سلب ہورہے تھے، بلکہ لوگوں کے درمیان تصور مساوات، جو اسلام کا بحیثیت ضابطہ حیات طرہ امتیاز تھا، مفقود ہورہا تھا۔
اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ سیدنا حسین ؓکیونکر حکمران وقت کی زور زبردستی سے اس کے ہاتھ پر بیعت کرتے جو خاندان نبوت کے چشم و چراغ تھے؟ دامن نبوی ؐاور مسجد نبوی ؐ کے نوارانی ماحول میں تربیت یافتہ ہستی کو یہی (درد عرفان) “جاننے کا درد” تھا کہ “ہم نہیں تو اور کون ان تبدیلیوں پر روک لگا سکتا ہے؟” ہم جانتے ہیں کہ “بیعت” کے معنی “بیچنے” کے ہوتے ہیں۔ لیکن سیدنا حسین ؓ جیسے مومن صادق خود کو اپنے اموال سمیت خدا کو جنت کے بدلے “بیچ” چکے ہوتے ہیں۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: “بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔” (التوبہ، 111) اسی حقیقت کو کسی نے ان لافانی الفاظ میں بیان کیا ہے: “سر داد نہ داد دست در دست یزید!”
اس کے ساتھ ساتھ سیدنا حسن ؓکی جرأت اور صداقت کو دیکھئے کہ منزل بہ منزل اپنے متعلقین سے فرماتے ہیں کہ “ان (حکمرانوں) کی اصل دشمنی میرے ساتھ ہے، اس لئے آپ لوگ واپس لوٹیں اور مجھے ان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے اکیلا چھوڑ دیں!” ظاہر ہے کہ آپ کو تن تنہا چھوڑ دینا جرأت اور مروت کے خلاف تھا، اس لئے آپ کے ساتھی آخری دم تک آپ کا ساتھ نبھاتے ہیں۔ علاوہ ازیں سیدنا حسین ؓکی صلح جوئی بھی دیدنی ہے کہ آپ اپنے مدمقابل افواج کے کمانداروں سے تین نہایت ہی معقول شرائط رکھتے ہیں، یعنی:
۱۔ مجھے وہیں لوٹ جانے دو جہاں سے آیا ہوں۔
۲۔ مجھے خود یزید سے اپنا معاملہ طے کر لینے دو۔
۳۔ مجھے مسلمانوں کی کسی سرحد پر بھیج دو۔ وہاں لوگوں پر جو گزرتی ہے، وہی مجھ پر بھی گزرے گی۔
ناعاقبت اندیش کماندار ان معقول اور دانشمندانہ شرائط پر بھی سیدنا حسین ؓ کے ساتھ وہ معاملہ نہ کرسکے، جس کے وہ بہرحال مستحق تھے۔ اس لئے وہ سانحہ عظیم برپا ہوا جس کا امت ہنوز خمیازہ بھگت رہی ہے۔ بہرحال سیدنا حسین ؓنے شاہراہ عزیمت کا انتخاب کرکے ثابت کیا کہ:
یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری
(مضمون نگار محکمہ اعلیٰ تعلیم میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
ای میل۔ [email protected]